سید خرم رضا
اسرائیل اور فلسطین کے مابین کوئی جنگ یا کسی قسم کی جھڑپیں نہیں ہو رہی ہیں، بلکہ یہ صرف ایک ملک اپنی طاقت کا مظاہرہ کر رہا ہے اور دوسرے سماج کے لوگوں کو اپنی طاقت کا احساس دلا رہا ہے۔ اسرائیل ایسا اس لئے کر رہا ہے تاکہ وہ پوری دنیا کو اور خاص طور سے عرب دنیا کو اپنی طاقت کا احساس دلاسکے۔ تازہ اطلاعات کے مطابق اسرائیل نے فضائی حملوں میں اب تک 126 فلسطینیوں کو شہید کر دیا ہے اور تقریباً ایک ہزار لوگوں کو زخمی کر دیا ہے۔اسرائیل کے یک طرفہ فضائی حملے جاری ہیں اور غزہ میں جہاں لوگ شہید ہو رہے ہیں، وہیں اسپتالوں میں زخمیوں کے علاج کے لئے جگہ نہیں بچی ہے۔ غزہ کی کثیر منزلہ عمارتیں زمین بوس ہو چکی ہیں۔ بڑی تعداد میں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں اور یہ بے گھر لوگ بچے کچے سامان کے ساتھ نئے ٹھکانوں کی تلاش کر رہے ہیں جہاں وہ اپنی عقل کے حساب سے خود کو محفوظ سمجھتے ہیں۔
جس طرح اسرائیل اور فلسطین کی فوجی طاقت میں زمین آسمان کا فرق ہے ویسے ہی وہاں کے لوگوں کی زندگیوں میں زبردست فرق ہے۔ غزہ میں جہاں غریبی چیخ چیخ کر بولتی دکھائی دیتی ہے ویسے ہی اسرائیل کے ہر شہر میں لوگ وہ زندگی بسر کرتے ہیں جس کا تصور مشرق کے کئی بڑے ممالک تصور بھی نہیں کر سکتے۔ اس سب کے باوجود اسرائیل کے لوگ خوف میں مبتلا ہیں جس کی وجہ سے وہاں کےعوام پر نہ صرف فوجی تربیت لازمی ہے بلکہ وہاں پر کسی غیر یہودی کے جانے پر کتنی طرح کی سیکورٹی پابندیاں ہیں اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ ڈرے سہمے رہنا وہاں کے عوام کی زندگی کا لازمی حصہ بن گیا ہے۔
آیئے اصل مدے پر بات کرتے ہیں۔ سو سال پہلے برطانیہ ایک طاقت ور ملک تھا اور اس نے اپنی طاقت اور اثر کا استعمال کرتے ہوئےاقوام متحدہ کے ذریعہ فلسطین کے دو ٹکڑے کر کے ایک حصہ یہودیوں کو دے کر دنیا کی یہودی آبادی پر احسان کر دیا تھا۔ یہودی جن کا پوری دنیا میں اپنا کوئی ملک نہیں تھا ان کے لئے یہ ایک بڑا تحفہ تھا اور وہ بھی اس وقت جب وہ جرمنی میں ہولوکاسٹ سے گزر چکے تھے۔ یہودیوں کو جیسے ہی اقوام متحدہ کے ذریعہ فلسطین کا ایک حصہ ملا ویسے ہی انہوں نے اپنی خود مختار ریاست کا اعلان کر دیا۔ عرب جو فلسطین میں اکثریت میں تھے، انہوں نے اقوام متحدہ کے اس فیصلہ کو قبول نہیں کیا اور سفارتی سطح سے لے کر زمینی سطح پر مخالفت شروع کر دی، لیکن یہودیوں نے جس خطے پر اپنی خود مختار ریاست کا اعلان کیا تھا اس کو امریکہ اور برطانیہ کی حمایت حاصل تھی اس لئےعربوں کو ہر سطح پر ناکامی کا منہ ہی دیکھنا پڑا۔یہودیوں نے اس کے بعد جو حکمت عملی تیار کی اس میں پہلے تو امریکی معیشت پر قبضہ تھا پھر عرب ممالک میں تقسیم کرکے وہاں کی فوجی اور اقتصادی طاقت کو کمزور کرنا تھا۔ 1967 میں اسرائیل کو اس بات کا احساس ہو گیا تھا کہ عرب کمزور ہوگئے ہیں اور وہ خود فوجی اعتبار سے مضبوط ہو گیا ہے۔ اوپر سے اسے امریکہ جیسے ملک کی حمایت حاصل تھی۔ امریکہ کو بھی اس سےدو فائدے تھے ایک تو وہ چاہتا تھا کمزور عرب ممالک جو اس کے حق میں ہیں، کیونکہ پھر وہ ان سے مدد طلب کریں گے اور مدد کی آڑ میں وہ وہاں کی معیشت یعنی تیل پر پوری طرح قبضہ کر لے گا اور وہ اس میں پوری طرح کامیاب بھی ہو گئے۔ 1967 میں چھ دن کی جنگ میں عربوں کو شکست دے کر اسرائیل نے یروشیلم پر پورا قبضہ کر لیا، جس کو اقوام متحدہ نے ایک بین الاقوامی شہر کا درجہ دیا تھا اور اس پر کسی کا قبضہ نہیں تھا کیونکہ یہ شہر دنیا کے تینوں بڑے مذاہب کے لوگوں کے لئے یعنی یہودیوں، مسلمانوں اور عیسائیوں کے لئے مذہبی اعتبار سے بہت اہم تھا۔
اسرائیل امریکہ کی ایما پر یہ سب کچھ کرتا رہا اور پوری دنیا میں اس کے خلاف مظاہرہ بھی ہوتے رہے۔ ان مظاہروں کی ناکامی نے اسرائیل کو مزید طاقت ور بنایا اور اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ان مظاہروں کی پشت پر بھی اسرائیل ہی ہوتا تھا تاکہ ان مظاہروں کی ناکامی کی صورت میں اس کی طاقت میں مزید اضافہ ہو۔اسرائیل نے یروشیلم پر قبضہ تو کر لیا ہے لیکن اس کو یہ احساس ہے کہ یہاں پر یعنی بیت المقدس میں مسلمانوں کا قبلہ اول ہے اس لئے اس کو پوری طرح سے اپنے کنٹرول میں نہیں لیا جا سکتا، دوسرا اس کو یہ احساس ہے کہ یروشیلم عیسائی مذہب کے لئے بھی انتہائی اہم ہے کیونکہ حضرت عیسی کی پیدائش یہیں ہوئی تھی، تیسرا اسرائیل کے چاروں طرف مسلم عرب آبادی ہے اور وہ کب تک ان کو آپس میں لڑ وا کر خود کو محفوظ رکھ سکتا ہے اس لئے وہ ان کے ممکنہ اتحاد سے خوفزدہ ہے، خود یہودیوں کی اسرائیل اور پوری دنیا میں آبادی بہت کم ہے اس لئے وہ اسرائیل میں آبادی کے تناسب کو بھی ذہن میں رکھتا ہے، اس کو یہ بھی احساس ہے کہ یہودیوں میں افزائش نسل میں زبردست گراوٹ ہے۔اس لئے اب اسرائیل چاہتا ہے کہ امریکہ کےساتھ وہ عرب ممالک کی معیشت کو بھی اپنا غلام بنا لے اس کے لئے اس نے ٹرمپ کے دور میں عرب حکومتوں سے اپنی شرطوں پر دوستی شروع کی اور ان کے ساتھ سفارتی تعلقات بنانے شروع کیے۔ اس کا مقصد عرب ممالک میں پیچھے یعنی اقتصادی غلامی کے راستے سے قبضہ کرنا ہے۔ اس سارے عمل میں سعودی شہزادے محمد بن سلمان کا اسرائیل پورا استعمال کر رہا ہے۔ محمد بن سلمان کی تقلید باقی عرب ممالک بھی کر رہے ہیں۔ فلسطین کو وہ پوری طرح کمزور کرنا چاہتا ہے تاکہ وہاں کی بڑھتی آبادی اس کے لئے خطرہ نہ بن سکے۔ کیوں کہ وہ اپنی کم آبادی کو لے کر بہت خوفزدہ ہے جس کی وجہ سے وہ ان خطوں کو اپنے ملک کے ساتھ ضم بھی نہیں کر سکتا۔سیاسی عدم استحکام کی ایک وجہ ہے لیکن اپنے بڑے منصوبہ کے تحت اسرائیل نے فلسطین پر یہ حملہ کیا ہے تاکہ وہ راکٹ داغنے والےکمزور حماس کو اپنے بڑے دشمن کے طور پر پیس کرے اور ان کی گردن حسب سہولت کبھی بھی مروڑ سکے۔ یہودی ریاست کے قیام کے لئے ایک تقسیم اقوام متحدہ کر چکا ہے اور اب اپنی ریاست کو مضبوط کرنے کے لئے یہودی فلسطین کو کئی سایسی قووتوں میں تقسیم کر نے کی کوشش میں ہے۔