معصوم مرادآبادی
آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر مولانا رابع حسنی ندوی نے ایک حالیہ بیان میں مسلمانوں کو تلقین کی ہے کہ وہ ہمت وحکمت کے ساتھ حالات کا مقابلہ کریں۔ان کا یہ بیان ایسے حالات میں سامنے آیا ہے جب مسلمانوں میں موجودہ حالات کے پیش نظر فکر وتشویش کی اونچی لہریں اٹھ رہی ہیں۔ وہ یہ سوچ کر پریشان ہیں کہ ملک میں حالات جو رخ اختیار کررہے ہیں، ان کا مقابلہ وہ کس طرح کرپائیں گے اور آنے والی نسلوں کامستقبل کیا ہوگا۔ حالانکہ ابھی پانی سر سے اونچا نہیں ہوا ہے لیکن پھر بھی جس انداز میں مسلمانوں کا قافیہ روزبروز تنگ کیا جارہا ہے اور جینے کی راہیں مسدود کی جارہی ہیں، ان میں وہ کیسے اپنی راہ بنا پائیں گے۔ظاہر ان حالات میں سب سے بڑی ذمہ داری ہمارے ان قائدین اور دانشوروں کی ہے جومخلص اور صالح قیادت علمبردار ہیں اور جن کا مسلمانوں پر خاص اثر ہے۔ ان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مسلمانوں کوجبر کے ماحول سے نکلنے کی راہ سجھائیں تاکہ وہ پژ مردگی اور مایوسی کا شکار نہ ہوں۔ اس سلسلہ میں ہمارے قائدین اور دانشور جن راہوں پر سوچ رہے ہیں، اس کا پہلا ثبوت تو مولانا رابع حسنی ندوی کا انتہائی اہم بیان ہے اور دوسری رہنمائی ہمیں حال ہی میں شائع ہونے والی ایک کتاب سے ملتی ہے، جو ممتازدانشور اور ادیب پروفیسر محسن عثمانی ندوی نے لکھی ہے۔
آئیے پہلے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر مولانا رابع حسنی ندوی کے بیان کا رخ کرتے ہیں جس میں انھوں نے کہا ہے کہ”مسلمان داعیانہ کردار اپناتے ہوئے ہمت وحکمت کے ساتھ حالات کا مقابلہ کریں۔“یہ بیان اس اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے کہ اس وقت مسلمانوں میں ایک خاص قسم کی مایوسی اور پژمردگی پیدا ہورہی ہے۔ ایک طبقہ جذبات اور اشتعال میں حالات کا مقابلہ کرنے کی بات کرتا ہے جبکہ دوسرا طبقہ حکمت ودانائی اور ہمت کے ساتھ حالات سے لڑنے کی تلقین کرتا ہے۔ظاہر ہے جذبات اور اشتعال سے کسی مسئلہ کو حل نہیں کیا جاسکتا اور اس کے لیے حکمت ودانائی ہی پہلی شرط ہے۔مسلمانوں نے آزادی کے بعد اپنے مسائل حل کرنے کے لیے جذباتی قیادت پر تکیہ کیا جس نے انھیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔گزشتہ ۳۷ برسوں کے زخم اتنے گہرے اور تکلیف دہ ہیں کہ انھیں بیان کرنے کے لیے پورا ایک دفتر چاہئے۔اس لیے بہتر یہ ہے کہ گزرے ہوئے وقت کی غلطیوں سے سبق حاصل کرکے مسلمانوں کو حکمت ودانائی کے ساتھ مثبت انداز میں روبہ عمل ہونا چاہئے اور ایسی راہیں اختیار کرنی چاہئیں جن پر چل کر وہ عزت ووقار کی زندگی پاسکیں۔
مولانا رابع حسنی ندوی نے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے سوشل میڈیا ڈیسک کے آن لائن خطبات سلسلہ دعوت فکر وعمل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ”مسلمانوں کو پریشان ہونے کی بجائے ہمت وحکمت کے ساتھ موجودہ حالات کے مقابلے کے لیے فکر مند ہونا چاہئے اور مناسب تدبیر اختیار کرنی چاہئے۔ بطور خاص ملک کے ہرایک فرد تک حق کا پیغام پہنچانا چاہئے اور داعیانہ کردار کے ساتھ زندگی گزارنا چاہئے۔ یہ ہمارا دینی اور ایمانی فریضہ ہے اور وقت اور حالات کا اہم تقاضا بھی۔ انھوں نے ملک کے تمام باشندوں کو انسانیت کا پیغام دیااور انھیں اس جانب توجہ دلائی کہ کوئی بھی ملک انسانیت اور اخلاق کے ذریعہ ترقی کرتا ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ”ہمارا یہ ملک مختلف مذاہب اور مختلف طبقات کا گہوارہ ہے۔ یہ ملک اسی صورت میں ترقی کرسکتا ہے جب تمام مذاہب کے ماننے والے ایک دوسرے کو اپنا سمجھیں، ایک دوسرے کے ساتھ اچھا سلوک کریں اور باہم مل جل کر زندگی گزاریں۔“ موصوف نے یہ بھی کہا کہ”مسلمان ملک کی ترقی چاہتے ہیں اور دوسروں سے بھی حسن سلوک کی توقع رکھتے ہیں۔“
مولانا رابع حسنی ندوی کے بعد اب ہم ممتاز ادیب اور دانشور پروفیسر محسن عثمانی ندوی کی تازہ کتاب سے رجوع کرتے ہیں جو حا ل ہی میں منظرعام پر آئی ہے۔اس کتاب کا عنوان ہے”حالات حاضرہ اور ہندوستانی مسلمان“۔اس کتا ب میں حالات کے جبر سے نکل کر روبہ عمل ہونے کی ایک نئی راہ پیش کی گئی ہے۔ ساتھ ہی اس میں ایک نئے زاویے کے ساتھ نئی دعوت فکربھی دی گئی ہے اور ایک نئے منصوبے سے روشناس کرایا گیا ہے۔ ہمارے بیشتر دانشور وں اور اہل قلم کا المیہ یہ ہے کہ وہ اپنی تحریروں اور تقریروں میں حالات کا ماتم تو کرتے ہیں، لیکن حالات کے جبر سے نکلنے کی کوئی راہ تجویز نہیں کرتے۔اسی لیے بیشتر تحریریں اور تقریریں اپنا دیرپا اثر قائم نہیں کرپاتیں، لیکن ہمارے عصری دانشوروں میں پروفیسر محسن عثمانی ندوی کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ وہ اپنی تحریروں کے ذریعے قارئین کو ایک نئی راہ اور نئی منزل کا پتہ دیتے ہیں۔ان کی دوسری بڑی خوبی ان کا اسلوب نگارش ہے۔ یعنی وہ آسان لفظوں میں دل میں اترجانے والی بات زبان کی شیرینی کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔زیرنظر کتاب میں انھوں نے جس موضوع کو اپنی فکرودانش کا محور بنایا ہے، وہ دراصل غیر مسلم برادران وطن کے ساتھ وسیع رابطے پیدا کرنے اور خدمت خلق کے توسط سے ان کے دلوں میں جگہ پیدا کرنا ہے تاکہ غلط فہمیوں کا ازالہ کرنا۔ ظاہر ہے یہ کوئی آسان کام نہیں ہے اور اس کے لیے مسلسل جدوجہد اور کاوشوں کی ضرورت ہے۔
پندرہ ذیلی عنوانات کے تحت شائع ہوئی ۴۰۱ صفحات کی اس کتاب میں پندرہ ذیلی عنوانات قائم کئے گئے ہیں اور آخر میں ہیومین ویلفیئر کونسل کا تعارف اور اغراض ومقاصد بیان کئے گئے ہیں جو ایک رفاہی ادارہ ہے اورجس کے تحت غیرمسلموں کے ساتھ رابطے پیدا کرکے خدمت خلق کی بنیاد پر اس کام کو آگے بڑھانے کے عزم کا اظہار کیا گیا ہے۔کتاب کے پہلے مضمون میں لکھا ہے کہ”ہمیں پوری سنجیدگی سے اس پر غور کرنا چاہئے کہ وہ قوم جو اس ملک میں تاج وتخت کی مالک تھی کیوں کر مظلومیت اور بے عزتی کی آخری حدتک پہنچ گئی۔ کیوں کر اس کی زندگی کی عمارت ایک ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہوگئی۔“
پروفیسر محسن عثمانی ندوی نے لکھا ہے کہ”مسلمانوں کو آخری مہلت ملی ہے۔ انھیں ’کرویا مرو‘ کی صورتحال سے سابقہ ہے۔ مسلمانوں کی اکثریت بے حسی اور بے شعوری کی حالت میں گرفتار ہے۔ ان کے قائدین میں بھی شعور کی کمی ہے اور جو لوگ باشعور ہیں، ان کے سامنے راستہ واضح نہیں ہے۔“ آگے چل کر لکھتے ہیں کہ ”حل کیا ہے؟ یعنی مسلمانوں کی جان ومال اور آبرو کی حفاظت کیسے ممکن ہے؟یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ غیرمسلموں کے سلسلہ میں ہمارا رویہ کیا ہونا چاہئے۔ سچ یہ ہے کہ صرف ایک حل باقی بچا ہے اور وہ برادران وطن سے وسیع پیمانے پر رابطے اور تعلقات استوار کرنا۔رابطہ عامہ کے ذریعہ ان کے دلوں کو جیتنا’جو دلوں کو فتح کرلے وہی فاتح زمانہ‘
کتاب میں اس بات کی تلقین کی گئی ہے کہ مسلمان برادران وطن کے ساتھ وسیع پیمانے پر رابطے استوار کریں۔ غیرمسلموں کے سامنے اپنے حسن اخلاق اور سنجیدگی کا نمونہ پیش کریں۔ان کو اپنے آپ سے اور اپنے مذہب سے مانوس کریں۔انھوں نے لکھا ہے کہ”مسلمانوں کے مسائل پر مسلمانوں کے سامنے تقریریں کرلینا مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ غیرمسلموں کے ساتھ رابطہ عام Mass contact کے بغیر اب مسموم فضا کو بدلا نہیں جاسکتا۔نیکی اور شرافت اور خداترسی بہت اچھی صفت ہے لیکن اسے متعدی بنانے اور اس سے برادران وطن کے دلوں کی جیتنے کی ضرورت ہے۔کتاب کے آخر میں پروفیسر محسن عثمانی نے لکھا ہے کہ”اگر یہ بات سمجھ میں آگئی کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے مسائل کا حل برادران وطن کے دروازوں پر دستک دینے اور خدمت خلق کے ذریعہ دلوں کو جیتنے اور دین اسلام سے ان کو مانوس کرنے اور توحیدورسالت کا تعارف کرانے میں چھپا ہوا ہے تو اس کام کو اپنا مشن بنائیے اور اپنے شہر، اپنے محلہ اور پڑوس سے اس کام کو شروع کیجیے اور جن لوگوں نے اس کام کا بیڑا اٹھایا ہے، ان کے ساتھ تعاون کیجیے۔“