لکھنؤ:۔رواں سال میںجیسے ہی اتر پردیش اردو اکادمی کے انعامات کا اعلان ہوا، حسب دستور اردو والے ایک دوسرے کو مبارکباد دینے کی رسم ادائیگی میں مشغول ہوگئے اس سے بے فکر کہ اردو اکادمی کے کتنے ایگزیکٹیو ممبروں نے کتنے انعامات آپس میں ہی بانٹ لئے، کتنوں نے اپنی ہی کتابوں کو خود ہی انعام دے ڈالے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ میٹنگ میں مالِ غنیمت بٹ رہا ہے اور ممبر بس اسی پر رسہ کشی کررہے ہیں کہ یہ میرا اور یہ تیرا، یہ تیرے والا کا تو یہ میرے والے کا، اور ایسی نظیر بنانے جارہے ہیں کہ اکادمی کے ممبر بننے پر ایک ایوارڈ تو پکا ہو ہی جائے گا۔
وہ تو بھلا ہو ہندی والوں کا اور خاص کر ہندوستان اخبار کا جس نے اردو اکادمی کے انعامات کی خبر پر خود کو ایوارڈ دیئے جانے پر سوال بھی اُٹھائے اور اسی خبر پر دوسرے دن اردو اکادمی کے انعامات پر پابندی لگا دینے کے ساتھ چیف سکریٹری جتیندر کمار نے اکادمی سے جواب طلب کرلیا۔ جب چاروں طرف تھو تھو ہونے لگی کہ اردو اکادمی کے معزز اراکین نے اپنے کو اتنا گرادیا کہ خود اپنے ہی لئے نہ صرف ایوارڈ کی منظوری دی بلکہ خود ہی ایوارڈ کا اعلان بھی کیا۔ ایوارڈ کیا؟ ایوارڈ کی رقم حاصل کرنے کیلئے ہی یہ پیش رفت کی گئی ہوگی ورنہ بڑے بڑے ایوارڈ تو ان سب کو پہلے ہی مل چکے ہیں، باقی ممبروں کو بھی شرم نہیں آئی کہ اس کا کیا ردّعمل ہوگا۔ کیا انہوں نے یہ سوچ لیا کہ اردو والوں کا ضمیر بالکل ہی مرگیا ہے۔ ان میں سوچنے سمجھنے کی کوئی صلاحیت نہیں رہی، شاید ان کا سوچنا صحیح بھی ہے ۔
کیونکہ انہوں نے گذشتہ سال اس کا تجربہ کیا تھا جب اسی کمیٹی نے نوجوان قلمکار کا ایوارڈ 70 سال کے بوڑھے کو دیا تھا جبکہ اُس وقت بھی ڈاکٹر طارق قمر، ڈاکٹر حمایت جائسی، جیلانی خان، غفران نسیم، ایس این لال جیسے اردو کے صحافی اور بہت سے نوجوان ہندی کے صحافی جو اردو والوں کی خبریں اردو والوں سے اچھی طرح سے نہ صرف شائع کرتے ہیں بلکہ اردو کے فروغ کے لئے کوشاں بھی رہتے ہیں، دوسری طرف پی آر بی ایکٹ میں شاید ڈیسک پر کام کرنے والے کو صحافی کہا ہی نہیں جاتا ہے اور نہ اسے بطور صحافی انفارمیشن ڈپارٹمنٹ صحافی کی منظوری دیتا ہے، صحافی کی ضمن میں تو حسین افسر، عبیداللہ ناصر، عالم نقوی جیسے لوگ آتے ہیں جنہوں نے برسوں فیلڈ میں کام کیا ہے، بابری مسجد کی لائیو رپورٹنگ کی ہے اور اگر ایڈیٹر شپ ہی صحافت ہے تو عالم نقوی ایک ایسا نام ہے
جنہوں نے عزائم سے لے کر، قومی آواز اور پھر ہندوستان کے سب سے بڑے اخبار کے اصل ایڈیشن ممبئی میں انقلاب اور پھر اردو ٹائمز میں اہم عہدوں پر کام کیا اور اکیلے ایسے صحافی ہیں جو آج بھی بغیر ناغہ پابندی سے مختلف اخباروں میں لکھ رہے ہیں لیکن یہ لوگ اپنے لئے ایوارڈ نہ تو خرید سکتے ہیں اور نہ اس کے لئے کوئی جوڑتوڑ کرسکتے ہیں حالانکہ حسین افسر خود بھی اردو اکادمی کی ایگزیکٹیو میں رہ چکے ہیں لیکن آج کے ممبروں کی طرح خود اپنے لئے ایوارڈ لینے کو انہوں نے اردو ادب کی توہین سمجھا اور جس نے ان کے زمانے میں ایسا کرنا چاہا تو اس کا پرزور احتجاج بھی کیا۔ جبکہ کل جب نوجوان 70 سال کے بزرگ کو مانا گیا تو کسی کے کان پر جوں بھی نہیں رینگی تھی۔
دوسری طرف یہ بھی اکثر چہ میگوئیاں ہوتی رہتی ہیں کہ ایوارڈ کا کھیل بالکل کھلا کھیل ہے، پیسے دیجئے اور ایوارڈ لیجئے۔کہتے ہیں کہ اردو اکادمی پر جو دو افراد ایک طویل مدت سے قابض ہیں اگر آپ کے ان سے رواسم ہیں تو کیا چیئرپرسن اور کیا ایگزیکٹیو ممبر؟ سب ن ہی دو کے چکر لگاتے ہیں اور جن کو جن کو ایوارڈ ملے ہیں سب کے کسی نہ کسی طرح ان ہی دونوں سے تار ملتے ہیں۔ کیونکہ اکادمی تو برسوں بغیر چیئرمین کی بھی رہی ہے اور آگے بھی رہے گی لیکن یہ تو یوں ہی قابض رہیں گے۔ اگر یہ آپ پر کرم فرما ہیں تو آپ چاہے جتنے فرضی سیمینار کرلیں اور ان کا پیمنٹ بھی آناً فاناً لے لیں۔ آپ یہیں غیرملکی طلباء کو سیمینار میں بلاکر اسے انٹرنیشنل سیمینار بنا سکتے ہیں۔ آپ کچھ بھی نہ کریں، گھر بیٹھ کر پریس ریلیز بنائیں اور اخباروں کو بھیج دیں۔
اخباروں کو تو بس ٹائپ شدہ پریس ریلیز چاہئے ۔ اسے دکھائیں اور سی اے کا سرٹی فکیٹ جمع کریں اور پیمنٹ لے لیں۔ اس میں کتنی سچائی ہے، کتنی افواہ یہ تو سی بی آئی جانچ سے ہی اجاگر ہوسکتا ہے۔ اگر اردو اکادمی کے ذمہ دار ان اپنے کو صاف شفاف ثابت کرنا چاہتے ہیں تو خود حکومت سے اپیل کریں کہ گذشتہ دس برسوں کی سی بی آئی سے غیرجانبدارانہ جانچ کرلی جائے ورنہ یہ اکادمی یوگی حکومت، جو ریاست میں بدعنوانی مکت حکومت کا دعویٰ کررہی ہے اس پر کلنک بن کر چمکے گی۔ اردو کے واقعی چاہنے والے بھی بہت جلد گورنر اور وزیراعلیٰ کی خدمت میں ایک میمورنڈم پیش کریں گے جس میں مطالبہ کیا جائے گا کہ اردو اکادمی کی اعتمادیت برقرار رکھنے کے لئے فوراً سی بی آئی جانچ کرائی جائے۔
Also read