بے باکی کے ساتھ اپنے موقف کو واضح کرنا وقار رضوی کا کمال تھا- Waqar Rizvi was perfect in making his position clear

0
126
Waqar Rizvi was perfect in making his position clear
امام بارگاہ مہدی میںوقار رضوی کی مجلس دسواں میں مولاناسید حیدر کا خطاب
ڈاکٹر ہارون رشید
لکھنو۔اردو ہندی کےممتاز اور معروف روزنامہ اودھ نامہ کے بانی اور سرپرست سید وقار رضوی مہدی ابن سید منتظر مہدی کی مجلس دسواں آج بارگاہ امام مہدی ،کلن لاٹ امین آباد  میں منعقد کی گئی۔جس کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا ،بعدہ شمیم حیدر ،عالم رضوی اورمولانا ظہور الحسین  نے منظوم خراج عقیدت پیش کیا۔مجلس براہ راست اودھ نامہ یو ٹیوب چینل اور حسینی چینل پر بھی نشر کی گئی۔
مجلس کو خطاب کرتے ہوئے مولانا سید حیدر عباس نے فرمایا کہ بعض مجالس میں خطاب بہت مشکل ہوتا ہے ورنہ مجالس کو خطاب کرنا ہمارا افتخار ہے۔ایک ماہ کی کوششوں اورجد و جہد کرنے کے بعد وقار ربھائی نے داعی اجل کو لبیک کو کہا۔ساری دنیا سے ان کے لئے تعزیتی پیغامات اس بات کی دلیل ہیں کہ وقار رضوی کس قدر محبوب شخصیت کا نام ہے۔یہ غم صرف ان کے اہل خانہ اور ان کے متعلقین کا نہیں ہے بلکہ یہ غم ہر اس شخص کا ہے جس کے اندر خدمت خلق کے لئے کچھ کرگذر نے کا جذبہ ہے۔انھوں نے کہا ایک مومن کو ہر وقت یہ خیلا رکھنا چاہئیے کہ ہمیں اللہ کی طرف واپس جانا ہے۔قرآن نے کہا ہے کل نفس ذائقہ الموت۔اللہ تعالی نے کسی مخلوق کو حیات ابدی نہیں دی ہے۔بے شک کسی کا جانا اس کے متعلقین کے لئے بہت تکلیف دہ ہوتا ہے لیکن ایسے حالات میں بھی کفریہ جملے منھ سے نکلنا چاہئیں۔اللہ نے خود کہا ہے کہ صبر کرنے والے پر اللہ کا درود و سلام آتا ہے۔
انھوں نے مجالس کے سلسلہ کے بارے میں کہا یہ مجلسیں متاع نوع بشر ہیں۔یہی تو ایک سہارا ہے بے سہاروں کا۔انھوں نےفرمایا کہ وقار بھائی سے میرا بہت گہرا تعلق رہا ہے۔ہماری ان کی محبتوں کا سلسلہ بہت دور تک رہا ہے۔ انھوں نےمولی علی کے حوالے سے کہا کہ جو لوگ مجلسوں میں آتے ہیں ان میںچار صفتوں میں سے ایک صفت ضرور ہوگی۔
اس کے مزاج میں انصاف و عدل ہوگا
عقیدۂ توحید مضبوط ہوگا
ایک مفید بھای نصیب ہوگا
علما کی مجلس اور ہم نشینی کا شرف ملے گا
مولانا نے “خیر”کی تفسیر اور تعبیر بیان کرتے ہوئے کہا کہ وقار رضوی خیر کے لئے ہر پل آمادہ رہتے تھے۔ پھر فرمایا کہ قرآن کی روسے خیر کے حوالے سے تین طرح کے لوگ ہیں۔ایک وہ لوگ جن پر حق گراں گذرتا ہے،خیر پسند نہیں آتا۔دوسرا وہ جو خیر کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔تیسر قسم ان کی ہے” یصارعون فی الخیرات”معلوم ہو جائے کہ خیر کہاں ہو سکتا ہے۔وہ تلاش کر کے مستحقین تک پہنچتے تھے۔وہی انسان حقیقت میں انسان ہے جو دلوں کو جوڑنے کا کام کرے۔وقار رضوی اس ا نسان کا نام ہے جو تیسر ےطبقے میں آتے ہیں ۔اسی لئے ان کے تعزیتی پیغامات میں بہت سے لوگوں نے انھیں غریب پرور کہا ہے۔انھوں نے کہا کہ وقار رضوی نے اپنی کم عمری میں جتنے کام کر لئے وہ اس بات کا مظہر ہیں کہ ان کےکاموں میں ان کے ساتھ مرضی الہی شامل تھی۔اللہ ہر قدم ان کے ساتھ تھا۔جو کام انھوں نے شروع کئے اور جو منصوبے مستقبل کے لئےانھوں نے بنائےتھے ۔ان کے شروع کئے کام جاری رکھے جانا چاہئیں اور جو منصوبے بنائے ان کو پایۂ تکمیل تک پہونچانے کے لئے کوششیں کی جانا چاہئیں۔انھوں نے کہا وقار رضوی عام طور سے علما سے اختلاف کرتے تھے لیکن تلاش حق کے لئے۔میں نے دیکھا ہے کہ ان کے اندر جستجوئے حق کا جو جذبہ تھا وہ سچا تھا۔انھوں نے اپنے موقف کو بہت بیباکی کے ساتھ واضح کرنا ان کا کمال تھا۔انھوں نے کہا کہ وقار رضوی کو کبھی غصہ نہیں آتا تھا وہ بڑی بڑی باتوں کو مسکرا کر ٹال دیا کرتے تھے یہی وجہ تھی کہ وہ ہر دل عزیز شخصیت بن گئے تھے۔
مولانا نے کہا کہ تین وجہوں سے انسان مریض ہوتا ہے۔یا تو اس کا مرتبہ بلند کیا جا رہا ہے۔یا اللہ تعالی بندے کو متوجہ اور تنبیہ کر رہا ہے کہ ہوش میں آ جاؤ۔یا پھر بندے کے گناہوں کا کفارہ مرض کی صورت میں ادا کرتا ہے۔لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ سے مریض ہونے کی دعا کی جائے۔بلکہ ربان آتنا فی الدنیا حسنہ و فی الآخرۃ حسنہ وقنا عذاب النار۔۔یوں دعا کرنا چاہئے۔انھوں نے رسول کے حوالے سے کہا کہ خدا بخیل نہیں ہے۔توبہ کا مطلب اپنے گال تھپتھپا لینا نہیں ہے۔صدق دل سے گناہوں سے توبہ کی جائے اور آئندہ گناہوں سے بچا جائے ۔
مولانا نے کہا کہ عز ت اللہ کے لئے اس کے رسول کے لئے ہے اور مومنین کے لئے ہے لیکن منافقین کو اس کا علم نہیں ہے۔انھوں نے کہا کہ جو جنگ ہم فلسین اور اسرائیل میں دیکھ رہے ہیں اس سے بھی بھیانک جنگ میڈیا کی جنگ ہے۔ظالم اسرائیل سے لڑنے ہم فلسطین نہیں جا سکتے لیکن اتنا تو کر سکتے ہیں کہ اپنے مراجع کے کہنے سے اسرائیلی پروڈکٹس کا بائیکاٹ کرسکیں۔امام حسین نے کہا کہ میری باتیں تمہار ی سمجھ میں نہیں آئیں گی اس لیے کہ تمہارے شکم میں لقمۂ حرام ہے۔انھوں نے کہا کہ مغربی ثقافت کو نہ اپنایا جائے۔
مولانانے ایک دانشور کے حوالے سے کہا کہ ان شیعوں کو غلامی کی زنجیر مین جکڑا نہیں جا سکتا۔کیوںکہ ان کے پاس دو عقیدے ہیں ایک سرخ ایک سبز۔سرخ یعنی ان کے اندر کربلائ پیغام رگ رگ میں ہے۔سبز یہ کہ انتظار ۔یعنی چاہے جتنا ظلم کر لو لیکن آنے والا وقت ہمارا ہے۔جب حکومت ہماری ہوگی ،نظام ہمار اہوگا۔پھر کیسے غلام بنایا جائے۔جواب آیا کہ ان کی تہذیب پر مغربی ثقافت کو غالب کر دو۔انھوں نے کہا کہ کہ سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ اپنے گناہ کو کمتر سمجھا جائے۔اور گناہ یہ بھی ہے کہ آنے والے وقت کو بہتر بنانے کی کوشش نہ کی جائے۔لہذا دینی معیار اور دینی تعلیمات کو اپنانا ہو گا۔ہم امام حسین کے ماننے والے ہیں ہمیں تحقیر برداشت نہیں ہے۔
مجلس کے آخری حصہ میں انھوں نے کہا کہ چند ماہ قبل والدہ رخصت ہوئیں اور پھر خود وقار رضوی کا جاناایک بڑا غم ہے ان کے اہل خانہ کے لئے بھی۔اور ہم سب کے لئے بھی ۔میں دعا کرتا ہوں کہ ڈاکٹر عمار رضوی کا وہ بیان عملی صورت اختیار کرے جس میں انھوں نے اعلان کیا ہے کہ ان کے نام سے ایک بین الاقوامی سطح کا جرنلزم کا ادارہ قائم کیا جائے گا۔مولانا نے حضرت زینب کے مصائب بیان کرنا شروع کئے تو حاضرین مجلس خود پر قابو نہ رکھ سکے اور ہچکیاں بندھ گئیں۔مولانا نے وقار رضوی کی مغفرت ،اعلائے حق،بیماری سے شفا،ظلم کے خاتمہ،اور شر سے نجات و حفاظت کی دعا کے ساتھ مجلس کا اختتام فرمایا۔

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here