Thursday, April 25, 2024
spot_img
HomeUttar Pradeshاصل لکھنؤ کی حالت خراب ہے : پرمود کرشنم

اصل لکھنؤ کی حالت خراب ہے : پرمود کرشنم

لکھنؤ۔ 24 اپریل۔ لکھنؤ کو لے کر کانگریسی امیدوار آچاریہ پرمود کرشنم نے آج شدید طور سے فکر کا اظہار کیا انہوں نے کہاکہ اصل میں لکھنؤ کی حالت خراب ہے پرانے لکھنؤ کی گلیوں میں ترقی نہیں ہوئی سی ایم بنگلہ، راج بھون، اسمبلی ہائوس، گومتی نگر جیسے علاقوں پر صرف دھیان دیا گیا پرانے لکھنؤ میں بجلی کے تاروں کا جال پھیلا ہوا ہے مندر کے پاس گندگی کا انبار ہے میئر سے لے کر ممبر پارلیمنٹ، ممبر اسمبلی ریاست و مرکز میں حکومت بی جے پی کی ہے وزیر داخلہ کے عہدے پر یہاں کے ممبر پارلیمنٹ ہیں لیکن انہوں نے لکھنؤ کے وی ایکس پر توجہ نہیں دی آج راجدھانی کے ایک ہوٹل میں صحافیوں سے ملاقات کے دوران آچاریہ نے یہ بات کہی۔ راج ناتھ کے سامنے الیکشن لڑنے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ راج ناتھ سنگھ بہت بڑے لیڈر ہیں، ان کا نجی طور سے احترام کرتا ہوں۔ مسئلہ یہ ہے کہ جس یقین کے ساتھ عوام نے انہیں پارلیمنٹ بھیجا تھا وہ ٹوٹ گیا۔ پانچ سال میں انہوں نے پارلیمنٹ میں پانچ بار بھی لکھنؤ کا نام نہیں لیا۔ اگر لکھنؤ کی عوام مجھے منتخب کر پارلیمنٹ بھیجتی ہے تو میں کوئی دن ایسا نہیں ہوگا جب لکھنؤ کا نام نہ لوں۔ آچاریہ نے کہا کہ میں لکھنؤ کی روایات کو ترقی یافتہ بنانا چاہتا ہوں۔ بے روزگار دور کرنا چاہتا ہوں۔ لکھنؤ کی الگ سیاسی پہچان بنانا چاہتا ہوں اور تاریخ اثاثوں کو ترقی کر سیاحت نگری بنانا چاہتا ہوں۔ لکھنؤکی عظمت اور پاکیزگی قائم کرنا چاہتا ہوں۔
آچاریہ کرشنم نے کہا کہ الیکشن کے چلتے لکھنؤ میں گلی گلی جانے کا موقع پہلی بار ملا۔ لکھنؤ میں اصلی لکھنؤ کی حالت بہت خراب ہے۔ گلیاں ٹوٹی ہیں، سیور، سڑکوں پر کھلی نالیاں، مندروں کے آس پاس گندگی اور بدبو کا ڈھیر، ٹریفک مسائل، بجلی کے تاروں کا جال۔ انہوں نے کہا کہ جب میئر، ریاست اور مرکز میں سب جگہ آپ کی حکومت ہے اور مسائل ہیں تو آپ کی نیت میں کھوٹ ہے۔ وزیر داخلہ کے علاقے میں گندگی کے سبب مچھروں کی بھرمار ہے۔ وزیر دفاع کے علاوے میں مچھر زندہ کیسے ہیں۔ ملک کی یکجہتی اور سلامتی پر خطرہ ہے۔ جو کام پاکستان چاہتا ہے وہی کام بی جے پی کے لیڈران کرتے ہیں۔ پاکستان چاہتا ہے کہ ہندوستان کا ہندو مسلمان ایک دوسرے کا دشمن ہوجائے۔ پاکستان جانتا ہے کہ جس دن یہ ہوگیا، آئی ایس آئی کا کام ختم ہوجائے گا۔ بی جے پی کے لیڈران روزانہ الٹے سیدھے بیانات دے کر یہ کام کررہے ہیں۔ اس سے قبل آچاریہ نے کہا کہ سنت ہونا قسمت کا موضوع ہے لیکن خادم ہونا خوش قسمتی کا موضوع ہے۔ میں سنت ہوں، لیکن اب کادم بننا چاہتا ہوں۔ ملک کے ہر شخص کی ذمہ داری ہے کہ اپنے مذہب کی تعمیل کرتے ہوئے ’راشٹر دھرم‘ کا کردار نبھائیں۔ انہوں نے کہا کہ میں ہندو مسلمانوں کے درمیان پل بننا چاہتا ہوں۔ میں پل کا کام کرنا چاہتا ہوں۔ اکھاڑا پریشد کے انہیں سنت نہ ماننے اور بی جے پی کے فرضی سنت ہونے کے الزامات پر انہوں نے کہا کہ ملک کی آدھی سے زیادہ عوام کہہ رہی ہے کہ مودی جی فرضی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں کانگریس کا امیدوار ہوں تو بی جے پی مجھے راکشش کہے گی، اگر بی جے پی کے ٹکٹ الیکشن لڑتا تو میں دیوتا ہوجاتا۔
لکھنؤ سے الیکشن لڑنے کے سوال پر آچاریہ نے کہا کہ لکھنؤ کی پہچان ادب اور گنگا جمنی تہذیب کے شہر کی ہے۔ لکھنؤ بھارتیہ ثقافت کی امانت ہے، جس میں نفرت کے بیج بوئے جارہے ہیں۔ انہوں نے الزام لگایا کہ جب سے ریاست میں یوگی جی کی حکومت آئی ہے اس پہچان میں دراڑ آگئی ہے۔ میں ادب، محبت اور امن کے شہر لکھنؤ کی پہچان کو واپس دلانا چاہتا ہوں۔ اسی لئے الیکشن کا خاص نعرہ ’نفرت ہارے گی- محبت جیتے گی‘ دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر عوام منتخب کر پارلیمنٹ بھیجتی ہے تو سب سے پہلا کام پنڈت اتل بہاری باجپئی کے مجسمے جس طرح گجرات میں سردار پٹیل کا مجسمہ ہے، لگوائوں۔ میرا سوال وزیر داخلہ سے ہے کہ آپ نے سابق وزیراعظم آنجہانی اٹل بہاری کا مجسمہ کیوں نہیں لگوایا۔ پنڈت اتل بہاری اور لکھنؤ کا چولی دامن کا ساتھ ہے، جسے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے کہا کہ جو کام تم نہ کرسکے وہ ہم کریں گے۔ کانگریس اُمیدوار ہونے کے باوجود اعلان کرتا ہوں۔

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular