کسان تحریک تین مہینے پورے کرنے والی ہے۔ ساری رکاوٹوں اور آزمائشوں کے باوجود ان کے عزم میں کوئی کمزوری نہیں آئی ہے۔ ان کا عزم جواں ہے اور کالے قانونوں کی واپسی تک وہ واپس اپنے گھروں تک جانے والے نہیں ہیں۔ وہ ان کالے قانونوں کے مضمرات کو خوب سمجھتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر یہ قانون نافذ ہوگئے تو وہ اپنی ہی زمینوں میں مزدور بن کر رہ جائیں گے اور آہستہ آہستہ ان کی زمینیں بھی ان کے ہاتھوں سے نکل کر سرمایہ داروں کے ہاتھ میں چلی جائیں گی۔ اسی لئے وہ ان کالے قوانین کو اپنے لئے ڈیتھ وارنٹ سمجھتے ہیں۔ حکومت نے کسانوں کو ہٹانے کے لئے سارے ہتھکنڈے آزمائے۔
انہیں خالصتانی، دہشت گرد، ٹکڑے ٹکڑے گینگ، غدار، بدتمیز اور نہ جانے کیا گیا کہا گیا ان کو ڈرانے کے لئے بی جے پی اور آر ایس ایس کے غنڈے بھیجے گئے۔ کسانوں کے حق میں ٹوئٹ کرنے والوں کو بین الاقوامی مافیا سے جوڑ دیا گیا تاکہ کسانوں کو خالصتانی ثابت کیا جائے اور انہیں دیش دروہی ثابت کرکے بذور قوت ان کی تحریک کو کچل دیا جائے۔ لیکن شاید ان نادانوں کو معلوم نہیں ہے کہ سچائی کے سامنے یہ ہتھکنڈے، مکڑی کے جالے ثابت ہوں گے اور مکڑی کا جالا بہت کمزور ہوتا ہے اور آخر میں جیت ہمیشہ سچائی کی ہوتی ہے۔
اس شر میں خیر کا پہلو یہ ہے کہ ہندومسلم قریب آئے ہیں 2013 میں بی جے پی نے جو ہندومسلم فساد کراکر ان کی یکجہتی کو توڑا تھا وہ بحال ہوا ہے بلکہ اور مضبوط ہوا ہے۔ اس تحریک نے سنگھ پریوار کو بے لباس کر دیا ہے۔ ان کی تاریک ذہنی کو اجاگر کر دیا ہے۔ اب ان کا زوال قریب آلگا ہے۔ یہ بڑے بے آبرو ہوکر اس کوچے سے نکلیں گے کیا وہ وقت آگیا ہے جب
وقت ایسا آئے گا جب جمیل یہ دنیا
شہر کے لٹیروں کو اپنا رہنما بنالے گی
ڈاکٹر شفیق الرحمن خاں
فلاح انسانیت اکادمی، علی گنج، لکھنؤ
Also read