عبدالرحمن پاشا، حیدرآباد
کرۂ ارض میں انسانی زندگی کے لیے جہاں ہوا، پانی اور بہتر ماحول کی ضرورت ہوتی ہے وہیں پیڑ پودے اور جنگلات کی بھی اتنی ہی اہمیت ہے۔ دنیا کے نقشہ پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ زمین کے بیشتر حصوں پر گھنے جنگلات موجود ہیں۔ ان جنگلات میں لہلہاتے پیڑ پودے، مختلف انواع و اقسام کے جانور، چرند پرند، بلند و بالا پہاڑ اور خوبصورت پھول حسین نظارہ پیش کرتے ہیں۔ یہاں قدرت کے حسین و جمیل نظارے اپنی پوری تابناکی کے ساتھ خوش کن اور دل ربا انداز میں نظر آتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ جنگلات کی الگ دنیا ہے، جہاں ہزاروں مخلوقات آباد ہیں۔ جہاں شیر ڈھاڑتا ہے، پرندے مست خرامی کے ساتھ فضا کی وسعتوں میں محو سفر رہتے ہیں، وہیں دیگر جانور بھی اپنی زندگی میں مگن رہتے ہیں۔ جنگلات سے انسان کی شروع دن سے ہی اٹوٹ وابستگی رہی ہے۔ انسان نے ابتدائی دور میں جنگلات میں ہی اپنی زندگی بسر کی۔ آج اکسیویں صدی میں سائنس و ٹکنالوجی کی بے پناہ ترقیوں کے باوجود جنگلات اور جنگلی زندگی کی اہمیت پہلے سے کئی زیادہ بڑھ گئی ہے۔ صنعتی انقلاب کے بعد انسانی زندگی کا نظام درہم برہم ہوگیا ہے۔ ماحولیاتی نظام کا تحفظ اور حیاتیاتی تنوع کی حفاظت آج کے دور کا اہم مسئلہ بنتا جارہا ہے۔
انسانی زندگی اور جنگلی حیات:
موسمیاتی تبدیلی، جنگلات کے عدم تحفظ، عالمی حدت (GlobalWarming) پیڑوں کی کٹوتی اور جنگلات میں آگ لگ جانے (Wildfire) کی وجہ سے انسانی آبادی کے لیے جو نقصان ہورہا ہے، پہلے اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ انسانوں کو صحت مند زندگی کے لیے آکسیجن (O2 )کی ضرورت پودوں سے پوری ہوتی ہے اور کاربن ڈائی آکسائڈ (CO2) کو پودے جذب کرلیتے ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق ہر انسان روزانہ تقریبا ایک کلو گرام کاربن ڈائی آکسائڈ سانس کے ذریعے خارج کرتا ہے۔ اس طرح دنیا کی آبادی سالانہ تین ارب ٹن کاربن ڈائی آکسائڈ فضا میں چھوڑتی ہے۔
پیڑ پودے سورج کی روشنی کی توانائی کو جذب کرکے اور ماحول میں موجود کاربن ڈائی آکسائڈ کو حاصل کرکے آکسیجن پیدا کرتے ہیں۔ جسے ضیائی تالیف (Photosynthesis) کہا جاتا ہے۔ اس طرح انسان کو پودوں سے مفت میں زندگی کی پیش قیمت دولت یعنی آکسیجن حاصل ہوتا ہے۔ تصور کیجیے کہ اگر آکسیجن کو خرید کر استعمال کرنا پڑے تو انسان کی معاشی حالت کیا رہ جائے گی؟۔ ایک تحقیق کے مطابق جس علاقے میں باغات،جنگلات اور عام شاہراہوں میں زیادہ پودے ہو تو وہاں کی ہوا کا معیار شفاف اور ستھرا ہوتا ہے۔ اس کی وجہ سے آکسیجن کی مقدار بھی وافر مقدار میں ملتی ہے۔ وہیں جن علاقوں میں پودوں کا خاص اہتمام نہ ہو تو وہاں زیرہلی گیس یعنی کاربن ڈائی آکسائڈ میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور انسان کو قابل استعمال ہوا اور بہتر ماحول میسر نہیں آتی۔ ہندوستان میں 21.67 فیصد حصہ جنگلات پر مبنی ہے۔
بدلتی دنیا میں جنگلی زندگی:
ہر برس تین مارچ کو بین الاقوامی سطح پر عالمی یوم جنگلی زندگی کے طور پر منایا اور پہچانا جاتا ہے۔ یہ دن جنگلی حیوانات اور نباتات سے آگاہی کے لیے وقف ہے۔ صنعتی انقلاب اور جنگلاتی آگ کی وجہ سے پچھلی دہائی سے دنیا میں جنگلی حیات کی تعداد اور استحکام میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق اگرچہ ورلڈ وائلڈ لائف ڈے ایک سالانہ جشن ہے، لیکن جنگلی حیات کا تحفظ ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر ہر روز توجہ اور عمل کی ضرورت ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ 20 ؍دسمبر 2013 کواقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میںایک قرار داد پیش کی گئی۔ جس میں 3؍مارچ کو کرۂ ارض پر جانوروں اور پودوں کے بارے میں شعور بیدار کرنے اور اس دن ’ورلڈ وائلڈ لائف ڈے‘ کے طور پر منانے کا اعلان کیا گیا۔ مذکورہ قرارداد میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے نباتات اور حیوانات کی اہمیت پر زور دیا اور جنگلی حیات کی اہمیت کو موثر انداز میں بیان کیا گیا۔ اقوام متحدہ نے یہ اعلان کیا کہ عالمی یوم جنگلی زندگی کو دنیا کی بدلتی نوعیت اور ایسے نباتات اور حیوانات کے بارے میں آگاہی فراہم کرنے کے لئے وقف کیا جائے گا۔ جسے انسانی سرگرمیوں، صنعتی دھواں اور گاڑیوں سے اخراج ہونے والی مادوں کی وجہ سے مستقل طور پر خطرہ لاحق ہے۔
رواں برس عالمی یوم جنگلی حیات ( ورلڈ وائلڈ لائف ڈے )کا تھیم جنگلات اور ذریعہ معاش: انسانوں اور کرۂ ارض کا استحکام (Forests and Livelihoods: Sustaining People and Planet) ہے۔ اس کا مختصر خلاصہ یہ ہے کہ جنگلات سے وابستہ افراد جنگلی حیات کے تحفظ کے ساتھ دستیاب وسائل کا بہتر سے بہتر استعمال کرسکیں، اس طرح انھیں ذریعہ معاش حاصل ہوگا اور ان کی معیار زندگی بھی بلند ہوگی۔ اس کی ایک بہترین مثال وہ فوٹو گرافرس ہیں، جن کا سب سے محبوب مشغلہ وائلڈ لائف فوٹو گرافی ہے۔ پیشہ ورانہ وائلڈ لائف فوٹو گرافر کی ایک ایک تصویر ہزاروں اور لاکھوں روپیوں میں فروخت ہوتی ہے۔ ان کی لی گئی تصاویر جنگلی حیات کا جیتا جاگتا نمونہ پیش کرتی ہیں۔ یہ ایسی تصویر کشی کرتے ہیں کہ عام انسان کے خواب و خیال تک وہ تصور نہیں آتا کہ کسی منظر کو ایسا بھی کیمرے کی آنکھ سے قید کیا جاسکتا ہے اور اسے طویل عرضہ تک محفوظ رکھا جاسکتا ہے، اس طرح کی تصویر لینے والے اپنی تخلیقی سوچ کا بہترین استعمال کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں مائیکل اے ڈبلیو، مارٹن بیلی، کیرن لیننی، جون کارنفورٹ، نینیٹ بونیر کو ’ٹاپ۔10 وائلڈ لائف فوٹو گرافر‘ میں شمار کیے جاتے ہیں۔ خود ہندوستان میں بھی جینت شرما، رتھیکا رامسمی، کلیان ورما، سندیش قدوراور شیکر دتاتری وغیرہ کو جنگلی حیات سے متعلق تصویر کسی میں عالمی شہرت اور یدطولی حاصل ہے۔
کورونا وائرس اور جنگلی حیات:
عالمی وبا کورونا وائرس (کووڈ۔19) کی وجہ سے دنیا بھر میں انسانی زندگی کو غیر متوقع طور پر سخت نقصان پہنچا ہے۔ عالمی معیشت کو بھیانک دھچا لگا ہے۔ وہیں معاشرتی قدروں میں بھی بنیادی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ Worldo Meters کی رپورٹ کے مطابق تین مارچ 2021 تک عالمی سطح پر کووڈ۔19 کی وجہ سے 2,560,647 افراد کی موت واقع ہوئی ہے۔ اب تک کورونا کے 115,302,074 کیسیز اور کورونا سے متاثر ہو کر صحت یاب ہونے والوں کی تعداد 91,127,380 ہیں۔ اس سب کے باوجود خدا کا شکر ہے کہ کورونا وائرس جانوروں میں نہیں پھیلا، جنگلی حیات اس وبا سے محفوظ ہے، بلکہ کورونا کے دور میں ماحولیات میںبہتری آئی ہے۔ ایسی کئی رپورٹس بھی شائع ہوچکی ہیں۔ جس میں بتایا گیا ہے کہ کورونا کی وجہ سے نافذ ہونے والے لاک ڈاون کی وجہ سے ماحولیات کو تحفظ حاصل ہوا ہے اور ہوا کے معیار میں نمایاں تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ صنعتی سرگرمیوں میں کمی کی وجہ سے کئی پرندوں نے پرسکون انداز میں ایک مقام سے دوسرے مقام تک نقل و حرکت بھی کیا ہیں۔
آئیے عالمی یوم جنگی حیات کے موقع پر عزم کریں کہ ہم قدرت کے اس عظیم تحفہ کی قدر کریں۔ہمیں ہمارے رویہ میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ اپنے اطراف کے ماحول کو صاف رکھیں اور شجرکاری کو فروغ دیں یا کم از کم جو پودے لگے ہوئے ہیں ، ان کی نگران اور حفاظت پر زور دیں۔ جانوروں کے ساتھ بہتر سلوک کریں۔ اس ضمن میں ایک حدیث کا ذکر ضروری ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ جو کوئی مسلمان پودا لگائے یا کھیتی باڑی کرے گا اور اس سے پرندے اور انسان جب تک استفادہ کرتے رہیں گے اس کے لیے صدقہ کا ثواب ملتا رہے گا۔ہندوستان کے وزیراعظم نریندر مودی نے اس موقع پر ٹوئٹ کیا کہ ’ورلڈ لائف ڈے کے موقع پر میں ان تمام لوگوں کو سلام پیش کرتا ہوں جو جنگلی حیات کے تحفظ کے لئے سرکرم ہیں۔ ہندوستان میں مختلف جانوروں جیسے شیر، ببر اور چیتا وغیرہ کی آبادی میں مستقل اضافہ ہو رہا ہے۔ ہمیں اپنے جنگلات اور جانوروں کے لیے محفوظ رہائش گاہوں کے تحفظ کو یقینی بنانا ہوگا‘۔