اتر پردیش: قتل و غارتگری پر سیاسی بازیگری- Uttar Pradesh: Political maneuvering over murder and looting

0
56

Uttar Pradesh: Political maneuvering over murder and looting

ہاتھرس شرمناک واقعہ کے ٹھیک پانچ ماہ بعد قریب کے علی گڑھ میں پھر سے وہی کہانی دوہرائی گئی۔ اکبر آباد کے علاقہ میں ایک 17 سالہ دلت دوشیزہ اپنی بیوہ نانی کے ساتھ رہتی تھی۔ وہ اپنے مویشیوں کی خاطر چارہ لانے کے لیے گیہوں کے کھیت میں گئی تو لوٹ کر نہیں آئی۔ شام میں نانی نے تلاش کیا تو کھیت میں اس کی نیم برہنہ لاش ملی ۔ اس بار یہ فرق ہوا کہ جب پولس لاش کو اٹھانے پہنچی تو گاوں والوں نے اس کی اجازت نہیں دی ۔انتظامیہ نے سختی دکھائی تو پتھراو شروع ہوگیا اور پولس کی گاڑیوں کو آگ لگا دی گئی۔ اس دوران کوتوال پرمیندر سنگھ کا سرپھوٹ گیا۔ اس کے بعد مجبوراً انتظامیہ نے تعزیراتِ ہند کی دفع 376،302 اور پوکسو ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کرکے کھیت مالک سمیت 5 لوگوں کو حراست میں لے کر تفتیش شروع کی تو عوام کا غصہ ٹھنڈا ہوا ۔ گاوں والوں شک ہے قتل سے قبل اس دوشیزہ کی آبرو ریزی کی گئی۔ دلت دوشیزہ پر پھر سے زیادتی تو ہوئی لیکن کم ازکم اس بار پولس کوزور زبردستی کرنے سے بزور قوت روک دیا گیا ۔ علی گڑھ کے اکبر آباد میں جس دن یہ سانحہ رونما ہوا اسی دن ہاتھرس میں امریش نامی ایک شخص کو گورو نامی بدمعاش نے گولی مار کر ہلاک کردیا ۔ امریش کو اس لیےقتل کیا گیا کیونکہ اس نے 16 جولائی 2018 کوگورو شرما کے خلاف اس کی بیٹی کے ساتھ چھیڑ خانی کرنے کا مقدمہ درج کرایا تھا۔ اس معاملےمیں گورو کو جیل بھیج دیا گیا تھا مگر دوہفتے کے بعد وہ ضمانت پر رہا ہوگیا۔ اس کے بعد سے وہ امریش پر مقدمہ واپس لینے کے لیے دباو ڈالنے لگا ۔ واردات والے دن گورو کی بیوی اور امریش کی بیٹی کا مندر میں جھگڑا ہوگیا۔ اس کا انتقام لینے کی خاطر گورو اپنے تین دوستوں کے ساتھ آلو کے کھیت میں پہنچا اور امریش کو اس کی بیٹی و بیوی کے سامنے گولیوں سے بھون دیا۔مقتول کو علاج کے لیے ہاتھرس کے دواخانہ لے جایا گیا جہاں مردہ قرار دے دیا گیا۔ اس قتل و غارتگری کابنیادی سبب بھی خواتین کے ساتھ بدسلوکی ہے۔ اس سےمعلوم ہوتا ہے کہ ہاتھرس معاملے کے عالمی سطح پر اتنے زبردست احتجاج کے باوجود زمینی حقائق نہیں بدلے ۔ اتر پردیش میں جہاں خواتین غیر محفوظ ہیں وہیں والدین کے سر پر بھی عدم تحفظ کی تلوار لٹک رہی ہے۔اس سنگین صورتحال کی ایک وجہ انتظامیہ کی بے حسی اور سیاستدانوں کی غیر ذمہ داری ہے۔ اس مذموم سانحہ کے بعد بھی بی جے پی نے اس کی ذمہ داری لینے کے بجائے اس پر سیاست شروع کردی۔ پارٹی کے صوبائی جنرل سکریٹری اور کنوج کے رکن پارلیمان سبرت پاٹھک نے ٹویٹ میں لکھا :’’لال ٹوپی سے خبردار۔ سماجوادی رہنمانے ایک براہمن لڑکی کے والد کا دست درازی کی مخالفت کے سبب قتل کردیا۔ سماجوادی پارٹی ایسے مجرمین کی حمایت کرتی ہے ۔ جتنا بڑا مجرم ، اتنا بڑا سماجوادی‘‘۔سبرت پاٹھک خود برہمن ہیں اور اس سانحہ سے برہمنوں کو سماجوادی پارٹی کے خلاف بھڑکا رہے ہیں حالانکہ وکاس دوبے انکاونٹر کے بعد اترپردیش کا برہمن یوگی سرکار کو کبھی معاف نہیں کرے گا۔ یہ بات درست ہے کہ مقتول کا تعلق برہمن سماج سے ہے لیکن پاٹھک جی یہ نہیں بتاتے کہ قتل کسی یادو نے نہیں بلکہ گورو شرما نامی برہمن نے کیا ہے۔ اس کا ساتھی روہتاس شرما گرفتار ہوچکا ہے اور نکھل شرما و للت شرما فرار ہیں اور وہ سب بھی برہمن ہیں۔ سبرت پاٹھک کو اس موقع پر گھٹیا سیاست کرنے کے بجائے فراری مجرمین کو گرفتار کروانا چاہیے۔ بعید نہیں کہ کے ساتھ ہو کیونکہ سماجوادی پارٹی کے سابق وزیر جنگل پون پانڈے نے ملزم کی علی گڑھ کے رکن پارلیمان ستیش گوتم کے ساتھ تصویر شائع کرکے اسے پناہ دینے کا الزام لگایا ہے۔ سماجوادی پارٹی کی ترجمان جوہی سنگھ نے گورو شرما کےپارٹی سے تعلق کا انکار کردیا اس کے باوجود پریس کانفرنس کے دوران صحافیوں نے اکھلیش کو اس معاملے میں خوب گھیرا۔ اس کو پہلے تو اکھلیش نے نظر انداز کیا مگریہ پوچھے جانے پر کہ کیا وہ سماجوادی پارٹی کی جانب سے کسان تحریک میں شرکت کرتا رہا ہے آگ بکولہ ہوگئے ۔ انہوں نے کہا ایک لڑکی کا باپ فوت ہوگیا اور تم لوگ ڈرامہ کررہے ہو۔ تم بکاو لوگ ہو اور مجھے پتہ ہے تمہیں اشہا رات کیسے ملتے ہیں؟ اکھلیش نے مشورہ دیاکہ وزیر اعلیٰ سے پوچھیں ، وہ ہاتھرس کی بیٹی کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ کیا آپ نے سنا وہ کس طرح سے رو ہی تھی؟ اترپردیش میں یہ صورتحال ہے اور وزیر اعلیٰ بنگال میں گھوم رہے ہیں۔ سماجوادی پارٹی کا ایک وفد بہت جلد اس لڑکی سے ملاقات کرے گا۔ قومی حقوق انسانی کمیشن کو مراد آباد کی ایک خاتون سے شکایت ملی کہ جب وہ اجتماعی عصمت دری کی رپورٹ درج کرانے کے لیے پولس تھانے گئی تو اس کی ایف آئی آر درج نہیں کی گئی۔ کمیشن نے تحقیقات کے بعد پایا کہ شکایت درست ہےاور اسے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ تقریبا ڈیڑھ ماہ کے بعد عدالت کی مداخلت کے بعد اس معاملہ میں ایف آئی آر درج ہوئی تھی۔ کمیشن کا موقف تھا کہ اس تاخیر کے سبب اہم شواہد ضائع ہوگئے اور متاثرہ کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ اس پر کمیشن نے ریاستی حکومت نے متاثرہ کی مدد کے لئے دو لاکھ روپے کی رقم ادا کرنے کی سفارش کی جسے قبول کرلیا گیا لیکن عمل در آمد نہیں ہوا۔ اس معاملے اصل مسئلہ نقصان بھرپائی کا نہیں بلکہ اس کوتاہی کو انجام دینے والے اہلکاروں کو سزا دینے کا ہے اس پر بھی کمیشن نے احکامات صادر کیے لیکن اگر ان کا نفاذ نہ ہوتو وہ کس کام کے۔ سرکار اگر اپنے خزانے سے اگر ہرجانے کی رقم ادا کر بھی دے تب بھی یہ سلسلہ نہیں رکے گا ۔ اول تو بدنامی کے ڈر سے وطن عزیز میں ایک تہائی سے کم خواتین اپنی شکایت لے کر پولس تھانے جاتی ہیں اور انہیں بھی دھتکار کر بھگا دیا جاتا ہے۔ ان میں سے بہت کم عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتی ہیں اور وہاں سے ایف آئی آر داخل کروانے میں کامیابی کے بعد تاریخ پر تاریخ سے تنگ آکر انسانی حقوق کے کمیشن سے رجوع کرتی ہیں ۔ اس طرح اگر خواتین کو تنگ کیا جائے تو وہ کس طرح اس ظلم سے نجات حاصل کرسکیں گی ۔ جرائم کے اعدادوشمار رکھنے والے ادارے این سی آر بی کے مطابق جہاں ہریانہ میں ایک لاکھ پر 100 سے زیادہ خواتین پر مظالم کی شکایات درج ہوتی ہیں وہیں اترپردیش میں یہ صرف 55 ہے۔ اب اگر پولس تھانے شکایت درج کرنے کی ہی روادار نہ ہو تو ان سے انصاف دلوانے امید کیسے کی جاسکتی ہے؟ قومی انسانی حقوق کمیشن نے اس بار اترپردیش حکومت سے متاثرہ لڑکی کو 2 لاکھ روپے معاوضے کی ادائیگی کا ثبوت مانگاہے۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ مذکورہ سرکارکمیشن سے کیے گئے اپنے وعدے سے بھی مکر گئی۔ کمیشن نے ریاستی سرکار سے کہا ہے کہ وہ مراد آباد اجتماعی عصمت دری معاملہ میں اپنی دیگر سفارشات پر عملدرآمد کی تفصیل چار ہفتوں میں پیش کرے۔ ان میں تمام تھانوں کے اندر خواتین پولیس افسر کو تعیناتی سب سے اہم نکتہ ہے۔ سرکار سے کہا گیا ہے کہ پولس تھانوں کی فہرست پیش کرے کہ جن میں خواتین پولیس آفیسرموجود نہیں ہیں ۔ اس کے علاوہ کمیشن نے اس معاملہ میں مجرموں کے خلاف تادیبی کارروائی کرنے اور ایف آئی آر درج نہ کرنے والے پولیس اہلکاروں کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعہ 166 اے کے تحت رپورٹ درج کرنے کو کہا تھا۔ تاہم ، بعد میں کمیشن کو معلوم ہوا کہ ریاستی حکومت نے اس کی سفارشات کو ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا اور اس حوالے سے کوئی رپورٹ بھیجنے کی زحمت گوارہ نہیں کی ، لہذا پھرسے ریاستی حکومت کو سفارشات کی تعمیل کے بارے میں بتانے کے لیے کہا گا6 ہے۔ اتر پردیش کی یوگی سرکار کو لوجہادکی بڑی فکر ہے کہ کہیں کوئی ہندو لڑکی مسلمان لڑکے سے نکاح کرکے اس کے رشتہ ازدواج نہ قائم کرلے لیکن ان ہندو عورتوں کی مطلق فکر نہیں ہے ۔اترپردیش جوعورتیں ہندو مردوں کی اجتماعی عصمت دری کا شکار ہوجاتی ہیں ان سے یوگی جی کو کوئی ہمدردی نہیں ہے۔ ان ہندو والدین کا بھی یوگی جی کو خیال نہیں آتا جن کی بیٹیوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی جاتی ہے اور مقدمہ واپس لینے کی خاطر انہیں گولیوں سے بھون دیاجاتاہے۔ یوگی جی کے راج میں اجتماعی آبروریزی کا شکار ہونے والی خاتون کی ایف آئی آر درج نہیں ہوپاتی اور اس کے حق میں حقوق انسانی کی سفارشات پر عملدرآمدنہیں ہوتا۔ خواتین کو پولس تھانوں میں تعینات نہیں کیا جاتا ۔ ہاں ن نت نئے قوانین وضع کیے جاتے ہیں اور اخبارات میں انہیں اچھال کر عوام کو بیوقوف بنایا جاتا ہے کوننکہ انہیں پتہ ہے ووٹ تو مذہبی جذبات کے استحصال سے ہی ملتے ہیں ۔
ایسے میں سوال پیدا ہوتا خواتین کی حالتِ زار کے لیے ذمہ دار کون ہے؟

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here