یہ سچ ہے کہ نثر نے ہمیشہ نظم کی انگلیاں تھام کر چلنے کا ہنر سیکھا ہے۔شعر وشاعری کا گرتا معیار اکثر بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتا تھا لیکن انگشت شمار با بصیرت،مخلص،متدین شعراء کے اشعار سن کر دل کو قرار آتا کہ دعبل وکمیت وفرزدق کو آئیڈیل بنانے والے ابھی ہیں جو اس راہ میں مکتب ومذہب نیز اہلبیت اطہار علیہم السلام کی خدمت سرانجام دے رہے ہیں ۔انہیں منتخب شعراء کرام کے اشعار دوران مجالس ومحافل اکثر پیژ بھی کرتا رہتا ہوں۔
پوری دنیا میں اپنے تقویٰ وپرہیزگاری نیزاخلاق وکردارکے سبب منفرد شناخت رکھنے والے جناب رضا سرسوی کا فراق یوں تو تمام عشاق کے لئے شاق ہے لیکن ہم جیسے طلاب رضا بھائی کی شفقتیں،محبتیں اور دعائیں تا دم حیات نہیں بھول سکتے۔مرحوم رضا سرسوی جیسا منکسر المزاج،علم دوست،فرض شناس شاک عر صدیوںمیں جنم لیتا ہے۔
۱۹۷۰ء کی دہائی تک معمولی شغل والا انسان اس بام عروج پر پہنچے گا عام انسان نہیں سوچ سکتا تھا۔لیکن مرحوم رضا سرسوی پر سرکار حجت کی خاص عنایتیں تھیں جس کے سبب آپ مقبول خاص وعام ہوئے۔
جامعہ امامیہ تنظیم المکاتب میں دوران تحصیل جب ہم طلاب نے جامعہ میں شام مدحت کے نام سے جشن امام رضائے غریب کا اہتمام کیا تو اس کے دوسرے دور میں ہمارے چنندہ شعراء میں محترم رضا سرسوی ؒ بھی تھے اس وقت سے جو قربت ہوئی تو وہ بڑھتی ہی چلی گئی۔ابھی چند ماہ قبل ہی اکبرپور امبیڈکرنگر کے موضع رام پور منگوراڈیلا میں ایک مجلس عزا سے خطاب کرنے کا موقع ملا ،رضا بھائی سے وہاں میری آخری مفصل ملاقات رہی،پر تپاک استقبال کیا،والہانہ استقبال کے بعد آنکھوں میں اشک سجائے استراحت گاہ میں شہید قاسم سلیمانی کے سلسلہ میں اپنے اشعار سنائے۔
جب بھی لکھنؤ کا سفر کرتے یا ادھر سے گزر ہوتا ضرور فون کرتے اور ناچیز بھی موقع کا فائدہ اٹھا کر رضا بھائی کو ہادی ٹی وی کے اسٹوڈیو میں مدعو کرتا جہاں بارہا آپ نے اپنے اشعار پیش کئے جسے قارئین کرام آج بھی یوٹیوب پر سن سکتے ہیں ۔نیمۂ شعبان کی خصوصی پیشکش’’شوق وصال‘‘ میں آپ نے ترنم میںبھی اپنے اشعار پیش کئے۔
رضا بھائی !آپ حکیم امت جناب مولانا ڈاکٹر سید کلب صادق صاحب قبلہ کی رحلت کے بعد جب ہمارے اسٹوڈیو تشریف لائے تو آپ نے ان کے سلسلہ میں بھی اپنے اشعار ریکارڈ کرائے۔آپ کی وسعت نظری ہم جوانوں کے لئے مشعل راہ قرار پائی۔آپ کی سادگی ہم طلاب کے لئے پیغام عمل۔
رضا سرسوی مرحوم گذشتہ چند ماہ سے علیل تھے لیکن وقفہ وقفہ سے طبیعت خرابی کے باوجود آپ کی زبانی مدحت اہلبیت اطہار علیہم السلام سوشل میڈیا پر نظر سے گزرتے تو تا دیر سنتا رہتا۔لیکن ۔۔۔کسے معلوم تھا کہ ایک شفیق،دردمند،پر خلوص،معاشرہ ساز،علم نواز،پیرو ولایت،حامیٔ مرجعیت شاعر ہمیشہ کے لئے ہم سے اتنی جلدی جدا ہو جائے گا!
میں اپنی جانب سے مرحوم کے پسماندگان سمیت بر صغیر کے تمام شعراء،ادباء اور احباب کی خدمت میں تعزیت وتسلیت پیش کرتے ہوئے رب قدیر کی بارگاہ میں مرحوم کے علو درجات کی دعا کرتا ہوں ۔