عباس دھالیوال
کسی زمانے میں امریکہ و روس دو عالمی طاقتیں ہوا کرتی تھیں. دونوں میں ٹھنڈی جنگ کو لیکر دنیا بھر میں بحث مباحثے ہوا کرتے تھے . لیکن پھر جیسے ہی 1990 کی دہائی کے شروعات میں روس کا شیرازہ بکھرنے لگا تو اس کے نتیجے میں روس سے کچھ ریاستوں نے آزاد مملکت کی شکلیں اختیار کر لیں روس سے نکلنے والی ان ریاستوں کے چلتے روس کا ایک طرح سے دبدبہ کم ہونے لگا. روس کا دبدبہ کم ہوتا دیکھ امریکہ خود کو دنیا کی واحد عالمی قوت کہلانے لگا. اس عرصے کے دوران جوہری ہتھیاروں دیگر مسائل کو لیکر روس و امریکہ دونوں کے درمیان رشتے بگڑتے سنورتے رہے.
اب ایک پھر دونوں ممالک کے رشتوں کو دنیا کے ممالک میں مختلف قسم کی باتیں ہو رہی ہیں. دراصل اس کی وجہ امریکہ کے نو منتخب صدر جو بائیڈن کے ایک دھمکی آمیز بیان کو مانا جا رہا ہے. بائیڈن کے اس دھمکی بھرے بیان کے بعد روس اور امریکہ کے بیچ حالات ایک بار پھر سے کشیدہ صورتحال اختیار کرتے ہوئے دکھائی پڑ رہے ہیں. جوبائیڈن جن سے گزشتہ دنوں ‘اے بی سی’ ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے ایک انٹرویو کے دوران پوچھا گیا تھا کہ آیا وہ سمجھتے ہیں کہ پیوتن ایک قاتل ہیں جس پر امریکی صدر نے جواب میں کہا کہ ‘میں ایسا ہی سمجھتا ہوں۔
اس کے بعد روس نے امریکہ کے ساتھ بگڑتے دو طرفہ تعلقات سے متعلق مشاورت کے لیے امریکہ میں موجود اپنے سفیر کو واپس ماسکو بلا لیا ہے۔ یہاں قابل ذکر ہے کہ مذکورہ انٹرویو میں امریکی صدر بائیڈن نے کہا تھا کہ روسی صدر ولادی میر پیوٹن کو اپنے بدخواہانہ اقدامات کی ‘قیمت چکانا پڑے گی’۔
جس کے اس ضمن میں روسی وزارتِ خارجہ نے کو واشنگٹن میں تعینات اپنے سفیر اناطولی انتونوو کی عارضی واپسی کے حوالے سے یہی کہا کہ سفیر کی واپسی کا مقصد دونوں ملکوں کے بیچ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے راستوں کی نشاندہی کرنا ہے. روسی وزارتِ خارجہ کے مطابق امریکہ روس کے ساتھ تعلقات کو ایک بند گلی میں لے گیا ہے جب کہ ماسکو کی کوشش ہے کہ تعلقات کو دوبارہ قائم کیا جائے.
جوبائیڈن کے جس مذکورہ انٹرویو کے بعد یہ کشیدگی پیدا ہوئی ہے اس میں امریکی صدر نے اپنے روسی ہم منصب کو کہا تھا کہ ‘میرے خیال سے آپ میں احساس نہیں ہے’، جس پر ان کے بقول روسی صدر نے جواب دیا تھا کہ ‘ہم ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔
اس انٹرویو کے دوران جب صدر بائیڈن سے یہ پوچھا گیا کہ آیا وہ سمجھتے ہیں کہ پیوٹن ایک قاتل ہیں جس پر امریکی صدر نے جواب دیا کہ ‘میں ایسا ہی سمجھتا ہوں’۔
ادھر اس انٹرویو کے حوالے سے امریکی تھنک ٹینک رینڈ کارپوریشن سے منسلک ایک سینئر فیلو ولیم کورٹنی کا کہنا ہے کہ یہ بہت کم ہوتا ہے کہ ایک امریکی صدر کسی حریف ملک کے سربراہ کو قاتل سے تشبیہہ دیں۔
اس دوران جب پریس سیکریٹری سے ماسکو کی جانب سے اپنے سفیر کو واپس بلانے سے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ بائیڈن انتظامیہ پہلے کی انتظامیہ کے مقابلے میں روس کے ساتھ تعلقات میں ایک مختلف سوچ اپنائے گی. جبکہ محکمۂ خارجہ کی نائب ترجمان جالینا پورٹر نے صحافیوں کو بتایا کہ ہم امریکی مفاد کے لیے روس کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ تاہم روس کی کسی بھی جارح کارروائی کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔ واضح رہے کہ اس سے پہلے جو بائیڈن انتظامیہ نے نئے جوہری ہتھیاروں اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے جیسے باہمی تعاون کے شعبوں میں ماسکو کے ساتھ کام کرنے میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔
جبکہ اس سے پہلے بائیڈن نے انٹیلی جنس کے پتا لگائے گئے ایک ڈی کلاسیفائڈ ورژن کو جاری کرنے کا حکم دیا تھا جس میں روسی ریاستی میڈیا، ٹرولز اور روسی انٹیلی جنس کی ہدایت شدہ آن لائن پراکسیز کی جانب سے صدر بائیڈن، ان کے اہل خانہ اور ڈیموکریٹک پارٹی سے متعلق تنقیدی مواد شائع ہونے سے متعلق معلومات تھیں۔
نیشنل انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر کے دفتر سے جاری مذکورہ رپورٹ میں یہ کہا گیا ہے کہ روس سمیت ایران امریکی صدارتی انتخابات میں عوام کے اعتماد کو کمزور کرنے کی وسیع کوششوں میں مصروف رہے۔
ادھر مذکورہ رپورٹ میں ہوئے خلاصہ کے ضمن میں روسی صدر کے ترجمان دمتری پیسکوو کا کہنا ہے کہ امریکی انٹیلی جنس رپورٹ ‘غلط تھی اور اس کی کوئی بنیاد اور ثبوت نہیں۔’
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی چار سالہ مدت کے دوران روسی صدر کے امریکہ کے ساتھ خوشگوار تعلقات تھے اور ٹرمپ اکثر پیوتن کی برملا تعریف کیا کرتے تھے۔
جبکہ اس سے پہلے ٹرمپ نے 2016 کے صدارتی انتخابات میں روس کی جانب سے مداخلت سے متعلق امریکی انٹیلی جنس کمیونٹی کے اخذ کردہ نتائج کو بھی مسترد کر دیا تھا۔’
لیکن ٹرمپ کے اقتدار کے جانے کے بعد ان سے وابستہ تنازعات ابھی تک ان کا پیچھا نہیں چھوڑ رہے ہیں. اس کی تازہ مثال روس کے حوالے سے بائیڈن کا بیان ہے. اب آگے اس ضمن دیکھنا کافی دلچسپ ہوگا کہ آنیوالے دنوں میں امریکہ اور روس کے مابین مذکورہ رپورٹ میں ہوئے خلاصہ کے بعد کیا صورت حال پیش آتی اور دونوں ممالک کے رشتوں پہ اس خفیہ ایجنسی کی رپورٹ کے اثرات پڑتے ہیں .
رابطہ 9855259650
[email protected]