9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مند
عباس دھالیوال
مرزا غالب کا ایک مشہور ہے :
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
بڑے بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے
غالب کا مذکورہ شعر دراصل آج اس وقت ذہن میں آ یا جب افغانستان سے امریکہ کی افواج کی گھر واپسی ایک رپورٹ پڑھ رہا تھا جس میں بتایا گیا ہے کہ امریکہ نے افغانستان کے بگرام ہوائی اڈے کو خالی کرتے ہوئے اپنے فوجیوں کے ساتھ ساتھ اپنے جنگی سازو سامان کو بہت ہی تیزی کے ساتھ سمیٹنا شروع کر دیا ہے. اس ضمن میں امریکہ کے دفاعی حکام کا کہنا ہے کہ امریکہ اور نیٹو کے آخری فوجی دستوں نے افغانستان کی بگرام ایئر بیس کو خالی کر دیا ہے جو گذشتہ 20 سال سے عسکریت پسندوں کے خلاف جنگ کا مرکز بنا ہوا تھا۔
ادھر دفاعی ماہرین کے مطابق بگرام ہوائی اڈے سے امریکی فوج کے انخلا کا مطلب ہے کہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کا مکمل انخلا اب عنقریب ہی ہونے والا ہے۔
اس سے قبل صدر بائیڈن بھی کہہ چکے ہیں کہ امریکی افواج 11 ستمبر تک افغانستان سے واپس آ جائیں گی۔یہاں قابل ذکر ہے 11 ستمبر 2001 کو امریکہ میں ہونے والے حملوں کے 20 سال مکمل ہو جائیں گے۔ ان حملوں میں تین ہزار کے قریب افراد ہلاک ہوئے تھے۔ تب سے امریکہ یہی کہتا آرہا ہے مذکورہ حملے افغانستان میں موجود ایک بین الاقوامی جنگجو گروہ القاعدہ نے کیے تھے۔ القاعدہ کو افغانستان میں طالبان کی حمایت حاصل تھی جو 1990 کی دہائی سے ملک کا نظام سنبھالے ہوئے تھے۔
نائن ایلیون کے بعد امریکہ کی قیادت میں اتحادی افواج نے اُسی سال کے اواخر میں دونوں گروہوں کو شکست دینے کے لیے افغانستان پر تابڑ توڑ حملے بول دیئے تھے. اس کے بعد امریکہ و اس کی اتحادی افواج نے افغانستان میں اپنے پکے ڈیرے جما لیے تھے. ان کی افواج گزشتہ بیس سال سے افغانستان میں موجود چلی آرہی تھیں. لیکن اب امریکہ اپنا بے پناہ جانی و مالی خسارہ کروانے کے بعد اس طویل ترین جنگ کو ختم کر کے افغانستان کی سلامتی افغان حکومت پر چھوڑ کر جا رہا ہے۔
ماہرین کے مطابق افغانستان کا بگرام ہوائی اڈہ اس بات کی علامت ہے کہ آئندہ کیا ہونے والا ہے۔ امریکی فوجی قوت کی علامت یہ اڈہ کبھی سوویت افواج کے زیر اثر تھا۔ دراصل یہ فوجی اڈہ 1980 کی دہائی میں سوویت افواج نے افغانستان پر حملے کے بعد قائم کیا تھا۔ یہ کابل سے 40 کلومیٹر شمال کی طرف واقع ہے اور اس کا نام ایک قریبی گاؤں کے نام پر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جب 2001 میں امریکہ اور نیٹو فورسز نے بگرام کا کنٹرول سنبھالا تو یہ اڈہ ایک تباہ حال عمارتوں کا مجموعہ تھا۔ طالبان کو کابل سے نکالنے کے بعد امریکہ اتحاد نے اپنے اتحادی جنگی سرداروں کے ساتھ مل کر بگرام اڈے کی تعمیر نو شروع کی۔ ابتداً عارضی ڈھانچہ بنایا گیا۔ بعد ازاں اسے مستقل شکل دی گئی۔ یہ اڈہ بہت تیزی سے پھیلتا گیا اور اب یہ تقریباً 30 مربع میل پر محیط ہے ۔ چنانچہ اس کے بعد امریکہ نے اس اڈہ کو 10 ہزار فوجیوں کی رہائش کے قابل بنایا۔ بگرام کے دو رن وے ہیں جن میں سے نیا رن وے 3.6 کلومیٹر طویل ہے جہاں بڑے کارگو اور بمبار جہاز لینڈ کر سکتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس میں طیاروں کی پارکنگ کے لیے 110 جگہیں ہیں جن کی حفاظت کے لیے بم پروف دیواریں ہیں، 50 بستروں پر مشتمل ہسپتال ہے، ٹراما مرکز ہے، تین آپریشن تھیٹر ہیں اور ایک جدید دانتوں کا کلینک بھی ہے۔اس کے ساتھ ہی بگرام ہوائی اڈے پر فنٹس سنٹرز اور فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹس بھی موجود ہیں۔ اس اڈے پر ایک حصے میں جیل بھی بنائی گئی ہے۔اس کے ہینگرز اور عمارتوں میں وہ قید خانے بھی ہیں جہاں تنازعے کے عروج کے دنوں میں امریکی فوج کی زیرِ حراست لوگوں کو رکھا جاتا تھا۔
یہاں قابل ذکر ہے کہ بگرام اُن سائٹس میں سے ہے جس کا تذکرہ امریکی سینیٹ کی رپورٹ میں آیا ہے جس کے مطابق سی آئی اے ان حراستی مراکز میں مبینہ طور پر القاعدہ سے تعلق رکھنے والے افراد سے تشدد کے ذریعے تفتیش کیا کرتی تھی۔
اینڈریو واٹکنز انٹرنیشنل کرائیسز گروپ سے وابستہ سینئر تجزیہ کار اینڈریو واٹکنز کہتے ہیں کہ بگرام ایک بڑی تنصبیاب والا فوجی اڈہ بن گیا تھا۔ اس طرح کے کچھ اور اڈے افغانستان اور عراق میں تھے۔ یہ اڈہ ’’ مشن کریپ‘‘ کی علامت تھا‘‘۔
ادھر ایسوسی ایٹڈ پریس کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہوائی اڈے کی سرد جنگ کے زمانے سے لے کر آج تک اہمیت اور یہاں مختلف ادوار میں آنے والے نشیب و فراز کے بارے میں تفصیل سے بتایا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس انخلا کی بھی ایک علامتی اہمیت ہے۔ یہ دوسرا موقع ہے کہ افغانستان پر حملہ آور قوت یہاں آئی ہے اور بگرام کے راستے واپس گئی ہے۔
سوویت یونین نے 1950 کی دہائی میں یہاں فضائی اڈہ قائم کیا۔ جب اس نے 1979 میں ایک کمیونسٹ حکومت کی مدد کے لیے افغانستان پر حملہ کیا۔ یہ اڈہ ملک کے اندر اپنے قبضے کے دفاع کے لیے مرکزی اڈہ بن گیا۔ دس سال تک روس کی فوج نے امریکی حمایت یافتہ مجاہدین کے خلاف، جنہیں صدر رونلڈ ریگن نے ’فریڈم فائٹرز‘ کا نام دیا تھا، لڑائی جاری رکھی۔ صدر ریگن انہیں سرد جنگ کے آخری معرکے میں اگلے مورچوں کی فورس کے طور پر دیکھتے تھے۔
سوویت یونین نے 1989 میں اپنے انخلاء پر مذاکرات کیے۔ تین سال کے بعد ماسکو حکومت کا شیرازہ بکھر گیا اور مجاہدین نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ ایک دوسرے پر اسلحہ تان لیا اور ہزاروں عام شہری اس خانہ جنگی میں ہلاک ہو گئے۔ اس تنزلی کے عالم میں طالبان اقتدار میں آ گئے جنہوں نے 1996 میں کابل کو فتح کر لیا۔
ادھر بگرام اڈے کی اہمیت کے بارے میں فاؤنڈیشن فار ڈیفینس آف ڈیموکریسیز کے فیلو بل روگیو کہتے ہیں کہ “بگرام اڈے کی بندش ایک بڑی علامت رکھتی ہے۔ اور یہ طالبان کی سٹریٹجک فتح ہے‘‘۔
امریکی عملہ افغانستان کی فوج کو بعض ہتھیار اور دیگر ساز و سامان دیتے رہے ہیں۔ کوئی بھی ایسی چیز جسے امریکی افواج لے جانے سے قاصر ہے اسے تلف کیا جا رہا ہے یا بگرام کے نزدیگ کباڑیوں کو فروخت کر رہے ہیں۔ امریکی عہدیداروں کے مطابق وہ اس بات کو ہر صورت یقینی بنا رہے ہیں کہ کوئی بھی چیز طالبان کے ہاتھ نہ لگے۔ اس ضمن میں گزشتہ دنوں یو ایس سینٹرل کمان نے بتایا تھا کہ اس نے 17 ہزار 7 سو 90 آلات، C-17 کے 763 جہازوں میں مال لاد کر افغانستان سے باہر منتقل کیے ہیں۔
مذکورہ ضمن میں مائیکل کہتے ہیں کہ اس طرح بہت کچھ جلدی جلدی میں ساتھ لے جانا اور بہت کچھ تباہ کرنا امریکہ کی طرف سے اس تیزی کو ظاہر کرتا ہے کہ انہیں یہاں سے نکلنے میں کس قدر جلدی ہے۔
’’یہ افغانستان کے عوام کے لیے اور اس فوجی اڈے کا کنٹرول سنبھالنے والوں کے لیے خیر سگالی پر مبنی کوئی تحفہ نہیں ہے۔ ‘‘
ادھر افغانستان کے ایک ریٹائرڈ جنرل سیف اللہ صافی امریکہ و روس کے نظریاتی تضاد کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ” روس نے جب انخلاء کا فیصلہ کیا تو وہ اپنا سب کچھ یہاں چھوڑ کر گئے۔ وہ زیادہ کچھ ساتھ نہیں لے گئے۔ صرف گاڑیاں لے گئے جو انہیں اپنے سپاہیوں کو روس پہنچانے کے لیے درکار تھیں ‘‘ لیکن امریکہ اس کے بر عکس کام کرتے ہوئے دکھائی دے رہا ہے. آخر میں داغ دہلوی کے اس شعر کے ساتھ ہی اپنے اس مضمون کو اختتام پذیر کرنا چاہوں گا کہ
ہوش و حواس و تاب و تواں داغ جا چکے
اب ہم بھی جانے والے ہیں سامان تو گیا
رابطہ 9855259650
[email protected]