حالات حاضرہ میں ہم کیا کریں؟-What should we do in the current situation?

0
1622

 

What should we do in the current situation?محمد ناظم القادری الجامعی
فی الوقت امت مسلمہ جس دور انحطاط سے گزر رہی ہے اس کی مثال کہیں نہیں ملتی. اگر ایک طائرانہ نظر پورے عالم اسلام کے مسلمانوں پر ڈالی جائے تو روز روشن کی طرح عیاں ہو جائے گا کہ دنیا کے ہر خطہ میں مسلمان کرب والم کے بھنور میں پھنسے ہوئے ہیں. بھانت بھانت کے مصائب وآلام میں مبتلا ہیں.مسلمان کسمپرسی اور درماندگی کے گرداب میں چکر کھارہے ہیں. مشربی ومسلکی اختلافات نے مسلمانوں میں عداوت ونفرت پیدا کردی ہیں.اورکتنےایسے مسلمان ہیں جو بے روزگاری کی تکالیف سےسرگرداں ہیں.آئے دن مسلم عبادت گاہوں پر حملے کی کرب انگیز خبریں،اسلامی شناخت پہ حملے کےدلخراش واقعات پڑھنے اور سننے کو ملتےہیں.مدارس اسلامیہ کی سالمیت بھی خطرے میں نظر آ رہی ہیں.پوری طاغوتی طاقتیں ہمیں سطح ارض سے محو کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے.(جس کی سب سے بڑی وجہ باری تعالی سے قطع تعلق ،دین سے دوری اور احکام خدا وندی سے بے اعتنائی ہے)ہر شعبہ میں امت مسلمہ کی کارکردگی تنزلی کا شکار ہے.دنیا کے ہرخطہ میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا جارہاہے. مسلمان کی عزت وآبرو اور دینی ملی تشخص سب داؤں پر ہیں.مسلمان کے اقتصادی ذرائع بھی اغیار کی نظرمیں ہیں. جان ومال بھی خطرے میں ہیں. دین ومذہب پر حملے ہورہے ہیں. اس پر طرہ یہ کہ سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخانہ جملے کسے جا رہے ہیں.قتل وخونریزی کا بازار گرم ہے.مسلمانوں کو نہایت سفاکانہ طریقہ سے قتل کیاجارہاہے. یہاں تک کہ حکومت بھی ان کے سامنے اپنی بےبسی اور درماندگی کا اظہار کررہی ہے. ایسا لگ رہا ہے کہ جملہ طاغوتی طاقتوں نے اتحاد کا دامن تھام کر امت مسلمہ کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے درپے ہوچکی ہیں. مسلمانوں پر دہشت گردی کا الزام تھوپا جارہا ہے، جس کا اسلام اور مسلمانوں سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے. کیوں کہ اسلام امن وشانتی کا پیغام دیتاہے. ہر موڑ پہ مسلمان کی لاچاری اور کمزوری کافائدہ اٹھایا جا رہا ہے. بالخصوص ملک ہندوستان میں کہ جس دھرتی کو ہمارے اسلاف نے اپنے لہو سے انگریزوں کے ناپاک منصوبوں سے پاک کیا تھا. جس دھرتی کی تحفظ وبقا کی خاطر ہزاروں علما کی گردنیں سولی پہ چڑھی ہیں. آج یہ دیس کا ٹھکیدار بن کر ہمیں ملک کا غدار ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں. ان حالات کے تشویش واضطراب کی موج بلانے ہر کلمہ گو انسان کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے. اور مسلمان بے چینی وبےقراری کی منجدھار میں ہچکولے کھارہے ہیں. لیکن ان نازک وپر خطر حالات سے ہمیں گھبرانے کی ضرورت نہیں بلکہ ان سے سینہ سپر ہوکر لڑنے کی ضرورت ہے کیونکہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ان حالات سے متعلق پہلے ہی آگاہ فرمادیا تھا کہ ایک دور ایسا آئے گا جس میں مسلمان بدکاریوں میں مبتلا ہوں گے تو ان کے خیموں میں مصائب وآلام ڈیرے ڈال دیں گے. حدیث کریمہ ملاحظہ فرمائیں:ابو عبیدہ بن جراح اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور اقدس صلی الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا:”الله تعالی اس دن کی ابتدا نبوت ورحمت سے فرمائی، پھر دور نبوت کے بعد خلافت ورحمت کا دور ہوگا، اس کے بعد کاٹ کھانے والی بادشاہت ہوگی، اس کےبعدخالص آمریت، جبر واستداداورامت کے عمومی بگاڑ کا دور آئے گا، یہ لوگ زناکاری، شراب نوشی اور ریشمی لباس کو حلال کرلیں گے اس کے باوجود اس کی مدد بھی ہوتی رہے گی اور انھیں رزق بھی ملتا رہے گا، یہاں تک کہ وہ الله کے حضور پیش ہونگے”. (مشکوۃ المصابیح بحوالہ عصر حاضر احادیث کے آئینے میں )
عالم اسلام کی زبوں حالی اور اس کے اسباب سے متعلق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم دوسری جگہ پہ یوں ارشاد فرماتے ہیں:”وہ وقت قریب آتا ہےجب کہ تمام کافر قومیں تمھیں مٹانے کے لیے(مل کر سازشیں کریں گی) ایک دوسرے کو اس طرح بلائیں گی جیسے دستر خوان پر کھانا کھانے والے (لذیذ) کھانے کی طرف بلاتے ہیں، کسی نے عرض کیا:یارسول الله صلی علیہ وسلم! کیا ہماری قلت تعداد کی وجہ سے ہمارا یہ حال ہوگا؟ فرمایا:نہیں بلکہ تم اس وقت تعداد میں بہت ہوگے، البتہ تم سیلاب کی جھاگ کی طرح ناکارہ ہوگے، یقینا الله تمھارے دشمنوں کے دلوں سے تمھارا رعب ودبدبہ نکال دےگا اور تمھارے دلوں میں” بزدلی” ڈال دے گا.کسی نے عرض کیا:یا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم! بزدلی سے کیا مراد ہے؟ فرمایا:دنیا کی محبت اور موت سے نفرت”(ابوداؤد بحوالہ عصر حاضر احادیث کے آئینے میں)
مذکورہ بالا احادیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ چودہ سو سال قبل الله کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امتیوں کو ان پرفتن حالات سے آگاہ فرمادیاتھاکہ ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے جائیں گے. در خالق چھوڑ کر مخلوق کے در پہ ٹھوکریں کھاتے پھریں گے. اسلامی شناخت پہ انگشت نمائی کی جائے گی. مسلمان سراسیمگی کے عالم میں ہونگے. صرف ان پر خطر حالات سے آگاہ ہی نہیں فرمایا بلکہ ان کےاسباب بھی بیان کردیئے کہ اےمیری امتیو جب تم راہ راست سے بھٹکوگے تو ذلت ورسوائی کے قعر مذلت میں گرجاؤگے.
بہر صورت ان احادیث سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ سارے مصائب وآلام ہمارے کرتبوں ہی کی وجہ سے ہیں. لیکن ان پرآشوب حالات میں ہماری ذمہ داری کیا ہے. ایسا کیا کریں جس سے ان مصائب وآلام کی سنگلاخ وادیوں سے نکل کرچین وسکون کی فضا میں سانس لے سکیں.
سب سے پہلے ایک بات عرض کردینا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہم اپنی ذاتی کردار کے بارے میں انتہائی پست اور ناقابل بیان حالت میں مبتلا ہیں. ہم میں کتنے لوگ ہیں جو اپنے اوپر شریعت الہیہ پورے طور پر نافذ کرنے کے لیے بخوشی تیار ہوں، جو دوسروں کے حقوق کی ادائیگی پوری ذمہ داری سے کرنا چاہتے ہوں اور کرتے ہوں، جو صداقت وسخاوت اور دیانت وامانت کے اوصاف سے متصف ہوں، جو اپنی زبان وید سے دوسروں کو تکلیف نہ پنہچاتے ہوں، جن کےدل میں خلوت میں بھی خوف خدا کی شمع جلتی ہو. ایسے لوگوں کی تعداد ہم میں بہت کم ہیں. بلکہ آج کے ماحول میں اکثر وبیشتر اشخاص کی زبان پہ یہ جملہ سننے کو ملتا ہے کہ زمانہ خراب ہے، آج کے ماحول میں فساد آگیا ہے. کیا ہم اس ماحول میں نہیں ہے، ضرور ہیں لیکن ہم اپنے اخلاق وکردارپہ نظر نہیں کرتے، ہم اپنے اندر جھانک کر نہیں دیکھتے، بلکہ زمانہ کی طرف منسوب کردیتے ہیں، جو کہ گناہ بھی ہے. اپنے عادات واطوار کی طرف بالکل توجہ نہیں ہے، اپنے اخلاق وکردار کا ذرا بھی پاس وخیال نہیں ہے ہم زمانہ کو خراب کہتے ہیں. شاید علامہ اقبال نےاسی موقع کے لیے کہا تھا
اپنے کردار پہ ڈال کےپردہ اقبال
ہرشخص کہہ رہا ہے زمانہ خراب ہے
دنیا مومنوں کے لیے قید خانہ ہے قید خانہ میں قیدی بن کر رہنا پڑے گا ذراسی بد معاشی کرنے پر سزا مل جاتی شاید یہ پریشانیاں اسی افراط کے باعث ہیں.ان پر آشوب حالات میں سب سے پہلے اپنے آپ کی اصلاح کرنی ہوگی، اپنے آپ کو سنت نبوی کے مطابق ڈھالنا ہوگا. احکامات خدا وندی کی بجاآوری اور منہیات سے اجتناب کرنا ہوگا. اخلاق وکردار کو سدھارنا ہوگا. اپنے سینوں کو خوف خدا اور محبت رسول کا مدینہ بنانا ہوگا. اسوہ حسنہ کے مطابق زندگی گزارنی ہوگی. یہ تو ذاتی اصلاح کا معاملہ ہے دوسری بات یہ ہے کہ اجتماعی معاملات میں بھی اصلاح اور درستگی کاخاص خیال رکھنا ہوگا.
جس دن یہ دونوں چیزیں ہمارے مزاج کا حصہ بن جائیں گی اس دن سے پھر فتحیابی کا علم ہمارےہی ہاتھوں میں ہوگا. پھر وہی رعب ودبدبہ، وہی شان وشوکت اور وہی عظمت ورفعت ہمیں نصیب ہوگی ان شاء الله.
باری تعالیٰ امت مسلمہ پر رحم وکرم فرماے. آمین! بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم.
خادم التدریس دارالعلوم منظر اسلام حیدرآباد

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here