صوفی انیس درانی
بھارت بہت جلد ایک مہذب ، سنجیدہ اور شائستہ ملک بننے والاہے۔ جہاں کا ہرشہری دیکھنے میں بقراط لگے گا۔ اس سے بھارت کی عزت میں زبردست اضافہ ہوجائے گا۔آج جس طرح بھارت کاہرشہری بڑی اونچی آواز میں ہنستا نظرآتاہے۔ وہ ہمارے لئے بڑی توہین کا سبب ہے۔ کسی کو یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ سڑک پرچل رہے ہیں یا کسی سنجیدہ محفل میں بیٹھے ہیں اس لیے بلند آواز سے ہنسی قہقہہ لگانا قطعی معیوب نہیں سمجھا جاتابلکہ ستم بالائے ستم یہ کہ اسے زندگی زندہ دلی کا نام دے کر اس کی ترغیب دی جاتی ہے۔ ذرا سنجیدگی کے ساتھ غور کیجئے کبھی ہمارے ہردل عزیز وزیر اعظم مودی جی ،وزیر داخلہ امیت شاہ ،وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ یادو ،وزیر خزانہ بی بی نرملا سیتہ رمن کوآپ نے کسی میٹنگ میں کسی فوٹویا ویڈیو میں ہنستے ہنساتے دیکھا ہے اگرکبھی ایسی ضرورت پڑتی بھی ہے توبہت ہی خفیف سی مسکراہٹ کے ساتھ وہ بھی شہیدوں میں اپنانام لکھوالیتے ہیں۔ اس کمپنی کے اصل مالکان کوآپ دیکھیں گے تووہ ان سے بھی دوچار ہاتھ آگے ہی نظر آئیں گے۔ چچابھاگوت اگربھولے سے کبھی مسکراتے بھی ہیں تو ان کی مسکراہٹ نمالکیر جس کو ان کے لبوں کے درمیان اور بھاری بھرکم مونچھوں کے درمیان باقاعدہ کھوجناپڑتاہے۔ گروگوالکر جی ہوں یا بالاصاحب دیور س کسی ایک تصویرمیں مسکراہٹ کا دور دور تک پتہ نہیں چلتااب ایسے بڑے مہان نیتاؤں کے یگ میں اگربھارت کو مہان اور دانشور بنانے کی کوشش نہ کی جائے تویہ بھارت اور بھارتی سنسکرتی کی بڑھ کر توہین ہوگی۔ آپ رام لیلا دیکھنے تو کبھی نہ کبھی ضرور گئے ہوںگے۔ لنکاکا راجہ راون جس قدر اونچی آواز سے قہقہے لگاتاہے وہ اپنی مثال آپ ہوتے ہیں۔ غالباً ایسی بہت سی دیدہ اور نادیدہ باتوں کے سبب ہی مودی جی نے عوامی مقامات پر ہنسئے قہقہے لگائیے کوقابل دست اندازی جرم قرار دینے کی ٹھان لی ہے اور اس کے آغاز کے لئے انہوں نے مدھیہ پردیش کو چنا ہے۔ جس کے وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ کچھ عرصہ سے اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کوسیاسی طور پر چت کرنے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ مودی جی کی آنکھ کاتاران بن سکیں ۔ یکم جنوری کو کامیڈین منورفاروقی ایک مزاحیہ پروگرام میں حصہ لینے کے لیے مدھیہ پردیش کے مشہور اورتاریخی شہراندور پہنچے اندور میں ان کے ساتھی کامیڈین نلن یادو پہلے سے موجود تھے۔ دونوں کامیڈین اپنی مزاحیہ ایکٹنگ کے لیے مدھیہ پردیش میں مشہور ہیں اور کثیر تعداد میں لوگ ان کے پروگرام دیکھنے جاتے ہیں۔ کیونکہ وہ سماجی برائیوں اورسیاسی سیا ہ کاریوں کو بہت لطیف انداز میں پیش کرتے ہیں۔ ان کے بیشتر پروگراموں میں لوگ تالیاں بجاتے ہنستے ہنستے دہرے ہوجاتے ہیں۔ یکم جنوری کا دن تھا نئے سال کے جشن منانے کے لئے لوگ تفریحی موڈ میں تھے جیسے منور فاروقی اورنلن یادو اسٹیج پرپہنچے پولیس نے انہیں گرفتار کرلیا۔ ان پر ایف آئی آر میں جو الزامات لگائے گئے ہیں ۔ ان میں یکم جنوری کو اندور کے ایک کامیڈی شومیں ہندوجذبات کو مجروح کرنے کے دفعہ لگائی گئی ہے۔ اس بے حد خطرناک جرم کی رپورٹ مقامی ایم ایل اے نالنی سنگھ گور(بھاجپا) کے فرزند ایکلویاگرور نے کرائی تھی جس پر پولیس نے کارروائی کی ۔ بھاجپا کے ایم پی، ایم ایل اے اور ان کے نزدیکی رشتہ داروں کے مذہبی جذبات کو کوئی خفیہ بیماری لاحق ہے۔ جہاں کسی نے بھاجپا ، سنگھ یا بالواسطہ طورپر کسی چھوٹی موٹی مذہبی شخصیت کے حوالے سے کوئی بات کی تو فوراً ہی ان کے مذہبی جذبات کو زبردست چوٹ پہنچ جاتی ہے۔ ہسٹریا کے دورے پڑنے لگتے ہیں۔ مختصر یہ کہ جب تک پولیس ان کے نامزد ملزم کے خلاف بھاری بھرکم ایف آئی آر کرکے انہیں گرفتار نہیں کرلیتی انہیں کسی پل چین نہیں پڑتا۔ کچھ دنوں بعد یہ جنون اوربھی بڑھ سکتاہے۔ جس کا نقطہ عروج یہ ہوگاکہ ہال میں جتنے لوگ پروگرام دیکھنے آئے ہوں گے ان سب کو پولیس معاونت جرم کے الزام میں گرفتار کرے گی۔
منورفاروقی کے ساتھ ایڈون انتھونی پراکھردیاس اور پربام داس کو بھی حراست میں لیا گیاتھا۔ غالباً انہیں ضمانت مل چکی ہے مگر منور فاروقی اور نلن یادو دونوں کی ضمانت کی درخواستوں کے ساتھ قانونی مذاق ابھی تک جاری ہے۔ یکم جنوری کو گرفتاری کے بعد سیشن عدالت گھنے ہی ضمانت کی عرضی لگائی تھی۔ ۵جنوری کوسیشن کورٹ نے ضمانت کی درخواست مسترد کردی۔ منور اورنلن یادو کے وکیلوں نے مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کے جستس روہت آریہ کی یک نفری نیچ نے سماعت سماعت کی۔چونکہ کیس زائرین پولیس نے پیش نہیں کی تھی اس لئے عدالت نے ۵جنوری کی تاریخ آگے بڑھاکر ۲۵جنوری کردی ور معاملہ کے تمام فریقین کو طلب کرکے ان کا موقف جانا مگرضمانت کی درخواست کو منظور نہیں کیا۔ منور فاروقی اور نلن یادو کی ایف آئی آرمیں پولیس نے ضابطہ فوجداری ہندکی جو دفعات لگائی ہیں وہ کچھ اس طرح ہیں۔ دفعہ 29.Aایک سوچا سمجھا شرارت انگیزعمل جس سے کسی متعدد بیماری پھیلنے یا انسانی کے لیے مہلک ثابت ہوگا۔کے علاوہ اور بھی دفعات مثلاً اندیشہ نقص اس 188/298وغیرہ بھی شامل ہیں۔ مدھیہ پردیش کے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل پیوش مترابھارگونے بڑے جوش کے ساتھ اخبارات کے نمائندوں کو بتایا کہ انہوں نے سرکارکی جانب سے ضمانت دئیے جانے کی زبردست مخالفت کی کیونکہ ملزمان کے جرم بہت سنگین ہے ایسے وقت میں انہیں رہا کرنے سے تفتیش پراثر پڑے گا۔ اب اس بارے میں مقدمہ کا سب سے دلچسپ پہلو کوبھی ذراد یکھ لیں۔ سیشن کورٹ میں بھی اور مدھیہ پردیش ہائی کورٹ میں بھی منور فاروقی یانلن یادو نے اور انشمن سریواستو نے باربارکہا کہ یہ ایف آئی آر سراسر ناجائزہے کیونکہ اس پروگرام میں تو منور فاروقی یا نلن یادو نے ایک لفظ بھی نہیں بولاکوئی پروگرام ہی پیش نہیں کیا کیونکہ انھیں توپروگرام کی جگہ مینوکیفے پہنچنے پر ہی گرفتار کرلیا گیاتھا۔ دونوں عدالتوں نے اس اہم سوال کایہی جواب دیا کیونکہ یہی بات زیر تفتیش ہے اس لئے ابھی ضمانت نہیں دی جاسکتی ۔ شکایت کنندہ گﷺرنے عدالت کو بتایا کہ ایسا ہی مقدمہ پریاگ راج الہ آباد میں بھی ملزم کے خلاف درج ہے۔ عدالت نے ضمانت مسترد کرنے کی کاوش میں علم وفضل کے دریا بہادیئے ہیں۔ دس صفحات پرمشتمل ان کے نوٹس میں اندیشہائے دور دراز کی آخری سرحدوں تک جاپہنچے۔ کبھی حکومت کو صلاح کہیں حکومت کی سرزنش اورکہیں کہیں توملزمان کومجرم ہونے کی سرحد پر ہی پہنچانے کی طرف رغبت کا اظہار محسوس ہوتا لیکن کاش معزز عدالت ضمانت ایک معمول ہونا چاہیے اور اس کا مسترد کیا جانا ایک استثنیٰ نچلی سطح کی عدالتیں عام طورپر سپریم کورٹ کے اس قول کو ترجیح نہیں دیتی ہیں مگر پولیس جن سے ان کا روز کا معاملہ ہوتاہے ان کی سفارش کو زیادہ اہمیت دیتی ہیں۔ اس لئے منور فاروقی کواپنی ضمانت کے لئے سپریم کورٹ سے ہی رجو ع کرنا پڑے گا۔ فی الحال وہ جیل میں کامیڈی شوپیش کریں تاکہ وہاں کے مقدرپیشوں کو کچھ خوشگوار محسوس ہوسکے۔
پیش تو ہوگا عدالت میں مقدمہ بیشک
جرم قاتل ہی کے سرہویہ ضروری تونہیں
مگروزیراعظم جی ایک بات کہنا چاہتاہوں وہ یہ کہ جب آپ نے ہرقسم کی کامیڈی طنزومزاح بلکہ کسی طرح بھی ہنسنے پر یادانت دکھانے پر پابندی لگانے کا عندیہ ظاہر کردیا ہے تو آپ کوسب سے پہلی اپنے منتری صاحبان اور مکھیہ منتریوں پر بھی پابندی لگانی پڑے گی کہ وہ ایسے بے تکے بیان نہ دیا کریاں۔ جن سے عوام کو ہنسی آتی ہو۔ ایسی خریدوفروخت نہ کیا کریں کہ بھارتی توکیا غیرممالک کے لوگ بھی ہم کو مفادپرست مطلب پرست کہہ کر ہم پر نہ ہنساکریں۔ ابھی دودن پہلے ہی آپ کے ایک بڑے چہیتے وزیر جن کا تعلق بھونپومنترالیہ سے ہے دہلی میں بھاجپا کے کارکنان سے خطاب کرتے ہوئے پہلے تواس بات کا اقرار کیا کہ وہ بھی چھ دسمبر ۱۹۹۲؛ کو بابری مسجد کی شہادت کے دن وہاں موجودتھے۔ بہت لن ترانیوں کے بعد انہوں نے ایک انتہائی مضحکہ خیزبات کہی کہ دوسرے مذاہب کے لوگ بھی رام مندر کی تعمیرکی حمایت کرتے ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ اب بھگوان رام کا تعلق صرف ایک مذہب یا دھرم تک محدودنہیں رہ گیا ہے بلکہ یہ سارے ملک کے لئے فخر کی بات بن چکاہے۔ مندرتعمیر کے بعد نہ صرف بھارت بلکہ دنیا بھر سے کروڑوں لوگ اس مندر کو دیکھنے آئیں گے اس سے زیادہ مضحکہ خیزبیان اور کیا ہوسکتاہے۔ کہ ملک کے سارے لوگ مندر کی تعمیر کی حمایت کرتے ہیں۔ کیا مسلمانوںنے رام مندر کی تعمیر کی حمایت کردی ہے ۔ بھارت کی ۳۵کرورڑ مسلمانوں نے اپنی زبان کی پاسداری کی ہے اور حسب وعدہ عدالت کے فیصلے کو جوان کے خلاف آیا اسے قبول کرلیا ہے ۔ بابری مسجدکے اس غاصبانہ قبضہ پر صبرکیا ۔ مگراس کا یہ مطلب نہیں ہوا کہ وہ بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر بنانے کی حمایت کرتے ہیں۔ اس لیے بھونپونندی کے اس بیان نے عام بھارتیوں بالخصوص مسلمانوں کے لئے ہنسی کا بہت موقعہ فراہم کردیا۔ آپ کے وزرائے اعلیٰ بھی بھارتیوں کو ہنسنے ہنسانے کے لیے مجبور کردیتے ہیں۔ کرناٹک کے وزیر اعلیٰ یدیرپا جوامیت شاہ کے خرید وفروخت کے فارموؒے اور سودے بازی کے طفیل کانگریس کے چندممبران اسمبلی کی دل برآری کر اکر وزیر اعلی بن گئے تھے انہوں نے ایک ایسا نیا ریکارڈ قائم کیا ہے جس کی مثال ملنی مشکل ہے۔ انہوں نے ۵دن میں چار مرتبہ اپنی کابینہ کے وزیروں کو تبدیل کیا ۔ یدیرپا کی یہ جگ ہنسائی وزیر داخلہ امیت شاہ کی سازشوں کے سبب ہورہی ہے جو وزیر اعلی کواپنی کٹھ پتلی بناکر رکھنا چاہتے ہیں۔
حدتویہ ہے کہ اپنے بل بوتے پر ایٹم بم اور میزائل بنانے والے بھارت کے ایک سرکاری ادارے راشٹریہ کام دھینوآیوگ نے گائے کے گوبر سے ایک ایسی چپ ایجادکرنے کا اعلان کیا جس کے لگانے سے موبائل سیٹ کی تابکاری کا اثرزائل ہوجاتاہے۔ آیوگ کے اس بے بنیاد دعوے کے بعد چھ سو سائنسدانوں نے ایک دستخط شدہ بیان میں اس دعوی کو مضحکہ خیزقراردیا ہے۔ اس بیان میں انہوں نے کہاہے کہ کسی بھی دعویاشہ کے پرکھنے کے کچھ طے شدہ طریقے ہیں آیوگ کے اس دعوے کے ساتھ کسی بھی منظور شدہ طریقہ کار کے پیمانے کو استعمال نہیں کیا گیا ہے اس لیے دعوی سراسر مضحکہ خیزاور شرمندہ کرنے والا ہے۔ اسی طرح جڑی بوٹیوں سے علاج کرنے والے ویدوں کو آپریشن کرنے کی اجازت دینے کے وزارت صحت کے فیصلہ پر بھی دنیا ہنس رہی ہے۔ بھارت کی اس جگ ہنسائی کے خلاف انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن نے سخت رد عمل کا اظہار کیا ہے کیونکہ سرجری طبی تعلیم کا ایک علیحدہ اور خصوصی شعبہ ہے۔ ہر ایم بی ایس ڈاکٹرآپریشن نہیں کرسکتا۔ مگر حکومت چاہتی ہے کہ ہرسیپل کے پیڑکے نیچے بیٹھنے والے ویدوں کو بھی آپریشن کرنے کی اجازت دے کر عوام کی صحت کے ساتھ کھلواڑ کریں سب سے پہلے تو خود وزیر اعظم کو وزیر اعظم ہاؤس میں روزانہ صبح ہونے والی ان کی جانچ کا کام ڈاکڑوں کے بجائے ویدوں سے لینا چاہیے۔
سا لیے مودی وزیراعإ سے دست بستہ گذارش ہے کہ وہ سرکاری پالیسیوں سرکاری اداروں اور اپنے منتری لوگوں پر روک لگائیں تاکہ بھارت کی جنتا کو ہنسنے کے مواقع ہی نہیں دیں۔ ہنسنا منع ہے۔ کاجب ذکر کررہاہوں توبڑی ناانصافی ہوگی اگر کنال کیمرا کاذکر نہ کیا جائے جو اس وقت سپریم کورٹ میں توہین عدلیہ کے ایک مقدمہ میں ملزم بن گئے ہیں۔ کنال کیمرا ایک کامیڈین ہیں گذشتہ دنوں انہوں نے ایک ٹوئٹس میں عدلیہ پرکوئی تبصرہ کیاتھا۔ جس کی پاداش میں میں جسٹس اشوک بھوشن جسٹس ریڈی اورجسٹس اتم آرتہا سے انہیں ایک نوٹس بھیج کر عدالت میں طلب کیا اور ان پر الزام لگایا تھا کہ انہوں نے ملک کی سب سے بڑی عدالت کا مضحکہ اڑایا ہے۔ انہی کے ساتھ کارٹونیٹ رچپتاتنیجہ کو بھی عدالت کے سامنے پیش ہونے کا نوٹس دیا گیا تھا۔ اگریہ حکومت کچھ دن اور قائم رہی توپھر بھارت کاحال کچھ ایساہی ہوجائے گا۔
پہلے آتی تھی حال دل یہ ہنسی
اب کسی ذات پر نہیں آتی
٭٭٭
نوٹ:ایک بارپڑھ لیں مہربانی ہوگی۔