9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مند
فیض احمد فیض کی ہستی بحیثیت شاعر کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے ۔ان کی انقلابی سوچ کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے ۔اور لکھا جارہا ہے اور آگے بھی لکھا جاتا رہے گا ،فیض شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک صحافی ،مدرس اور ٹریڈ یونین کے رہنما بھی رہے ۔ان تما م امور میں بھی ان کے کا موں کا موضوع بحث ہونا یہ ان کی کامیابی کا سب سے بڑا ثبوت ہے ۔ان پہلووں کے علاوہ بھی فیض کی شخصیت کا اہم پہلو سماجی دانشور کا تھا ۔جو گردو پیش کے مسائل پر غوروفکر کرکے ان کے بارے میں حل تلاش کرتے تھے ۔فیض کی فکر ایک خاص جہت پاکستانی ثقافت اور تشخیص کے حوالے سے تھی ۔اس موضوع سے فیض کا تعلق علمی اور عملی دونوں سطحوں پر تھا ۔وہ مختلف اوقات میں ایسی سرکاری کمیٹیوں سے بھی وابستہ رہے ہیں جن کا کام ملک کی ثقافتی پالیسیوں کا تعین اور پاکستانی ثقافت کے فروغ کے لئے اقدامات کرنا تھا ۔وہ بیک وقت کئی ادبی ثقافتی اداروں کے بنانے والون میں شامل تھے ۔ان تمام علمی اور عملی سر گرمیوں کے ساتھ ساتھ فیض احمد فیض نے علمی سطح پر تسلسل کے ساتھ ثقافتی مسائل کے بارے میں لکھا اور کھل کر اظہار خیال کیا ہے ۔
فیض احمد فیض ایک ایسی شخصیت کے مالک ہیں جن ہو ں نے ثقافت اور قومی تشخیص کے موجوع پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔اور اپنی اپنی قیمتی آراء سے قوم کو مستفید کیا ،عملی طور پر ان سارے معاملات کے حل کے لئے کوششیں بھی کیں ۔چْافتی امور او ر وسائل سے فیض سے فیض صاحب کی دلشسپی و وابستگی بہت گھری رہی ۔اس سلسلے میں وہ ایک جگہ پر لکھتے ہیں۔
’’ عملی سیاست میں جب اظہار کے ذرائع بند ہوگئے میں ادب اور ثقافت کے حوالے سے بار کرنی شروع کی ۔کیونکہ میرے خیال میں عوام کی اپنی شناخت،اپنی ثقافت ،اپنی قدروں کے حوالے سے بہت ضورری ہے ۔ اس کے بغیر ایک آزاد قوم کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ۔‘‘۱
ثقافت کے میدان میں فیض احمد فیض کا سفر لاہور آٹس کونسل سے شروع ہو کر اسلام آباد کی کونسل آف آرٹس پر جاکر اختتام پذیر ہوا ۔اس سفر مین میں کے چھوڑے ہوئے نقش قدم پاکستانی ثقافت کے خدو خال کے تعین میں اہم رول ادا کرتی ہے ۔۱۹۲۴ء سے ۱۹۷۲ء تک فیض احمد فیض پاکستانی آرٹس کونسل سے وابستہ رہے سقوط ڈھاکہ کے فیض ملک سے بباہر جانا چاہتے تھے ۔لیکن ذولفقار بھٹو کی فرمائش پر وہ یہاں پر قیام کیا ،مگر اس شرط کے ساتھ کہ جنرل ایوب خان کے دور میں جو رپورٹ مرتب کی گئی تھی ،ان خطوط پر کام ہو تو ٹھیک ہے ۔حکومت کی طرف سے ان کی اس شرط کو قبو کرلیا گیا ۔اور انہیں وزارت تعلیمات میں کلطر ڈویثزن کے مشیر کی حیثیت سے فرائض انجام دینے کے لئے کہا گیا ۔جس فیض نے نخوشی قبول کرلیا ۔
عملی اقدامات کے ساتھ ساتھ فیض نے احمد فیض نے علمی نظریات سطح پر بھی ثقافت کے موضوع پر اظہار خیال کرتے رہے ۔انہوں نے اپنی شاعری ، نثر، خطوط ،اور انٹر ویوز میں انیک مقامات پر نہ صرف ثقافتی امور کی طرف اشارہ کیا ہے ،بلکہ کھل کر گفتگو بھی کی ہے ۔ان کے خیالات حقیقت پسندانہ اور تعصب سے پاک ہیں ۔فیض نے کلطر اور تہذیب اور ثقافت جیسی تراکیب کا مفہوم بیان کرکے ان کے اجزائے ترکیبی اور باہمی تعلق پر بھی بحث کی ہے ۔بالخصوص پاکستانی تاریخ ،اس کے اجزاء اور فروغ موضوع پر سیر حاصل بحث کی ہے
فیض احمد فیض نے کلچر اور ثقافت و تہذیب جیسی تر کیبوں کی تعریف و اجزاء بھی بتائے ہیں۔ان کے نزدیک ہماری زبان اردو میں کلچر کا ہم معنی لفظ موجود نہیں ہے ۔ثقافت کے لفظ کو وہ کلچر کا متبادل اور مترادف تسلیم نہیں کرتے ہیں ۔ان کے نزدیک کلچر ایک لطیف شئے ہے اس کے لئے اتنا ثقیل لفظ نہیں ہو نا چاہئے ۔وہ ثقافت کے بجائے تہذیب کے لفظ کو استعمال کرتے ہیں ۔ وہ کلچر کی تعریف میں بیان کرتے ہیں کہ ’’ کہ ہر قوم کی ثقافت کے تین پہلو ہوتے ہیں ۔۱) ایک قوم کی اقدار و روایات اور اعقائد جن میں وہ یقین رکھتی ہے ۔۲)اس کے رہن سہن کے طریقے اور اداب و اخلاقیات ۔۳)اس کے فنون ۔ یہ تینوں ایک دسرے سے منسلک ہیں ،اور ایک دوسرے پر اثر انداز بھی ہوتے ہیں ۔
قومی کلچر کیا ہے؟ اسے کیسے متوین کیا جائے ؟اس بارے میں فیض کی رائے ہے کہ ’’ کہ قومی کلچر کے لئے سب سے پہلے وقم کا وجود بہت ضروری ہے۔کلچر کو تین حوالوں سے متعین کیا جاسکتا ہے ،اس کا طول ، اسکا عروض، اس کی گہرائی ،کلچر کا طول اس قوم کی گہائی ہے کہ جو قوم اپنی تاریخ کو جس نقطے سے شروع کرتی ہے ۔وہاں سے لیکر موجودہ وقت تک ا س کلچر کا طول ہے ۔جبکہ کے کسی قوم کے کلچر کے عروض سے مراد اس قوم کی جغرافیائی حدود ہیں ۔کوئی قوم جب اپنے وطن کی حدود متعین کرتی ہے وہی کلچر کا عروض ہے ۔اور کلچر کی گہرائی سے ،مراد ،کلچر کی رسائی کن لوگوں تک ہے ۔
یہاں تک کلچر اور قومی کلچر کی بات ہوگئی ،اب ہم پاکستانی ثقافت کی بات کرتے ہیں تو ہمیں فیض احمد فیض کے بتائے ہوئے اصلولوں کے مطابق سب سے پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ پاکستان کی تاریخ کہاں سے شروع ہوتی ہے ؟ اس ضمن میں فیض احمد فیض کی کی رائے بہت واضح ہے ۔ان کے نزدیک اس سر زمیں کی تاریخ پانچ ہزار سال پرانی ہے ۔یعنی موہن جوداڑو سے اب تک جتنا عرصہ گذرا ہے وہ سب ہماری تاریخ کا حصہ ہیں ۔ فیض احمد فیض کی رائے میں ‘‘
میرے ذہن میں تو یہ بات بالکل واضح ہے کہ قومی ثقافت میں ہر وہ چیز شامل ہے جو کسی سر زمین میں موجود ہے ۔تاریخی اعتبار سے جہاں سے اس سر زمین کی تاریخ شروع ہو ہوتی ہے ۔جو کچھ بھی فنون و علوم اور ثقافت کی صورت میں ہے ۔اور جو اس یہاں پر موجود ہے اس ملک کی قوم کا سرمایہ ہے ۔اور تاریخی اعتبار سے اس ملک میں جو کچھ بھی ہے موہن جوداڑو سے لے کر اب تک وہ سب کچھ ہمارا ہے ۔‘‘۲
پاکستان اسلامی فلاحی ریاست کے طور پر دنیا کے نقشے پر ابھرا ہے ۔اس کا سرکاری مذہب اسلام ہے ۔اس مین رہنے والوں کی اکثریت مسلمان ہے ۔پھر اس ملک کا کلچر اسلامی کلچر ہی ہونا چاہئے ۔یہ وہ موقف تھا جو ملک مین ایک کثیر تعداد کی زبان پر تھا ۔فیض احمد فیض سے یہ سوال بار بار کیا گیا کہ کیا پاکستان کا کلچر اسلامی کلچر نہیں ہو سکتا ؟۔اس پر فیض کی رائے یہ تھی کہ ’’ مذہب ثقافت کا اہم جزو وروپ ہو سکتا ہے ۔لیکن ثقافت کی اساس نہیں ‘‘ کیونکہ ثقافت صرف مذہب سے تشکیل نہیں پاتی بلکہ اس میں اور بھی بہت سے عناصر شامل ہوتے ہیں ۔جس میں تاریخ اور جغرافیائی عناصر بھی شامل ہوتے ہیں ۔اس سلسلے میں ایک جگہ پر لکھتے ہیں’’
’’ہر مسلمان قوم کی تہذیب اسلامی تہذیب ہے ۔لیکن اس کے ساتھ ہی ہر اسلامی ملک کی ایک قومی تہذیب بھی ہے ‘‘۳
اس بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں :
پاکستان تو اسلام نہیں ہے ،پاکستان تو ایک جغرافیہ ہے ۔ملک کا نام ہے دین کا نام نہیں ۔اگر آپ اپنے آپ کو پاکستانی نہ کہیں اور اپنی قومیت سے انکار کردیں تو پھر یہ ہو سکتا ہے ۔لیکن اگر قومیت پر مضر ہیں تو پھر آپ کو قومی تہذیب پر مضر ہونا پڑے گا ۔ پھر آپ اس قومی تہذیب کو کسی دوسری قومی تہذیب کا حصہ نہیں سمجھ سکتے ۔‘‘۴
فیض احمد فیض کا خیال ہے کہ ہمارے کلچر کی بنیاد دین کو سمجھنا غلط ہے ۔دین باطنی چیز ہے، یہ بات درست ہے کہ دین کی وجہ سے زندگی کی بہت سی قدریں متعین ہوتی ہیں ۔لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ کلچر کے بہت سے اجزاء ایسے ہیں جنکو مذہب یا دین متعین نہیں کرتا ۔ایسی چیزون کی بات کرتے ہوئے ہمیں دین کی طرف لوٹنا پڑے گا ۔ ۔پاکستانی تہذیب اسلامی تہذیب کیوں نہیں ہو سکتی ؟ اس بارے میں فیض کی رائے یہ ہے کہ ’’آپ صرف اسلامی تہذیب اس لئے نہیں کہہ سکتے کہ آپ کا اجارہ اسلام پر نہیں ہے اس پر دیگر اسلامی ممالک کا بھی حق ہے ‘‘۵
فیض کا موقف تھا کہ اگر ہم اپنی قومیت کو تسلیم کرتے ہیں تو پھر پاکستانی تہذیب کے دو عناسر ہیں ۔ایک اسلام اور دوسرا پاکستانیت ۔ یہاں تک تو مذہب کے مسلے تک بات تھی ۔ایک دوسرا سوال پاکستان کے کلچر کے بارے میں یہ ہے کہ کہ پاکستان میں مختلف قومیں بستی ہیں ،تقریبا طھ صوبے ہیں ۔ہر ایک صوبے کی مخصوص طرز معاشرت ہے ان کے الگ الگ لسانی معاملات ہیں ، تہذیبی زاریہ ہیں ۔ایسے میں ایک کلچر کی بات کیسے کی جائے ؟
فیض نے جب علاقائی ثقافت کے موضوع پر اظہار خیال کیا تو اس سے جڑے تمام معاملات ان کی نگاہ میں تھے ۔فیض کا موقف اس ضمن میں یہ ہے کہ ’’مختلف علاقائی تہذیبوں سے خوفزدہ ہونے کے بجائے اسے قبول کرنے کا رجحان پیدا کرنا چاہئے ۔اور تہذیبی اختلافات کو مخالفت میں تبدیل نہیں ہونے دینا چاہئے ۔ان سب اجزاء کے مشترک کرنے سے پاکستانی کلچر کی تشکیل ہوگی ۔فیض کا یہ بھی ماننا ہے کہ ہر علاقے کا اپنا کلچر ہے اور خوبصورت کلچر ہے بجائے اس کے کہ ہم اسے نظر انداز کریں ہمیں چاہئے کہ علاقائی کلچروں کی خوبصورتی کو سمیٹ کر پاکستانی کلچر تشکیل دیں ۔
ہمارے یہاں ایک عام رویہ ہے کہ ہم کلچر کو محض امراء کی عیاشی کی چیز تصور کرتے ہیں ۔اور سمجھتے ہیں کہ عوام کا کلچر میں کوئی عمل دخل نہیں ہے ۔یہ روساء کا معاملہ ہے ۔فیض کا خیال اس بارے میں یہ ہے کہ
’’ ہمیں اپنے ذہنوں سے جالے صاف کرنے کی ضرورت ہے ۔کہ کلچر محض عیاشی اور لہو لعیب کا نام نہیں ہے ۔اور نہ ہی ا سکا تعلق امراء سے ہوتا ہے‘‘ ۶
ایک جگہ پر وہ کہتے ہیں ۔’’
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ کلچر یا ثقافت ،گانے بجانے یا لہو لعیب کا نام نہیں ہے بلکہ یہ قومی اور معاشرتی زندگی کا بہت اہم شعبہ ہے ۔کلچر معاشرتی زندگی کے جملہ کاروبار پر اثر انداز ہوتا ہے ۔کسی بھی انسانی معاشرے کے پورے نظام یا طریقہ زندگی کو کلچر کہتے ہیں َ‘‘۷
اس طرح سے فیض احمد فیض نے کلچر کو قوم کے ہر فرد سے جوڑدیا ہے ۔ان کے نزدیک کلچر قوم کے افراد کے مجموعیرویہ سے تشکیل پاتا ہے ۔ایک گروہ یا ایک حلقہ کویہ کلچر نہیں بنا سکتا ۔کلچر عوام الناس کا بھی اتنا ہی حصہ ہے جتنا امراء اور روساء کا ہوتا ہے ۔ ثقافت کے موضوع پر بات کرتے ہوئے فیض احمد فیض لسانی مسائل ،اور لسانی گروہ بندیوں سے بھی مکمل طور پر آگاہ کیا ہے ۔علاقائی زبانوں کی موجودگی کے باوجود ایک قومی زبان کی اہمیت کیا ہوتی ہے اور قومی زبان کسے ہونا چاہئے ،اس بارے میں فیض کی رائے یہ ہے کہ ،اردو ہی وہ زبان ہے جو پاکستان کے تمام علاقوں میں بولی اور سمجھی جاتی ہے ۔اور یہ زبان ہی رابطے کا کام دے سکتی ہے ،مزید یہ کہ اردو کے فروغ سے علاقائی زبانوں کو کوئی لاحق نہیں ہے ۔مزید ایک جگہ پر فیض لکھتے ہیں :
’’میں نے زبان کو کلچر سے الگ نہیں کیا ہے ،ہمارے ملک میں مخلف زبانیں ہیں اور سب کی سب ہماری زبانیں ہیں ،اس میں کوئی بدیسی زبان نہیں ہے ۔لیکن ان مختلف زبانوں کی موجودگی میں بھی ہمیں ایک زبان کی ضرورت ہے جو رابطے کا کام دے اور کاروباری زندگی میں سب کا یکساں وسیلہ رہے ۔اور وہ ایک ہی زبان ہے اردو ۔اردو ایک ایسی زبان ہے جس میں دوسری زبانوں کے بولنے والے بھی حصہ لے سکتے ہیں اور اظہار خیال بھی کرسکتے ہیں ۔جو بھی زبان یہاں بولی جاتی ہے ان کا فروغ لازم ہے انہیں تسلیم کرنا لازم ہے ، اس کے ساتھ ایک مشترک زبان کو تسلیم کرنا اور اسے بھی فروغ دینا ضروری ہے ‘‘۸
ہمارے یہاں کلچر کو کمتر سمجھنے کا ایک عمومی رویہ پایا جاتا ہے ۔ا سکی ایک وجہ مشرقی کلچر کی چکا چوند ہے ۔اور وجہ ہماری قومی ثقافت کا منجمد ہو جانا ہے ،فیض احمد فیض اس سلسلے میں کہتے ہیں ۔:
’’خلاء تو فطرت میں ہوتا ہی نہیں ہے ۔ کوئی نہ کوئی وجہ پر کرنے آجاتی ہے ،ہم نے اپنے پیالے کو پوری طرح بھرا نہیں ہے ،جو اس میں کمی رہ گئی ہے ۔سہ ساری چیزیں اس میں شامل ہو گئیں ہیں اگر ہم نے اپنا ثقافتی پیالہ نہیں بھرا ہوتا تو دوسری چیزوں کی گنجائش ان میں کم ہوتی ۔۔۔۱۰‘‘
مزید یہ کہ حاکم قوم محکوم قوم کی اقدارو روایات کو کسی کھاتے میں نہیں ڈالتی ۔ ہمارے ساتھ بھی یہی ہوا ،انگریزوں نے ہماری صدیوں کی تہذیبی روایات کو ہماری نظروں میں کمتر کردیا اور اپنے کلچر کو متعارف کروایا ۔فیج احمد فیض کے نزدیک اس مسلئے کا حل یہ ہے کہ ،ہمارے پاس جو کچھ ہے ،جتنا تاریخی و تہذیبی ورثہ ہے ہمیں اس پر فخر کرنا چاہئے ۔اور اس کے فروغ کے لئے کوشش کرنی چاہئے ۔مگر اس پر شرمندہ ہونے کی کویہ ضرورت نہیں ہے ۔
فیض احمد فیض کی رائے میں ہمیں اپنے کلچر کو فروغ دینا چاہئے ۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ کلچر کو کس طرح فروغ دیا جا سکتا ہے؟کیا شعری طور پر کلچر میں تبدیلیاں کی جاسکتی ہیں ؟اس کے متعلق فیض کا خیال یہ ہے کہ کلچر کے دو پہلو ہیں۔ایک فنون اور دوسرا معاشرے کا مجموعی طرز زندگی ۔ان کے نزدیک فنون کو ہم فروغ دے سکتے ہیں ۔کیونکہ رواداری کو ہمیں شعوری طور پر فروغ دینا پڑتا ہے ۔ورنہ ان میں خرابی کا عنصر پیدا ہونے کا خطرہ ہے ۔دوسرا عنصر کلچر کا طرز زندگی ہے ۔ جو معاشرے کی پوری اجتماعی زندگی سے وابستہ ہے ۔اور وہ آسانی سے نہیں بدلتا اسے بدلنے کے لئے آپ کو معاشرے کی صورت بدلنی پڑتی ہے ۔اس کے علاوہ آپ اسے بدل نہیں سکتے ۔
ہم دیکھتے ہین کہ فیض احمد فیض نے فنون لطیفہ کو کلچر کا ایک حصہ قراردیا ہے ۔فنون کیا کچھ شامل ہے ؟فنون کی اہمیت اور حقیقت کیا ہے ؟اور یہ کہ اسلاف سے متصادم فنون کون سے ہیں ؟اس سلسلے میںفیض کا موقف یہ ہے کہ
’’فن کلچر کا ایک مظہر ہوتا ہے ،کلچر اور فن کو ایک دوسرے خلط ملط نہیں کرنا چاہئے ۔ فنون ادب ،موسیقی ،مصوری ،اور فلم وغیرہ کلچر کے منجھے ہوئے ارادی اور تراشے ہوئے اجزاء ہیں ۔فیض کے نزدیک فن آزادی اظہار کی بنا پر پھلتا پھولتا ہے ۔ ہمارے یہاں چند بزرگ ایسے ہیں جو فنون کو گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں۔اور فنون کو اسلام سے متصادم قرار دیتے ہیں ۔فیض کے نزدیک ایسے لوگوں کی وجہ سے ہی ہم ابھی تک فحاشی اور فنکاری کے درمیان فرق واضح نہیں کرسکتے ‘‘ ۱۱
فیض احمد فیض کے نزدیک کلچر پورا طریقہ زندگی ہے۔ان کے مطابق کلچر کو طول ،عروض، اور گہرائی سے ماپا جاسکتا ہے ۔ان کے خیال میں علاقائی کلچروں اور تاریخی ورثے والے ملاپ سے ہی پاکستانی کلچر تشکیل دیا جاسکتا ہے ۔مذہب کلچر کا حصہ ضرور ہے لیکن اس کی بنیاد نہیں ہوسکتا ،ثقافت اور کلچر امراء کی عیاشی کی چہز نہیں ،بلکہ یہ کسی بھی معاشرے کی تشخٰیص کرنے کا نہایت ضروری آلہ کار ہے ۔اور اس میں عوام کا کردار بھی بہت اہم ہوتا ہے ۔فیض کلچر کا جامد چیز نہین مانتے ،بلکہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ نئے زاویئے کلچر میں شامل ہوتے ہیں۔اور فرسودہ پہلووں کا اخراج ہوتا ہے ۔فیض احمد فیض ادب کو کلچر کا ایک بہت اہم پہلو قرار دیتے ہیں۔ان کے نزدیک معاشرے کی تصویر ہوتا ہے ۔اور جیسا معاشرہ ہوگا ویسا ہی ادب پروان چڑھے گا ۔ایک جگہ پر فیض احمد فیض پاکستان پر فخر کرتے ہوئے کہتے ہیں :
’’پاکستان ایک نیا ملک ہے یہاں کی قوم ایک نئی قوم ہے ۔چنانچہ اس ملک مین رہنے والوں کو اس سر زمین سے محبت اور افتخار کرنا سیکھنا چاہیے ۔یہاں جو کچھ ہمیں تاریخ کے توسط سے ملا ہے ۔اسے اپنائیں اور باہر جو کچھ آیا ہے جوکہ ہماری تہذیب میں سرایت کرچکا ہے ،اسے بھی قبول کریں ‘‘۱۲۔۔
آخر میں جو سب سے اہم بات جو فیض احمد فیض نے کہی جو کہ کلچر کے فروغ میں بہت اہم مقام رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ ’’ ’’آرٹ اور کلچر تو کرنے کی چیزیں ہیں ۔ان کے بارے میں ہم باتیں کم کریں اور کوشش کریں کی کام ہو ‘‘
فیض احمد فیض نے کلچر کے تعلق سے جو باتیں ،اور جن ثقافتی مسائل کی نشان دہی کی ہے ،آج بھی ہمارے معاشرے وہ سارے مسائل جوں کے توں موجود ہیں ۔تھوڑی بہت بہتری آئی ہے ۔لیکن بہر حال ابھی بہتری کی گنجائش موجود ہے ثقافتی معاملات کے حل کے لئے اگر فیج کے متعین کردہ راہوں پر چلا جائے تو خاطر خواہ نتائج بر آمد ہو سکتے ہیں ۔ اور ہم ثقافی مسائل سے بآسانی نبرد آزما ہو سکتے ہیں ۔مجموعی طور سے اگر دیکھا جائے تو فیض احمد فیض نے جس طرح سے کلچر اور ثقافت کے تعلق سے جو باتیں بتائیں ہیں وہ سب ہماری زندگی کیبہت کارآمد اور مفید ہیں
شاہین اکیڈمی لکھنو