کورونا وائرس کی وبا کے نتیجے میں ہلاکتوں کی مجموعی تعداد تین لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق یہ وائرس شاید دنیا سے کبھی ختم نہ کیا جا سکے۔ ایسے میں اہم سوال یہ ہے کہ پھر اس مسئلے کا حل کیا ہو سکتا ہے؟
کورونا وائرس کی نوعیت اور اثرات نہایت مختلف ہیں جو زکام کے وائرس سے کوئی تقابل نہیں رکھتے، مگر اس وائرس کے پھیلاؤ کو کسی حد تک سمجھنے کے لیے زکام کا وائرس قدرے مددگار ہو سکتا ہے۔ زکام کے وائرس کا پھیلاؤ کب اور کہاں سے ہوا، اس سے متعلق حتمی علم تو کسی کو نہیں، مگر محققین کہتے ہیں کہ غالباﹰ انفلوئنزا وائرس سولہویں صدی میں ایشیا میں سامنے آیا اور پھر افریقہ اور یورپ میں پھیلتا چلا گیا۔
انفلوئنزا وائرس کی چار اقسام ہیں، جن میں سے ٹائپ اے، بی اور سی انسانوں کو متاثر کرتے ہیں جب کہ ٹائپ چار جانوروں کو لاحق ہوتا ہے۔
انفلوئنزا کی ٹائپ اے کے وائرسز ایچ ون این ون، ایچ ٹو این ٹو، ایچ تھری این ٹو، ایچ فائیو این ون سمیت متعدد دیگر ہیں۔ ٹائپ اے انفلوئنزا کی قدرتی آماج گاہ پرندے ہوتے ہیں، اور یہ وائرس عموماﹰ پولٹری کے ذریعے انسانون میں منتقل ہوتا ہے اور وبائی شکل اختیار کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ ٹائپ بی انفلوئنزا وائرس کی صرف ایک اسپیشیز ہے اور یہ وائرس عموماﹰ فقط انسانوں پر ہی حملہ آور ہوتا ہے۔ اب تک ٹائپ بی انفلوئنزا انسانوں کے علاوہ صرف سیلز اور فیریٹس میں ملا ہے۔ انفلوئنزا سی ٹائپ کی بھی صرف ایک اسیپیشز ہے اور گو کہ یہ بھی مختلف مقامات پر مقامی سطح پر وبائی شکل اختیار کرتا رہا ہے، تاہم ٹائپ اے اور ٹائپ بی انفلوئنزا کے پھیلاؤ کے مقابلے میں ایسا خاصا نادر ہی ہوتا ہے۔ ٹائپ ڈی انفلوئنزا کی بھی صرف ایک اسپیشیز ہے تاہم یہ فقط گائے اور سوروں کو متاثرہ کرتا ہے۔ گو کہ اس وائرس میں بھی انسانوں کو متاثر کرنے کی صلاحیت موجود ہے، تاہم اب تک ایسا ہوا نہیں ہے۔
زکام کے وائرس میں انتہائی تیز رفتار میوٹیشن جاری ہے اور اسی وجہ سے اس وائرس سے مکمل امیونٹی ممکن نہیں، یعنی یہ وائرس آپ کو بیمار کرے گا اور پھر کچھ عرصے بعد آپ دوبارہ اس وائرس کا نشانہ بن سکتے ہیں۔