ڈاکٹر مظفر حسین غزالی
زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کو احتجاج کرتے ہوئے دو ماہ سے زیادہ کا وقت گزر چکا ہے ۔ اس بیچ حکومت کے ساتھ کسان نو دور کی لا حاصل بات چیت بھی کر چکے ہیں ۔ حکومت قانون واپسی کے بجائے پیوند کاری پر اڑی ہے تو کسان ایم ایس پی کو قانون بنانے اور نئے زرعی قوانین کو واپس لینے سے کم پر تیار نہیں ہیں ۔ احتجاج کے دوران سو سے زیادہ کسان مر چکے ہیں لیکن پھر بھی وہ دہلی کی سرحدوں پر جمے ہوئے ہیں ۔ کسانوں کو دہلی میں داخل ہونے سے روکنے کے لئے سرحد پر چاروں طرف بارڈر لگا دیئے گئے ۔ کانٹوں والے تار لگائے گئے، لوہے کی سلاخیں، کیلیں ٹھونک دیں اور دیواریں کھڑی کر دی گئیں ۔ اس کے جواب میں کسانوں نے مٹی ڈال کر وہاں پھولوں کے پودے لگا دیئے ۔ راکیش ٹکیت نے کہا ہم دہلی نہیں جائیں گے ۔ دوسرے صوبوں میں آندولن کریں گے ۔ جب گاندھی جی نے ڈانڈی مارچ کا اعلان کیا تھا، انگریز دہلی میں بیٹھے تھے ۔ وہ بات چیت کے لئے گاندھی جی کو شملہ بلا رہے تھے، وہ وہاں نہیں گئے ۔ ڈانڈی مارچ نکلا نمک آندولن ہوا ۔ ایک کے بعد ایک لوگ جڑتے گئے اور انگریز حکومت کی چولیں ہلنے لگیں ۔ تو کیا یہ سمجھا جائے کہ دہلی میں بیٹھی حکومت اکیلی پڑ رہی ہے ۔ کیا وہ ملک سے سروکار نہیں رکھتی؟
راکیش ٹکیت جند کی مہا پنچایت میں شریک ہونے کے لئے نوئیڈا ہو کر گئے ۔ وہاں انہوں نے کہا کہ ہم ایم ایس پی کا قانون بنانے اور نئے زرعی قوانین کی واپسی کی مانگ کر رہے ہیں ۔ ہم گدی واپسی کی مانگ بھی کر سکتے ہیں ۔ یہ سیاسی اعلان ان پنچایتوں اور لوگوں کے بیچ ہوا جن کی اپنی کوئی سیاسی پہچان نہیں ہے ۔ پنچایت کسی پارٹی کی نہیں ہوتی وہ گاؤں کے لوگوں سے جڑی ہوتی ہے ۔ اس کے سروکار ان گاؤں سے بندھے ہوتے ہیں جن کو وہ مخاطب کرتے ہیں ۔ گدی واپسی کا سوال سیاسی ہے لیکن ابھی تک کسی سیاسی پارٹی نے اسے نہیں اٹھایا ہے ۔ کسانوں کے احتجاج کو تمام سیاسی جماعتیں، پارلیمنٹ، ملک اور پوری دنیا دیکھ رہی ہے ۔ جب یہ شروع ہوا تھا تب میڈیا کی اسے ضرورت تھی لیکن وقت کے ساتھ کسان آندولن میڈیا کی ضرورت بن گیا ۔ اس وقت کسان سیاسی لیڈران کو کھوج رہے تھے ۔ اب سیاست دان کسانوں کو تلاش کر رہے ہیں ۔ اس سے پہلے پارلیمنٹ میں زرعی قوانین، کھیتی کسانی کو لے کر بحث ہوئی جس کے مرکز میں کسان نہیں تھا لیکن آج ہر بحث کے مرکز میں صرف کسان ہے ۔ صدر جمہوریہ کے خطاب پر شکریہ کی تحریک کے دوران خود وزیراعظم نے کسانوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ سرکار اب بھی بات کرنے کو تیار ہے ۔ ممبران پارلیمنٹ کو یہ سمجھ میں آنے لگا ہے کہ ملک تبھی ان کی طرف متوجہ ہوگا جب وہ کہیں نہ کہیں کسانوں سے جڑیں گے ۔ اگر یہی حالات رہے تو آنے والے دنوں میں ملک کی سیاست کا مرکز دیہی بھارت ہوگا ۔
ملک کی سیاست میں ایسا نہیں ہے کہ یہ پہلا احتجاج ہے ۔ اس سے پہلے بڑے بڑے آندولن ہوئے، مگر انہیں کبھی ذات تو کبھی مذہب کے نام پر بانٹ دیا گیا ۔ اسے بھی توڑنے کی کوشش ہوئی لیکن یہ پہلا ایسا آندولن بن گیا جس میں سبھی طبقات کے لوگ شامل ہیں ۔ جاٹ، یادو، سکھ اور او بی سی کے لوگ نظر آئیں گے تو اعلیٰ ذاتوں کے لوگ بھی ۔ یہ احتجاج سنگھو بارڈر سے شروع ہوا تھا ۔ وہاں پنجاب کے کسان پہنچے تھے ۔ دھیرے دھیرے اس کے ساتھ دوسری کسان تنظیمیں جڑ گئیں ۔ پنجاب کے کسانوں کی بولی پنجابی ہے ۔ ان کی زبان بھارت کی سیاست میں صرف پنجاب کے عوام، ووٹروں کو ہی متاثر کر سکتی ہے ۔ شاید اسی لئے برسراقتدار جماعت نے کہنا شروع کیا تھا کہ صرف پنجاب کے مٹھی بھر کسان ہی زرعی قوانین کی مخالفت کر رہے ہیں باقی ملک حکومت کے ساتھ ہے ۔ احتجاج نے ٹریکٹر پریڈ کے بعد اس وقت کروٹ بدلی جب راکیش ٹکیت غازی پور بارڈر پر دھرنا ختم کرنے کے سوال پر میڈیا کے سامنے پھوٹ پھوٹ کر رو پڑے ۔ انہوں نے کہا کہ یا تو اپنی مانگیں منوا کر واپس جائیں گے یا پھر سب کے سامنے جان دے دیں گے ۔
ٹکیت کے آنسوؤں نے آندولن میں جان پھونک دی ۔ اب غازی پور بارڈر کسان احتجاج کا مرکز بن گیا ہے ۔ راکیش ٹکیت اس زبان میں بات کر رہے ہیں جو مغربی اترپردیش سے الہ آباد ، بنارس، ہریانہ، راجستھان، مدھیہ پردیش کا کسان بھی سمجھتا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے ہندی بیلٹ میں میں کسانی کا مدعا مذہب اور ذات سے باہر نکل کر اگر وقت کی سیاست کو چنوتی دے گا تو ہندی ہاٹ لینڈ کی سیاست پلٹ جائے گی ۔ اسے سیاست پلٹنے کے لئے سیاسی جماعت کی ضرورت نہیں ہوگی ۔ اگر اسے بدلنے کے لئے پہلی بار گاؤں کے لوگ سیاست طے کرنے لگے تو پھر کارپوریٹ کا ذکر نہیں ہوگا ۔ ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور امریکہ کا ذکر بھی نہیں ہوگا ۔ وہ امریکہ جو زرعی اصلاحات کی حمایت کر رہا ہے ۔ اس حمایت کے پیچھے امریکہ اپنی معیشت کو دیکھ رہا ہے ۔ وال مارٹ، امیجن اور کورتھو امریکن کمپنیاں ہیں جو بھارت میں کام کر رہی ہیں ۔ ان کمپنیوں کا کاروبار زرعی پیداوار پر منحصر ہے ۔ اگر گاؤں بھارت کی سیاست میں بدلاؤ پر آمادہ ہو گئے اور ایک کے بعد ایک پنچایت اس میں جڑتی چلی گئی ۔ تو دھیرے دھیرے پورا ملک اس کے آغوش میں آ جائے گا ۔ کیا یہ مانا جائے کہ آنے والے وقت میں بھارت کی سیاسی تعریف بی جے پی، کانگریس یا دوسری پارٹیوں سے ہٹ کر ہوگی ۔
سیاسی جماعتیں اپنے انتخابی منشور میں جن سہولیات کو دینے کا وعدہ کرتی ہیں ۔ وہ سب ملک کے آئین میں درج ہیں ۔ لیکن 1950 کے بعد سے کسان مزدوروں، دلتوں، آدی واسیوں، اقلیتوں اور کمزور طبقات کو جو حق ملنا چاہئے تھا وہ نہیں ملا ۔ لال بہادر شاستری نے 1965 میں 22-23 فصلوں کا ایم ایس پی کے تحت ذکر کیا تھا ۔ وہ بھی ابھی تک نہیں ہو پایا ۔ ملک میں طاقتور وہ ہوا جو سیاست میں آیا ۔ طاقت ملنے کے بعد یہ اتنے مغرور ہو گئے کہ انہیں اپنی انا کے سامنے کوئی دکھائی نہیں دیتا ۔ موجودہ سیاسی اقتدار اس کی مثال ہے ۔ بقول سینئر صحافی پرنے پرسون واجپئی مرکزی حکومت نے اپنے طور پر ملک کو ایک ہی پیغام دیا ہے کہ دہلی میں بیٹھی ہوئی حکومت سب سے طاقتور ہے ۔ وہ جو فیصلے لیتی ہے ملک کے حق میں لیتی ہے ۔ اور حق میں لئے گئے فیصلے ہی جمہوریت کے مطابق ہوتے ہیں ۔ اور جمہوریت کا مطلب الیکشن جیتنا ہوتا ہے ۔ 2014 کے بعد لئے گئے فیصلوں کی وجہ سے ہی 2019 میں پہلے سے کہیں بڑی کامیابی ملی ۔ اب جو فیصلے لئے جا رہے ہیں وہ 2024 میں جیت دلائیں گے ۔
غور کرنے کی بات یہ ہے کہ کسان آندولن سے اٹھے مدے اگر الیکشن میں گراؤنڈ زیرو، اشو کے طور پر کھڑے ہو گئے تو کیا ہوگا ۔ 2021 میں ہونے والے مغربی بنگال، آسام، اڑیسہ وغیرہ پانچ ریاستوں کے انتخابات، 2022 کے اترپردیش کے چناؤ اور 2024 کے پارلیمانی الیکشن کے مرکز میں اگر کسان آ گیا تو ملک کا نقشہ بدل جائے گا ۔ کھیتی کسانی کا انتخاب میں مدا بننا فطری ہے ۔ کیوں کہ اس وقت صوبائی معیشت کی بساط زراعت پر ٹکی ہے ۔ آپ کو جان کر حیرت ہوگی کہ سب سے زیادہ زرعی پیداوار مغربی بنگال میں ہوتی ہے ۔ اس کے بعد اترپردیش پھر پنجاب، گجرات اور ہریانہ آتا ہے ۔ اگر کسی ریاست کی معیشت کو زراعت نے سنبھالا ہوا ہے اور وہ سیاست کو ٹکر دینے کی حالت میں آ رہی ہے ۔ تو اس کا مطلب صاف ہے کہ آئندہ سیاست کا رخ رویہ تبدیل ہوگا ۔
موجودہ دور میں سیاست بزنس ماڈل میں تبدیل ہو گئی ہے ۔ اس ماڈل میں منافع آگے اور سروکار پیچھے چھوٹ گئے ۔ پونجی پتی اور کرمنل سیاست کا حصہ بن گئے ۔ اے ڈی آر کی رپورٹ کے مطابق سال در سال پارلیمنٹ سے لے کر اسمبلیوں تک میں دولت مندوں اور مجرموں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں قریب 30 فیصد ممبران پر سنگین الزامات ہیں جبکہ ریاستی اسمبلیوں کے 4298 ممبران میں سے 1258 داغی ہیں ۔ ان کے مقابلہ کسان نہ تو داغی ہے اور نہ ہی اس نے کوئی کرائم کیا ہے ۔ البتہ کسان مزدوروں کے اندر احساس پیدا ہوا ہے کہ نہ پارلیمنٹ ہماری ہے، نہ عدالتوں میں ہمارے حق کے لئے فیصلے ہو رہے ہیں، یہاں تک کہ آئینی ادارے بھی ہمارے نہیں ہیں ۔ اپنی مانگوں کو منوانے کی خاطر ہی مشکل حالات میں کسانوں کو ترپالوں میں رکنے پر آمادہ کیا ہے ۔ جوں جوں وقت گزر رہا ہے آندولن تیز ہو رہا ہے ۔ اور نئے لوگ اس سے جڑ رہے ہیں ۔ یہ حکومت کے لئے انتباہ، للکار بھی ہے اور چیلنج بھی کہ مان جائیے، کسانوں کی بات سنیئے ۔ اگر ان کی طرف توجہ نہ دی گئی تو گاؤں، کھیت اور کسانی کی سوچ ملک کی سیاست کو بدل دے گی ۔ اسے اب کوئی اسٹیٹس مین ملے گا تو وہ شہر سے نہیں بلکہ دیہی علاقہ سے نکل کر آئے گا ۔