ہاں قرآن پوری طرح محفوظ ہے- Yes, the Qur’an is completely safe

0
157

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


Yes, the Qur'an is completely safe

ذکی نور عظیم ندوی ،لکھنؤ
قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ آخری کتاب ہدایت ہے، یہ کتاب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر نازل ہونے کے بعد سے قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کے لئے دستور حیات ہے۔ اسی لئے اللہ تبارک و تعالی نے خود ہی اس کی پوری ذمہ داری بھی لی اور ہر طرح سے اس کا انتظام بھی فرمایا، اور اس کا مختلف طریقوں سے مختلف موقعوں پر قرآن میں بھی تذکرہ فرمایا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یاد کرنے کے مقصد سے اس کو جلدی جلدی دہرانے سے منع کردیا اور اس کی صرف حفاظت ہی نہیں بلکہ اس کی وضاحت کی بھی مکمل و پوری و ذمہ داری لی اور فرمایا ” اور وحی کو جلدی یاد کرنے کے لئے اپنی زبان نہ چلائیں، اس کو محفوظ و جمع کرنا اور پڑھانا ہمارے ذمے ہے،جب ہم وحی اتاریں تو اس کو سنیں اور پھر اسی طرح پڑھا کریں، پھر اس کے معانی کا بیان بھی ہمارے ذمے ہے (سورہ قیامہ آیت نمبر 16-19)
اسی طرح قرآن کریم کی بہت سی آیتوں میں مختلف اسلوب میں صراحت سے اس کی حفاظت اور اس کی خود ذمہ داری کا تذکرہ فرمایا گیا، جس کے انکار تو دور، اس میں شک و شبہ کی بھی کسی طرح کوئی گنجائش نہیں، خاص طور پر کسی مسلمان کو تو اس کی قطعا اجازت نہیں اور اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو بے شمار آیتوں کا انکار لازم آنے کی وجہ سے اس کے ایمان سلب ہونے میں شبہ کی گنجائش نہیں۔ لہٰذا آئیے ان آیات کا مختصر جائزہ لیں جس میں اللہ تعالی نے خود قرآن کریم کی حفاظت کا تذکرہ فرمایا ہے۔
1-’’بیشک یہ (کتاب) نصیحت ہم نے ہی اْتاری ہے اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں (سورہ حجر آیت نمبر9)امام طبری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کی اس طرح حفاظت فرمانے کا وعدہ کیا کہ اس کے باہر سے کوئی بھی باطل اور غلط چیز نہ اس میں شامل کی جا سکتی ہے اور نہ ہی اس سے کوئی چیز نکالی جا سکتی ہے۔
2-’’بے شک کافروں نے کتاب نصیحت کو ان پر نازل ہونے کے وقت نہ مانا۔ جب کہ یہ ایک عالی رتبہ کتاب ہے، اس پر جھوٹ وباطل کا دخل نہ سامنے سے ہوسکتا ہے نہ پیچھے سے۔ یہ حکمت اور خوبیوں والے پروردگار کی اْتاری ہوئی کتاب ہے (سورہ فصلت آیت نمبر41-42)
امام طبری رحمہ اللہ اس آیت کے تعلق سے اظہار فرماتے ہیں کہ یہ کتاب اللہ کے نازل کرنے اور اس کی حفاظت کی ذمہ داری لینے کی وجہ سے اعلی رتبہ کتاب قرار پائی ہے ،جس میں کسی بھی سازش سے قرآن سے باہر کی کوئی چیز نہ شامل ہو سکتی ہے اور نہ اس کے معنی اور مفہوم میں کسی بھی طرح کوئی تبدیلی کی جاسکتی ہے۔
3- ’’ اپنے پروردگار کی نازل کردہ کتاب کی تلاوت کرو۔ اس کو کوئی بدلنے والا نہیں۔ اور اس کے سوا تم کہیں پناہ کی جگہ بھی نہیں پاؤ گے (سورہ کہف آیت نمبر27) علامۃ سعدی ؒ نے فرمایا کہ اللہ نے اس آیت میں صاف صاف اعلان فرما دیا کہ یہ وہ عظیم کتاب ہے جس کے کسی کلمہ کو کبھی بھی کوئی بھی تبدیل نہیں کر سکتا۔
4- ’’اور تم پہلے کوئی کتاب نہیں پڑھتے تھے اور نہ اْسے اپنے ہاتھ سے لکھ ہی سکتے تھے، ایسا ہوتا تو اہلِ باطل ضرور شک کرتے۔ بلکہ یہ روشن آیتیں ہیں۔ اور یہ ان لوگوں کے سینے میں محفوظ ہے جن کو علم دیا گیا ہے اور ہماری آیتوں سے انکار وہی کرتے ہیں جو ظالم ہیں۔ (سورہ عنکبوت آیت نمبر48-49)
اس آیت میں یہ واضح کردیا گیا ہے قرآن کریم تو نزول کے وقت سے ہی لوگوں کے سینوں میں بھی محفوظ ہے یعنی بہت سے حفاظ کرام کو یہ پورا کلام پاک زبانی یاد ہے جس میں کچھ کمی زیادتی لکھ کر بھی نہیں کی جا سکتی۔ اور پھر آیت کے آخر میں قرآن میں کمی زیادتی کی بات کرنے اور ماننے والوں والوں کے بارے میں صراحت سے اعلان کر دیا گیا کہ اگر کوئی بھی شخص قرآن میں کمی یا زیادتی کی بات کہتا یا قبول کرتا ہے تو وہ ظالم یعنی کافر ہے۔
5- ’’اگر یہ رسول بھی ہمارے بارے میں کوئی بات بنا لاتے، تو ہم ان کا داہنا ہاتھ پکڑ لیتے، پھر ان کے گردن کی رگ کاٹ ڈالتے، پھر تم میں کوئی بھی اس سے روکنے والا نہ ہوتا (سورہ حاقۃ آیت نمبر 44-47) اس آیت میں اگر اپنی طرف سے کجھ کہنے کی وجہ سے اس طرح کی وعید اور دھمکی سید الانبیاء محمد مصطفیؐکے تعلق سے قرآن میں بیان کی جا سکتی ہے تو کسی دوسرے فرد بشر کو اس میں تبدیلی یا کمی و زیادتی کی کیسے جرأت ہو سکتی ہے۔ اور اگر بفرض محال کسی نے اس کی جرات بھی کی تو جمہور امت اس کو کیسے گوارا اور قبول کر سکتی ہے۔ اور خود اللہ تعالیٰ اس کا کیا انجام کریں گے اور کس طرح اسے عبرتناک سزا دیں گے۔
6- مسلم شریف میں حضرت عیاض بن حمار مجاشعی کی ایک روایت میں ہے کہ” میں نے آپ کے اوپر ایک ایسی کتاب نازل فرمائی آئی جسے پانی دھل نہیں سکتا” اس حدیث کے بارے میں امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اگر قرآن کریم کے لکھے ہوئے نسخوں کو دھل کر ،جلاکر یا کسی بھی طرح ختم کر دیا جائے تب بھی حفاظ کرام کے دلوں اور سینوں سے اسے ختم نہیں کیا جاسکتا۔
اسی طرح بہت سی آیتوں میں قرآن کریم کے اللہ کا کلام ہونے میں شکوک وشبہات کا اظہار کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے خود قرآن میں ہی قرآن جیسا کلام لانے کا چیلنج بھی کیا، لیکن ہر زمانے میں ہر طرح کی انفرادی اور اجتماعی کوششوں کے باوجود بھی اس میں مکمل ناکامی کی حقیقت کو بیان فرمایا اور اس طرح قرآن میں کسی بھی طرح کے اضافے کے امکان کو پوری طرح رد کر دیا گیا۔ آیئے ذیل میں ان آیتوں کے اردو ترجمہ پر مع حوالہ غور کرنے کی کوشش کریں۔
1- ’’ اگر یہ سچے ہیں تو ایسا کلام بنا کر تو لائیں‘‘(سورہ طور آیت نمبر34)
2- ’’ لوگ کہتے ہیں کہ رسول نے اس کو خود بنا لیا ہے کہہ دو کہ اگر تم سچے ہو تو تم بھی اس طرح کی ایک سورت بنا لاؤ اور اللہ کے علاوہ جن کو بھی تم بلا سکو ان کو بھی بلا لو (سورہ یونس آیت نمبر 38)
3- ’’یہ کہتے ہیں کہ اس نے قرآن ازخود بنا لیا ہے؟ کہہ دو کہ اگر تم سچے ہو تو تم بھی ایسی دس سورتیں بنا لاؤ اور اللہ کے علاوہ جس جس کو بلاسکتے ہو،ان کو بھی بلا لو‘‘(سورہ ہود آیت نمبر 13)
4-’’یہ کہتے ہیں کہ اس (پیغمبر) نے یہ قرآن اپنے دل سے بنا لیا ہے؟ کہہ دو کہ اگر میں نے بنالیا ہے تو میرے گناہ کا وبال مجھ پر ہو گا اور جو گناہ تم کرتے ہو اس سے میں بری الذمہ ہوں ‘‘(سورہ ہود آیت نمبر 35)
5- ’’لوگ یہ کہتے ہیں کہ پیغمبر نے اس کو از خود بنا لیا ہے؟ (نہیں) بلکہ وہ تمہارے پروردگار کی طرف سے برحق ہے تاکہ تم ان لوگوں کی رہنمائی کرو جن کے پاس تم سے پہلے کوئی رہنما نہیں آیا تاکہ یہ ہدایت پا جائیں (سورہ سجدہ آیت نمبر 3)
6-’’ لوگ کہتے ہیں کہ اس نبی نے اس کو خود بنا لیا ہے۔ کہہ دو کہ اگر میں نے اس کو خود بنایا ہو تو تم اللہ کے سامنے میرے (بچاؤ کے) لئے کچھ نہیں کر سکتے وہ اس کو خوب جانتا ہے جو تم اس کے بارے میں کرتے ہو۔ وہی میرے اور تمہارے درمیان گواہ کی حیثیت سے کافی ہے۔ اور وہ بخشنے والا مہربان ہے (سورہ احقاف آیت نمبر 8)
اللہ تعالیٰ نے ان مختلف طریقوں اور اسلوب سے قرآن کی حقانیت، اس کی مکمل حفاظت، وضاحت اور ہر طرح کے نقص و اضافہ کے ہر طرح کی تردید کرنے کے بعد سب کو قرآن کریم میں غور و خوض کا چیلنج اور اس کے جائزہ کی عمومی دعوت دی اور پوری طرح یہ واضح کر دیا کہ اگر اس پورے کلام پاک میں کہیں بھی کسی نے، کبھی بھی، کوئی اضافہ کیا ہوتا تو اس کے اسلوب میں، اس کے حقائق میں، اس کے معنی و مفہوم میں یقینا فرق ہوتااور اگر ایسا نہیں تو یہ واضح دلیل ہے کہ یہ کلام پوری طرح محفوظ اور ہر طرح کی تحریف، تبدیلی اور نقص و اضافہ سے پاک ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔’’ بھلا یہ قرآن میں غور کیوں نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ کے علاوہ کسی اور کا (کلام) ہوتا تو اس میں بہت اختلاف پاتے(سورہ نساء آیت نمبر82)۔
٭٭٭

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here