لکشدیپ نشانے پر کیوں؟-Why Lakshadweep on target?

0
161

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

Why Lakshadweep on target?غلام مصطفیٰ نعیمی

روشن مستقبل دہلی
کیرل کی زمینی سرحد سے قریب 300 کلومیڑ دور بھارت کا سب سے چھوٹا صوبہ لکشدیپ آباد ہے۔عرب سمندر کے اندر یہ خطہ قدرت کی انمول کاریگری کا شاہکار ہے۔ عالمی نقشے پر محض ایک نقطہ کی طرح دکھنے والا لکشدیپ چھوٹے بڑے 36 جزائر پر مشتمل ہے۔ جن میں سات جزائر پر ہی انسانی آبادی ہے۔ کل رقبہ 32 کلومیٹر ہے۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق یہاں کی کل آبادی 64,473 ہے۔ تقریباً ستانوے فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ یہاں کی اکثریتی اور عام مقامی زبان ملیالم ہے۔ یہی کیرلا کی بھی زبان ہے۔ اس سے اس جزیرے کا کیرلا کے ساتھ لسانی اور ثقافتی ربط بآسانی سمجھا جا سکتا ہے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ لکشدیپ کی تقریبا 95 فیصد آبادی قبائلی ہے اور آئینِ ہند کے تحت ST یعنی شیڈولڈ ٹرائب(अनुसूचित जनजाति) کے زمرے میں آتی ہے۔!!!
آج کل یہ خطہ اپنے خوب صورت ساحلوں اور قدرتی مناظر کے لیے نہیں بلکہ بی جے پی کے مقرر کردہ منتظم (Administrator) پرفل پٹیل کے تاناشاہی فیصلوں کی بنا پر موضوع بحث بنا ہوا ہے۔لکشدیپ کی آبادی صرف ایک ہی ضلع پر مشتمل ہے۔اس لیے یہاں سے پارلیمنٹ کے لیے ایک ہی ممبر منتخب ہوتا ہے۔اس کے علاوہ گرام پنچایت کے توسط سے بھی عوامی نمائندے منتخب ہوتے ہیں۔ ممبر پارلیمنٹ اور گرام پردھان کے علاوہ یہاں عوامی نمائندگی کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ مگر اس کی جغرافیائی حیثیت کو دیکھتے ہوئے اسے مرکز کے زیر انتظام صوبے (Union Territory) کا درجہ دیا گیا ہے۔ لیکن نہ تو یہاں قانون ساز اسمبلی ہے نہ ہی ہائی کورٹ۔عدالتی امور کے لیے یہ خطہ کیرلا ہائی کورٹ کے ماتحت آتا ہے۔ جب کہ دیگر انتظامی اور ترقیاتی امور کی دیکھ ریکھ کے لیے مرکزی حکومت کی جانب سے ایک ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا جاتا ہے جو یہاں کا انتظام وانصرام دیکھتا ہے۔
کون ہیں پرفل پٹیل؟
پرفل پٹیل ریاست گجرات سے آتے ہیں اور وزیر اعظم کے قریبی لوگوں میں شمار ہوتے ہیں۔ پرفل پٹیل 2007 میں ممبر اسمبلی منتخب ہوئے اور 2010 میں امت شاہ کی گرفتاری کے بعد انہیں گجرات کا وزیر داخلہ بنایا گیا۔ سن 2014 میں جب نریندر مودی وزیر اعظم منتخب ہوئے تو پرفل پٹیل کو مرکز کے زیر انتظام صوبے دمن اینڈ دیو (Daman & Diu) کا ایڈمنسٹریٹر مقرر کردیا گیا اور 2016 میں انہیں ایک اور یونین ٹیریٹری “دادرا اینڈ نگر حویلی” (Dadra & Nagar Haweli) کا ایڈمنسٹریٹر بھی بنا دیا گیا۔ اب انہیں لکشدیپ کا اضافی چارج بھی سونپ دیا گیا ہے۔ ایک ہی شخص کو تین تین یونین ٹیریٹریز کی ذمہ داری سے ایسا لگتا ہے یا تو ملک میں اچھے افسران کی سخت قلت ہے یا پھر پرفل پٹیل اتنے باصلاحیت ہیں کہ مرکزی حکومت زیادہ سے زیادہ صوبوں کو ان سے فیض یاب کرانا چاہتی ہے۔
پرفل پٹیل کا پس منظر
لکشدیپ کے تنازع کو سمجھنے سے پہلے پرفل پٹیل کے پس منظر کو سمجھ لیا جائے تاکہ اس کی روشنی میں لکشدیپ کے تنازع کو سمجھا جاسکے۔ سال 2019 میں دمن اینڈ دیو کے الیکشن کے وقت وہاں کے کلکٹر اور مشہور آئی اے ایس افسر ‘کنّن گوپی ناتھن کے ساتھ ان کا تنازع ہوا جس پر الیکشن کمیشن نے انہیں پھٹکار لگائی تھی۔ سال 2019 میں ہی دمن اینڈ دیو میں ترقیاتی کاموں کے نام پر نوّے گھروں کو توڑ دیا گیا۔جب لوگوں نے احتجاج کیا تو انہیں گرفتار کرلیا گیا۔فروری 2021 میں دادرا اور نگر حویلی سے سات بار ممبر آف پارلیمنٹ رہے موہن ڈیلکر نے ممبئی کے ایک ہوٹل میں خودکشی کرلی تھی۔ اپنے خودکشی نوٹ میں انہوں نے پرفل پٹیل کو ذمہ دار قرار دیا تھا۔ موہن ڈیلکر کی موت کے بعد ان کے بیٹے ابھینو نے ممبئی میں پرفل پٹیل کے خلاف ایف آئی آر درج کراتے ہوئے الزام لگایا تھا کہ پٹیل نے ان کے باپ سے پچیس کروڑ کی رشوت مانگی تھی، نہ دینے کی صورت میں جھوٹے مقدمات میں پھنسانے کی دھمکی دی تھی۔ اسی ذہنی دباؤ کی وجہ سے ڈیلکر نے خودکشی کرلی۔ مہاراشڑا حکومت نے اس کیس کے لیے خصوصی تفتیشی ٹیم (SIT) بھی بنائی تھی۔
لکشدیپ میں تنازع کیوں؟
آزادی کے بعد سے اب تک اس صوبے میں تجربہ کار بیوروکریٹ (Bureaucrat) ہی بطور ایڈمنسٹریٹر مقرر ہوتے رہے ہیں۔اس لیے کبھی کوئی تنازع نہیں ہوا۔ سن 2020 تک یہاں کے ایڈمنسٹریٹر دنیشوَر شرما تھے جو ایک سینئر آئی پی ایس افسر تھے۔ دسمبر 2020 میں ان کی موت کے بعد مرکزی حکومت نے روایت سے ہٹ کر ایک نیتا ‘پرفل کھوڑا پٹیل کو یہاں کا ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا۔ ان کے آتے ہی اس پر سکون جزیرے کا چین وسکون غارت ہوگیا۔نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اب لوگ Seve Lakshadweep مہم چلانے پر مجبور ہیں۔ فی الحال پانچ اہم مسئلوں پر سخت تنازع ہے جس کی تفصیل اس طرح ہے:
1-تنازع کی بنیادی وجہ ایل ڈی اے آر (Laxdeep Development Authority Regulation) کا قیام ہے۔اس کے تحت ایڈمنسٹریٹر ترقیاتی کام کے نام پر کسی بھی مقامی باشندے کو اس کی زمین سے بے دخل کر سکتا ہے۔مقامی باشندوں کو ڈر ہے کہ اس قانون کی آڑ میں ملٹی نیشنل کمپنیوں اور دیگر صوبوں کے افراد کو ان کی زمینیں فروخت کی جائیں گی۔ اور لکشدیپ کے مقامی افراد کو اجاڑ دیا جائے گا۔حالانکہ پرفل پٹیل کا کہنا ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہوگا وہ لکشدیپ کو مالدیپ کی طرح ایک اسمارٹ سٹی بنانا چاہتے ہیں۔ ان کی بات سن کر بے اختیار ہنسی آتی ہے کہ وزیر اعظم نے بھی ملک میں سو اسمارٹ سٹی بنانے کا دعوی کیا تھا سات سال گزر گئے مگر ابھی تک ایک بھی اسمارٹ سٹی کہیں نظر نہیں آئی۔
2-تنازع کی دوسری اہم وجہ پاسا (prevention of anty social activities act) نامی قانون کی منظوری ہے۔جس کے تحت کسی بھی شخص کو بغیر کسی اطلاع یا وجہ کے ایک سال تک حراست میں رکھا جاسکتا ہے۔یہ سخت قانون اس صوبے میں بنایا گیا ہے جہاں جرائم کی شرح صفر ہے اور جیلیں تقریباً خالی ہیں۔ ایسے پر امن علاقے میں اس سخت قانون کی کیا ضرورت تھی؟کوئی بعید نہیں کہ اس قانون کا اطلاق ان لوگوں پر کیا جائے جو پرفل پٹیل کے تاناشاہی فیصلوں کی مخالفت کریں۔
3-تیسرا تنازع پنچایت قانون میں اس شق کا اضافہ ہے جس کے تحت دو سے زائد بچوں والے افراد الیکشن نہیں لڑ سکتے۔یہ بھی عجیب معمّا ہے کہ اس ملک میں آٹھ دس بچوں والا انسان ایم پی ، ایم ایل اے بن سکتا ہے مگر گاؤں کا پردھان نہیں بن سکتا۔اگر یہ قانون نافذ کرنا ہے تو پہلے پارلیمنٹ پر کیا جائے جہاں بی جے پی کے ایک تہائی ایم پی دو سے زیادہ بچوں والے ہیں۔ پھر اس کا نفاذ گرام پنچایتوں پر کیا جائے۔
4-چوتھا تنازع بیف(گائے، بیل وغیرہ کے گوشت) پر پابندی کو لے کر ہے۔ لکشدیپ کی تقریبا ۹۵ فیصد آبادی قبائلی ہے۔ اور کل آبادی کا ساڑھے چھیانوے فیصد سے زائد حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ بیف کھانا یہاں کے قبائلی کلچر کا حصہ ہے۔ جس طرح بیف کھانا شمال مشرقی ریاستوں کے قبائلی کلچر کا عام حصہ ہے۔ اسی وجہ سے لکشدیپ کے مسلمانوں کے علاوہ دیگر اقوام بھی بیف کھاتی رہی ہیں لیکن اب پرفل پٹیل نے یہاں بیف بین کر دیا ہے۔اسے بی جے پی کی دوغلی پالیسی ہی کہا جائے گا کہ گوا اور شمال مشرقی ریاستوں منی پور، سکّم ، میزورم ، ناگالینڈ اور اروناچل پردیش میں بیف پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ جب کہ یہاں خود بی جے پی حکومت میں ہے۔ مگر لکشدیپ میں بیف بین کیا جارہا ہے۔ اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ شمال مشرقی ریاستوں میں اکثریت عیسائیوں اور دیگر غیر مسلم اقوام کی ہے اور لکشدیپ مسلم اکثریت ریاست ہونے کی سزا بھگت رہا ہے۔
5- پانچواں تنازع شراب پر لگی ہوئی پابندی کو ہٹانے کی وجہ سے ہے۔ لکشدیپ میں محض ایک جزیرے میں ہی شراب کی خرید و فروخت کی اجازت تھی۔ باقی پورے صوبے میں شراب پر پابندی تھی۔ مگر پرفل پٹیل نے یہاں آتے ہی شراب پر عائد پابندی ہٹا دی ہے۔پرفل پٹیل ویسے تو گاندھی جی کے گجرات سے آتے ہیں جہاں مکمل طور پر شراب بندی ہے۔ آخر وہ لکشدیپ میں شراب کیوں عام کرنا چاہتے ہیں؟ممکن ہے اس کے پیچھے لکشدیپ کو لالچ بھری نظروں سے دیکھنے اور ان زمینوں پر قبضہ کا خواب دیکھنے والے بڑے کارپوریٹس اور شراب کمپنیوں کا اُن پر دباؤ ہو۔ کیوں کہ جب تک شراب کی آزادی نہیں ہوگی تب تک شراب وشباب کے رسیا اس جزیرے پر کیوں آنا چاہیں گے؟وادیِ کشمیر کے بعد لکشدیپ ہی ایسا خطہ ہے جہاں مسلمان نوے فیصد سے زائد ہیں اور امن وامان کے ساتھ خوش حال زندگی گزار رہے ہیں۔ شاید یہی سکون فرقہ پرستوں کو راس نہیں آرہا ہے اور وہ اس سکون کو غارت کرنا چاہتے ہیں۔
اسی لیے پرفل پٹیل نے آتے ہی پہلے :
– ماہی گیروں کے ٹین شیڈ گرائے۔ پھر
– گرام پنچایتوں کے اختیارات ختم کیے۔
– ملازمتوں سے بڑی تعداد میں لوگوں کو فارغ کر دیا۔
– اسکول مینو میں بدلاؤ کیا۔
– کوچین(کیرلا) بندرگاہ کی بجائے منگلور(کرناٹک) بندرگاہ جانے پر مجبور کیا۔
یہ سب اسی ذہنیت کی غمازی ہے جو کسی مسلمان کو سکون سے نہیں دیکھ سکتی۔اب کارپوریٹ اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لالچ اور دباؤ کے تحت ایک پر امن ریاست کو نفرت وتعصب کی بھٹی میں جھونکنے کی تیاری ہے۔ کچھ اطمینان کی بات یہ ہے کہ بہت سے سیکولر افراد اور سیاسی پارٹیوں نے پرفل پٹیل کی پالیسیوں کے خلاف آواز بلند کی ہے۔ ملک بھر کے مسلمانوں اور انصاف پسند لوگوں کو بھی اس معاملے پر آواز بلند کرنا چاہیے۔ خاص طور سے قبائلی اور indigenous لوگوں کے حقوق کے لیے لڑنے والے تمام لوگوں کو لکشدیپ بچانے اور اس کا امن و امان برقرار رکھنے کے لیے آگے آنا چاہیے۔ ورنہ یہ خوبصورت اور پرامن خطہ بی جے پی کی زہریلی سیاست اور کارپوریٹس کے لالچ کی بھینٹ چڑھ جائے گا اور یہاں کا eco-system (ماحولیاتی نظام) اور قدرتی نظم بالکل تباہ ہو کر رہ جائے گا۔
٭٭٭

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here