گجرات اور بنارس ماڈل میں بھارت ماڈل کہاں ہے؟-Where is the India model in Gujarat and Banaras model?

0
149

Where is the India model in Gujarat and Banaras model?

اعظم شہاب
معلوم نہیں کس ناعاقبت اندیش نے ہمارے پردھان سیوک صاحب کے ذہن میں یہ بات بٹھا دی ہے کہ وہ بنارس یا گجرات کے ہی وزیراعظم ہیں۔ پورا ملک ان کو اپنا وزیراعظم سمجھتا ہے اور ان سے امیدیں باندھے ہوئے ہے، مگر ان کی پوری توجہ بنارس وگجرات پر ہی مرکوز ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ دنیا کے سامنے ہندوستان کی مثال پیش کرتے، لیکن وہ ملک کے سامنے گجرات وبنارس کی مثال پیش کر رہے ہیں۔ وزیراعظم کی حیثیت سے ان کے یہاں وسیع القلبی آنی چاہیے تھی مگر یہاں اس کا الٹا ہو رہا ہے۔ جب وزیراعلیٰ تھے تو گجرات ماڈل کی بات کرتے رہے جو سمجھ میں بھی آتی تھی۔ مگر اب جبکہ سات سال ہوگئے وزیراعظم بنے تو بھی علاقائی ذہنیت سے آزاد نہیں ہوسکے۔ اس کی تازہ مثال کورونا پر قابو پانے کے لیے ہمارے پردھان سیوک صاحب کی جانب سے ملک کے سامنے ایک نئے ماڈل کو متعارف کروانا ہے جسے بنارس ماڈل کہا جا رہا ہے۔
مودی جی کا کہنا ہے کہ کورونا سے نمٹنے کے لیے وارانسی ماڈل کا تذکرہ ملک بھر میں ہو رہا ہے۔ ملک کی کئی ریاستوں وشہروں کے بالمقابل بنارس میں پریشانی کم ہوئی۔ یہاں کے لوگوں کو نہ ہی آکسیجن کے لیے زیادہ پریشانی کا سامنا کرنا پڑا اور نہ ہی اسپتال کے لیے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ پردھان سیوک صاحب نے اس بنارس ماڈل کو اپنے اس ماڈل ریاست گجرات میں متعارف کرایا جس کا انہوں نے 2014 کے پارلیمانی انتخابات میں خوب سنہرا خواب دکھایا تھا اور اس سے زیادہ لطف کی بات یہ ہے کہ اسی گجرات کو ہی بنارس ماڈل اپنانے کا مشورہ دیا ہے جس کے سہارے یوپی فتح کیا گیا تھا اور عین اس موقع پر دیا جب توکتے طوفان کا جائزہ لینے کے لیے وہ گجرات کی سرزمین پر قدم رنجہ فرما تھے۔
توکتے طوفان نے یوں تو گجرات سمیت دیگر کئی ریاستوں کو متاثر کیا، مگر ہمارے پردھان سیوک نے جائزہ صرف گجرات اور دمن دیو کا لیا۔ انہوں نے دمن ودیو کا تو ہوائی جائزہ لیا مگر گجرات میں وہ زمین پر اتر آئے تھے۔ جبکہ گجرات کے ہی بغل میں مہاراشٹر بھی ہے جہاں طوفان سے غالباً سب سے زیادہ نقصان ہوا، مگر پردھان سیوک صاحب کے پاس شاید وقت کی قلت رہی ہوگی، اس لیے وہ مہاراشٹر کا جائزہ لینے نہیں جاسکے۔ کچھ لوگ تو اس کی وجہ پردھان سیوک کی مہاراشٹر حکومت سے بغض کو قرار دیتے ہیں، مگر ہمیں ان باتوں پر یقین نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو وہ مہاراشٹر کے ضلع کلکٹرس کی آن لائن میٹنگ تھوڑی نا منعقد کرتے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس میٹنگ سے وزیراعلیٰ ادھوٹھاکرے کو علیحدہ رکھنے کے باوجود احمدنگر کے ضلع کلکٹر راجندر بھوسلے نے ادھوٹھاکرے کی تعریف کرکے مودی جی کا موڈ خراب کر دیا تھا۔ مگر واہ رے مودی جی کا تحمل کہ اس صریح گستاخی کے باوجود بھوسلے کے خلاف ابھی تک سی بی آئی، ای ڈی یا این آئی اے حرکت میں نہیں آئی۔
پردھان سیوک صاحب کے ذریعے بنارس ماڈل کے اعلان کے بعد توقع کے عین مطابق ہمارے قومی میڈیا نے اس کی تشہیر کی ذمہ داری اٹھاتے ہوئے 21 مئی کی شام تک کو اسے ایک خوشنما پیکنگ کے ساتھ بازار میں اتار دیا۔ بس پھر کیا تھا؟ ہر جانب بنارس ماڈل کا ہی تذکرہ شروع ہوگیا۔ مگر اتفاق سے جب اس بنارس ماڈل کی بازگشت مہاراشٹر پہنچی تو یہاں اس کے غبارے سے اسی طرح ہوا نکل گئی جس طرح گجرات ماڈل سے نکل چکی ہے۔ راشٹروادی کانگریس پارٹی کے قومی ترجمان نواب ملک نے میڈیا کے سامنے یہ اعلان کردیا کہ کورونا بحران پر قابوپانے میں ناکامی کو چھپانے کے لیے اب بنارس ماڈل کا راگ شروع کیا گیا ہے۔ وہ بنارس جہاں گنگا کے کنارے لاشیں پڑی ہوئی ہیں، پانی میں لاشیں تیر رہی ہیں، لوگوں کو چتاجلانے کے لیے جگہ نہیں مل رہی ہے، کورونا سے مرنے والوں کے اعداد وشمار جہاں چھپائے جارہے ہیں، اگر اس بنارس ماڈل کو وزیراعظم پورے ملک کے سامنے مثال کے طور پر پیش کر رہے ہیں تو ملک کو ایسے بنارس ماڈل کی قطعاً ضرورت نہیں ہے۔
جبکہ کورونا کی وبا پر روک تھام کے معاملے میں اس سے قبل نہ صرف ملک کی سپریم کورٹ بلکہ مودی سرکار کے نیتی آیوگ (پلاننگ کمیشن) نے بھی ممبئی ماڈل کی تعریف کی تھی جہاں طبی سہولیات اور آکسیجن واسپتالوں کے بہتر انتظام کی وجہ سے کورونا سے متاثر ہونے والوں کی تعداد انتہائی تیزی سے کم ہوئی اور جس میں دن بہ دن مزید کمی ہوتی جا رہی ہے۔ یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ کورونا کی دوسری لہر میں پورے ملک میں ممبئی ہی سب سے زیادہ متاثر ہوا تھا۔ ابتداء میں یہاں 11 ہزار سے زائد کورونا کے معاملے سامنے آرہے تھے جو ممبئی کی میونسپل کارپوریشن اور ریاستی حکومت کی منصوبہ بندی کے بعد گھٹ کر 3 ہزار سے بھی کم ہوگئے اور یہ تعداد بھی صرف ممبئی کی نہیں ہے بلکہ اس میں تھانے، پالگھر اور رائے گڑھ بھی شامل ہیں۔ جبکہ اس سے قبل گیارہ ہزارکی تعداد صرف ممبئی کی تھی۔ مگر ہمارے پردھان سیوک بھلا ممبئی ماڈل کی کیسے تعریف کرسکتے ہیں، وہاں تو ان کے مخالفین کی حکومت ہے؟
پردھان سیوک نے بنارس ماڈل کا اعلان کرکے خود اس بات کا اعتراف کرلیا ہے کہ اس سے قبل وہ جس گجرات ماڈل کی بات کیا کرتے تھے، وہ اب مکمل طور پر ناکام ہوچکا ہے۔ یہ بھی ایک حسنِ اتفاق ہی تھا کہ بنارس ماڈل کی مثال ایسے وقت میں پردھان سیوک نے ملک کے سامنے پیش کی جب چند ہی روز قبل 15 مئی کو گجرات میں کورونا سے مرنے والوں کی تعداد کو پوشیدہ رکھنے کی ایک ایسی رپورٹ منظرعام پر آئی تھی جس نے گجرات حکومت کی ناکامی کو طشت ازبام کر دیا تھا۔ اس رپورٹ کے مطابق گجرات میں 71 دن میں 1 لاکھ 23 ہزار 871 ؍اموات ہوئیں، مگر حکومت کے مطابق یہ تعداد صرف 4218 تھی۔ اب ایسی صورت میں یہ ضروری تھا کہ ملک کے سامنے کورونا سے لڑنے کا کوئی کامیاب ماڈل پیش کیا جاتا۔ ممبئی ماڈل پیش کرنے میں سیاسی قباحت تھی، اس لیے بنارس ماڈل پیش کیا گیا، مگر وہ بھی ایسے وقت میں جب پوری دنیا کی توجہ گنگا کنارے پڑی ہوئی لاشوں نے اپنی جانب مبذول کرا لی ہے۔ اس لیے بھی پردھان سیوک کا یہ ماڈل ملک کو کوئی نیا خواب دکھانے سے پہلے ہی اپنی موت آپ مرگیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پردھان سیوک کے بنارس ماڈل کی بنیاد انکم ٹیکس، جی ایس ٹی اور محکمہ پولیس کے جبر پر رکھی ہوئی ہے۔ ایک ویب پورٹل پر 21 مئی کو بنارس ماڈل کی تعریف و وضاحت پر مبنی ایک رپورٹ کے مطابق بنارس میں دوسرے شہروں کی بہ نسبت پرائیویٹ اسپتالوں کے لیے ایک انفورسمنٹ کمیٹی بنائی گئی ہے جس میں انکم ٹیکس، جی ایس ٹی، سول سپلائی اور محکمہ پولیس کے افسران کو شامل کیا گیا ہے۔ اگر کسی اسپتال کے ذریعے مریضوں سے زیادہ بل وصول کیا جاتا ہے تو یہ کمیٹی اس اسپتال کی پرانی فائل کھول دیتی ہے، جس کے خوف کی وجہ سے یہ اسپتال و طبی ادارے اپنی من مانی نہیں کر پا رہے ہیں۔ اس رپورٹ کو بنارس ماڈل کی تعریف و توصیف کے طور پر پیش کیا گیا، مگر اس نے اس شہر کی بدانتظامی کو اجاگرکر کے رکھ دیا۔ پردھان سیوک کو ملک کے سامنے اس طرح کے کسی ماڈل کو پیش کرنے سے قبل کم ازکم وہاں کی حقیقی صورت حال سے تو واقفیت حاصل کرلینی چاہیے تھی، مگرجہاں پوری توجہ ناکامیوں پر پردہ ڈالنے، شبیہ چمکانے اور حزبِ اختلاف کو موردِ الزام ٹھہرانے پر صرف ہو رہی ہو، وہاں بھلا اس طرح کی فضول معلومات کی کیا اہمیت ہوسکتی ہے۔
(بہ شکریہ :قومی آواز اردو)
(مضمون میں درج مواد مضمون نگار کی ذاتی رائے پر مشتمل ہے، اس سے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں)

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here