کیوں نہ کہوں: امتحان نہیں موجودہ تعلیمی نظام کینسل کیجئے- Why not say: No exam. Cancel the current education system

0
203

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


Why not say: No exam. Cancel the current education system

سید خرم رضا
کچھ دنوں پہلے تک سی بی ایس ای بورڈ کے دسوی جماعت کے کچھ بچے چاہ رہے تھے کہ جلدی سے بورڈ کےامتحان ہو جائیں اور کچھ کی دلی خواہش تھی کہ امتحان کینسل ہو جائیں اور وہ بغیر امتحان دئےہی اگلی کلاس میں چلے جائیں۔ کل مرکزی حکومت نے فیصلہ لیا کہ اس سال کورونا وبا کی وجہ سے دسوی کے بورڈ کے امتحان نہیں ہوں گے اور طلباء بغیر امتحان دئے ہی اگلی جماعت میں پہنچ جائیں گے۔ جو بچے امتحان کے حق میں نہیں تھے ان کا اس خبر کے بعد خوشی کا کوئی ٹھکانہ ہی نہیں رہا۔
دسوی جماعت کی طرح بارہویں جماعت کے بھی بورڈ کے امتحان ہونے تھے اور ان کی 4 مئی سے شروع ہونے جا رہی تھی لیکن اب حکومت نے ان کو بھی آگے کے لئے ملتوی کر دیا ہے۔ امتحانات آگے کب ہوں گے اس کا فیصلہ سی بی ایس ای بورڈ یکم جون کو کرے گا یعنی ان بیچاروں کے سروں پر یکم جون تک تلوار لٹکی رہے گی! جو بچے امتحان دئے بغیر کالج میں جانا چاہتے ہیں وہ تو یہی چاہیں گے کورونا کاقہر کم ہی نا ہو! بہر حال ان کے تعلق سے یہ دلیل دی جا رہی ہےکہ کیونکہ ان بچوں کو آگے کی تعلیم کے لئے کالج، یونورسٹی اور کورس کا انتخاب کرنا ہے اور اس کا دارومدار بارہوی کے امتحانات میں طلباء کی کارکردگی پر ہے، اس لئے ان امتحانات کو کرانا ضروری ہے۔دسوی جماعت کے امتحان کینسل کر دینا اور بارہویں کے کینسل نہ کر کے ملتوی کر دینا پورے تعلیم نظام پر سوال کھڑا کرتا ہے۔ حکومت کے اس فیصلے سے ایک بات تو ظاہر ہو گئی ہے کہ ہمارے تعلیمی نظام میں اصل اہمیت جو ہے وہ ہے بارہویں جماعت کے امتحان کی یعنی اس سے پہلے کی کلاسوں کے امتحان بارہویں جماعت تک پہنچانے کے لئے تو ضروری ہیں لیکن تعلیم اور تعلیم کے ذریعہ بننے والے پیشہ میں خود ان کا کوئی بڑا کردار نہیں ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر ہمیں اپنے تعلیمی نظام پر از سر نو غور کرنے کی ضرورت ہے۔یہ بالکل الگ بات ہے کہ جو تعلیم ہمیں یا ہمارے بچوں کو دسوی جماعت تک دی جا رہی ہے اس کا اب اصل پیشہ ورانہ زندگی میں کوئی خاص استعمال نہیں رہا۔ انگیزی میں جن کو ٹیبل کہتے ہیں یعنی پہاڑے ان کی کوئی اب ضرورت نہیں رہی یا جو بچہ ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کرتا ہے اس کے لئے شاعر کے کلام پر تبصرے لکھنے کی تعلیم غیر ضروری سی نظر آتی ہے۔ یہ وہ باتیں جن پر عام حالات میں غور کرنے کی ضرورت تھی لیکن موجودہ حالات میں جب سائنس کے شعبہ میں غیر معمولی ترقی ہو گئی ہے اور کورونا وبا نےتعلیم کو کلاسوں سے موبائل یا لیپ ٹاپ میں قید کر دیا ہے یعنی آن لائن تعلیم کے لئے مجبور کر دیا ہے، تو ان حالات کی روشنی میں تو پورے تعلیمی نظام پر غور کر کے تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔
آج کے دور میں تعلیم میں رائٹنگ یعنی خوش خطی کی کوئی ضرورت نہیں رہی کیونکہ اب زیادہ تر کام کمپیوٹر پر ہوتا ہے۔ اسی طرح گرامر کی اور اسپیلنگ یعنی املا کی اہمیت ختم ہوتی جا رہی ہے کیونکہ کمپییوٹر خود ٹھیک کر دیتا ہے۔ جنرل نالج کا کوئی کردار نہیں بچا کیونکہ جنابِ گوگل کو ہر چیز کا علم ہے۔ پہاڑوں کو رٹنے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ موبائل سے لے کر ہر جگہ کیلکولیٹر موجود ہے۔ بہر حال رائج تعلیمی نصاب میں ایسی بہت سی چیزیں ہیں جن کو ہم پڑھتے تو ضرور ہیں لیکن وہ یا تو اپنی اہمیت کھو چکی ہیں یا آنے والے دنوں میں کھو دیں گی یعنی ان تبدیلیوں کی روشنی میں تعلیمی نظام میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔
آج کے دور میں اعلی تعلیم اور ٹیکنیکل تعلیم پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ آج جس طرح سے انسان نے اپنی سہولیات کے حصول کے لئے ترقی کی ہے اور اب پہلے کی طرح سارے لوگوں کو ایک کنویں سے پانی لینے، یا بیل گاڑی چلانے کی ضرورت نہیں ہے۔آج لوگوں کے پاس اپنا پانی ہے، اپنی بجلی ہے اور ائیر کنڈیشن، کار، بائیک وغیرہ عام ہوتی جا رہی ہیں۔ موبائل اور کمپیوٹر تو زندگی کا لازمی حصہ بنتا جا رہا ہے اس لئے اب پہاڑوں اور املا کی جگہ ان نئی چیزوں کو تعلیم میں شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ آج یہ دیکھنا ہے کہ اچھا پلمبر، اچھا الیکٹریشن، اچھا میکینک اور اچھا کمپیوٹر ٹھیک کرنے والا کیسے تیار کیا جا سکاتا ہے۔ آرٹیفیشل انٹیلی جنس یعنی مصنوعی ذہانت پر کیسے کام کیا جا سکتا ہے کیونکہ یہ انسان کا مستقبل ہے۔
اس لئے ضروری یہ ہے کہ موجودہ تعلیمی نظام میں وقت کے مطابق لازمی تبدیلیاں کی جائیں۔ یہ فیصلہ ہی غلط ہے کہ اس کلاس کا امتحان کینسل کر دیا جائے اور اس کا ملتوی۔ ہمیں تعلیم کی روح کوسمجھنے کی ضرورت ہے اور اس کے مقصد کو ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ڈگریاں تقسیم یا فروخت کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ نوجوانوں کو تعلیم یافتہ بنانے کی ضرورت ہے۔

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here