[email protected]
9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مند رجه بالا ای میل اور واٹس ایپ ن مبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں ۔
ہر ایمان والا جانتا ہے کہ اسلام نے خواتین پر یہ بڑی مہربانی کی ہے کہ اسے وراثت کا حق دار ٹھہرایا ہے ورنہ اسلام سے قبل کے مذاہب اور آج بھی دنیا کے اکثر مذاہب میں خواتین کو وراثت سے محروم رکھا گیا ہے لیکن اس کے باوجودیہ اعتراض بڑے زوروشور کے ساتھ اٹھایا جاتا ہے جس سے بعض مسلمان بھی شک میں مبتلا ہوجاتے ہیں وہ اعتراض یہ ہے کہ اسلام نے وراثت میں مرد کے لیے عورت سے دوگنا حصہ کیوں مقرر کیا ہے ؟حالانکہ عورت کمزور ہوتی ہے وہ کمانے والے بھی نہیں ہوتی؟ان اعتراضات کا جواب اسلام کے ذریعے اس طرح دیا گیاہے کہ اسلام نے عورت کو کمانے کی ذمہ داری نہیں سونپی بلکہ اس کے تمام اخراجات کی ذمہ داری مردوں کے سپردکی ہے چاہے وہ مرد اس کاوالد ہو ، بھائی ہو یا شوہر یا بیٹا ہو۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں کہ جب اس کے تمام اخراجات مرد پورے کریں گے تو اسے اگر وراثت میں مرد کے مقابلے میں کم حصہ دیا گیا تو یہ اس پر کسی طرح بھی ظلم نہیں ہے۔
اسلام نے عورت کو کسی اور پر مال خرج کرنے کی ذمہ داری بھی نہیں ڈالی۔جبکہ مرد کے ذمہ تو بہت سے اخراجات ہیں ، اپنی بیوی کے اخراجات ، والدین کے اخراجات اور اولاد وغیرہ کے اخراجات۔اس کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ جسے دوسروں پر بھی خرچ کرنا ہے اس کا حصہ زیادہ ہو اور جس پر دوسروں پر خرچ کرنے کی ذمہ داری نہیں ہے اس کے لیے کم حصہ ہوَ
آج ہمارے معاشرے کا جو حال ہے چاہے اس کا تعلق بے روزگاری سے ہو،قطع تعلقی سے ہو،والدین کی نافرمانی سے ہو،بیوی سے نااتفاقی کاہو۔ہوسکتاہے ان سب کا تعلق میراث صلبی سے ہو۔لہٰذاہمیں چاہئے کی ہم اپنی بہنوں،بیٹیوں کو وراثت میں حصہ دیں جوہم پر لازم بھی ہے اور اپنے آپ کو حق تلفی سے بچائیں۔حالانکہ اگر ہم غور کریں تو شاید ہم اپنی بیٹیوں،بہنوں کی شادی میں جہیز ، کھانے،سجاوٹ کے نام پر اس کی وراثت سے زیادہ خرچ کردیتے ہیں جو بے معنی ثابت ہوتاہے کیوں کہ ہم اس کے حقوق سے دستبردار نہیں ہوتے ہیں۔لہٰذا ہمیں عہد کرناچاہیے کہ ہم اپنی بیٹیوں ،بہنوں کو اس کا حق ضرور دیں،تبھی اللہ ہم سے راضی ہوگا۔
عبداللطیف ندوی
دارالعلوم نظامیہ فرنگی محل لکھنؤ
رابطہ نمبر:7355097779