تازہ ترین خبروں اور اردو مضامین کے لئے نیچے دئے گئے لنک پر کلک کر کے واٹس ایپ اور فیس بک پر ہمیں جوائن کریں
https://chat.whatsapp.com/ 9h6eHrmXUAXBjMyW9zQS4B
https://www.facebook.com/
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه ذیل ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
[email protected]
9807694588(موسی رضا)
مضمون نگار: ڈاکٹر محمدارمان
پروفیسر اعجاز علی ارشدشعبہ اردوپٹنہ یونیورسٹی اورسابق وائس چانسلر مولانامظاہر الحق عربی ،فارسی یونیورسٹی پٹنہ ،بہار اردوادب کی ایک اہم شخصیت ہیں۔ا ن پرکچھ بھی لکھنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ۔میںایک گمنام شخص ان کی مایہ نارکتاب ’’بہارکی بہار ‘‘ پرنہ توتبصرہ لکھنے کے لئے اہل ہوں نہ ہی جائزہ لینے کااستحقاق رکھتاہوں ۔ لیکن ان کی کتاب اس قدر اہم ہے کہ کچھ نہ لکھناان کی اس کتاب کی اہمیت کو نظر انداز کرنے کے مترادف ہوگا۔ سچ کہئے توان کی یہ کتاب اردوتحقیقی ادب میںایک گرانقدراضافہ ہے ۔ صوبہ بہارکے ادیبوں،افسانہ نگاروں، مقالہ نگاروں ،ناول نگاروں ، نقادوں اور شعراء حضرات پربہت کم لوگوں نے لکھاہے ۔ پروفیسراعجاز علی ارشد نے اس اہم موضوع پرلکھ کر بہارکے ادباء وشعراء کوزندہ جاوید کردیا ہے۔لیکن یہ کتاب اس سلسلے کی پہلی کڑی ہے ۔ انہوںنے اپنے مقدمہ میں خود لکھاہے :
’’گرچہ بہار کے بعض علاقوں کی اہم شخصیات سے متعلق معلوماتی کتابیں وقفے وقفے سے منظرعام پرآتی رہی ہیں مگربہارکے اردوشعروادب کی ایک مربوط اورمسبوط ادبی تاریخ لکھنے کی ضرورت باقی ہے ۔‘‘آگے لکھتے ہیں :
’’کبھی کبھی میں’’دکن میں اردو‘‘کی ضخامت کودیکھتایاکسی ضرورت سے ’’تذکرہ مسلم شعرائے بہار‘‘ وغیرہ کی ورق گردانی کرتاتوایک احساس نارسائی مجھ پرحاوی ہوجاتا یہاں تک کہ رفتہ رفتہ یہ میراصرف ارادہ نہیںرہاخواب بن گیاکہ بہارکی ایک مبسوط ادبی تاریخ ’’بہار میںاردو‘‘ یا’’دبستان بہار‘‘ کے نام سے لکھی جائے جس کامزاج تنقیدی کم اورسوانحی یاتحقیقی زیادہ ہو۔ ‘‘
مطلب صاف ہے مستقبل قریب میںبھی یہ اس طرح تحقیقی تصنیف بہارکے ادبا ء وشعرا پرلکھیں گے ۔ جیساکہ انہوںنے مقدمہ میںلکھاہے ۔
’’آزادی کے بعدپیداہونے والے قلم کاروں کاتذکرہ دوسری جلدمیں کیاجائے گا۔ اس کتاب میںانہوںنے ان ادباء و شعرا کا تذکرہ کیاہے جوبیسویں صدی کے عظیم آباد پٹنہ میںپیداہوئے ۔ ‘‘
کتاب کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ مصنف نے صوبہ بہار کے سبھی مشہوراورمستندادباء ،نقاد ،شعر وا ناول نگار کامختصر میں سوانح حیات اوران کی تصنیفات کاتذکرہ کیا ہے ۔جومستقبل میں مورخین اورمحققین کے لئے اہم مواد ثابت ہوںگے ۔ ظاہر ہے تحقیق کا کام ویسے ہی آسان کام نہیںہے بلکہ اس میں کافی جانفشانی اورجستجوکرنی پڑتی ہے ۔ جس کااعترف انہوںنے حرف آغاز میںکیاہے ۔
’’کسی کانام چھوٹ جائے کسی کے بارے میں کوئی اہم بات درج نہ ہوسکے یاغلط درج ہوجائے توشکوہ وشکایت کاایک طویل سلسلہ شروع ہوجاتاہے لیکن پیہم درخواستوں کے باوجودمعلومات فراہم کرنے کے لئے دست تعاون بہت کم سامنے آتاہے ۔‘‘
مقدمہ -جلد اول میںبہت ہی فنی طریقہ سے انہوںنے عذرپیش کیاہے ۔
پھربھی میںنے یہ منصوبہ بنایاکہ اگرکوئی قابل ذکر ادبی شخصیت معلومات کی عدم دستیابی یادوسرے اسباب کی بناپر چھوٹ جائے ۔ تواسے دوسری جلدمیں جگہ دینے کی پوری کوشش کی جائے اوراس طرح بیسویں صدی کے حوالے سے عظیم آباد کی ایک بھرپور ادبی تاریخ مرتب ہوسکے ۔
\یہ کتاب جلد دوم ہے ۔جن میں جن اردو ادباء ،نقاد وشعرا ،ناول نگار کانام انہوںنے شامل کیاہے وہ سبھی کسی نہ کسی تعلق سے صوبہ بہارسے ہی تعلق رکھتے ہیں ۔اس طرح صوبہ بہارکی ایک اہم مستندادبی تاریخ مرتب کرنے میں موصوف نے کامیاب حصولیابی درج کی ہے ۔ جن ادبا ،نقاد، افسانہ نگار ، ناول نگار، وشعرا کاانہوںنے تذکرہ کیاہے وہ مندرجہ ذیل ہیں :
(۱)احسن رضوی(۲)اصغر امام فلسفی (۳)افضل عظیم آبادی (۴)اطہر شیر (۵) اکرام شبنم (۶)اقبال حسین (۷)اعجاز شاہین (۸)ارتضیٰ کریم (۹) ابوالکلام عزیزی (۱۰) احسان اشرف (۱۱) اسلم آزاد (۱۲) اسرائیل رضا (۱۳) اسلام عشرت (۱۴) ابھئے کمار بیباک (۱۵) ثر فریدی (۱۶) احمد بدر(۱۷) اختر واصف (۱۸) استاد پٹنوی (۱۹) اشرف جہاں (۲۰) اشرف لٰہی قیصر (۲۱)اظہار خضر(۲۲) ایم عظیم اللہ (۲۳)اعجازعلی ارشد (مصنف ) (۲۴) امتیاز احمد (۲۵) بلبیر سنگھ جین (۲۶) پروفیسر شاہدی (۲۷)پیامی عظیم آبادی (۲۸) پریم کرن (۲۹) پرویز انجم (۳۰)تسنیم کوثر (۳۱)ثاقب عظیم آبادی (۳۲)جمیلہ خدابخش (۳۳)جوہر نظامی (۳۴) جابر حسین (۳۵)جاوید حیات (۳۶) جنون اشرفی (۳۷) حامد عظیم آبادی (۳۸) حامد علی خان (۳۹)خواجہ افضل امام(۴۰)خورشید اکبر (۴۱) خالد عبادی (۴۲)ذکی الحق (۴۳) رامیشور پرساد گلوارا(۴۴)رضوان احمد(۴۵)ریاض عظیم آبادی (۴۶)رحمن شاہی (۴۷) ریحان غنی (۴۸)راشداحمد (۴۹)سید شاہد اقبال (۵۰)سلطان آزاد (۵۱) سید حسین احمد(۵۲)شین مظفرپوری (۵۳)شبیر احمد (۵۴)شمویل احمد (۵۵) شمیم فاروقی (۵۶)شان الرحمن (۵۷)شوکت حیات (۵۸)شمیم قاسمی (۵۹)شہاب ظفر اعظمی (۶۰)صبیح الحق عمادی (۶۱)صابر آروی (۶۲)صفدر امام قادری (۶۳) طلحہ رضوی برق (۶۴)ظفر اوگانوی (۶۵)ظفر صدیقی (۶۶)عبدالمجید شمس (۶۷)عظیم الدین محمود (۶۸)علیم اللہ حالی (۶۹)عبدالخالق (۷۰)عبدالصمد (۷۱)عبید قمر (۷۲)علی امام (۷۳) عالم خورشید (۷۴)عطاعابدی (۷۵)فخرالدین عارفی (۷۶)قتیل داناپوری (۷۷)قیوم خضر (۷۸)قاسم خورشید (۷۹)کلیم الرحمن کاکوی (۸۰) لاڈلے صاحب بیتاب (۸۱) محمود علی خاں صبا(۸۲)مسلم عظیم آبادی (۸۳)محمودہ خاتون (۸۴)مختار الدین آرزو (۸۵) معصوم شرفی اسیر (۸۶)مشتاق احمدنوری (۸۷)منیرسیفی (۸۸) منظر اعجاز (۸۹)محمدذاکرحسین (۹۰) محمدمظاہر الحق (۹۱) محمد کوثر اعظم (۹۲)نسیم مظفر پوری (۹۳)ولی کاکوی (۹۴)وقف عظیم آبادی (۹۵)واحد نظیر (۹۶)یگانہ چنگیزی (۹۷)مناظر احسن گیلانی (۹۸) سید سلیمان ندوی (۹۹) انورعظیم (۱۰۰) رشیدۃ النساء۔
اس طرح موصوف نے صوبہ بہار کے سومصنفین کی سوانح عمری مختصر میں صرف ۲۳۹صفحات کے اندر ان کی تصانیف کی فہرست کے ساتھ بیان کردی ہے جوان کی تحقیقی کاوشوں کواجاگر کرتاہے اور ایک بڑا ادبی کارنامہ ہے ۔ یہ سبھی ادبا وشعر صوبہ بہار کے مستنداور مشہور ادبی شخصیات ہیںلیکن اعجاز علی ارشد کابڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس مختصرتصنیف میںسبھی شخصیات کی زندگی کے حالات بیان کردئیے ہیں ۔ن سبھی ادباوشعرا پہ ان کی تحریرکااحاطہ یاجائزہ اس مختصرمضمون میںمشکل ہے لیکن چند ممتاز ادباء ناقدین ،شعر ا ،افسانہ نویس کاتذکرہ کرناضروری سمجھتاہوں ۔ ان میں ایک پروفیسر ارتضیٰ کریم ہیں جوقومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی کے دائرکٹر رہ چکے ہیں ان کاپیش لفظ بھی اس کتاب میںشامل ہے ۔ دوسرے کتاب کے مصنف پروفیسر اعجاز علی ارشدہیں ۔ جوپٹنہ یونیورسٹی کے شعبہ اردوکے پروفیسر ہیں اوروائس چانسلر بھی رہ چکے ہیں ۔تیسرے پروفیسر جاوید حیات ہیں ۔ جوبی۔این کالج پٹنہ میںصدرشعبہ اردوہیں ۔ چوتھے شہاب ظفر اعظمی ہیں ۔ جوپٹنہ یونیورسٹی کے شعبہ اردومیں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ پانچویں پروفیسر علیم اللہ حالی ہیں جومگدھ یونیورسٹی کے ایم ۔ڈی جین کالج آراہ اورپھرگیاکالج گیا کے شعبہ اردو کے صدر کے عہدہ پرکام کرتے ہوئے سبکدوش ہوئے ۔ چھٹے پروفیسر منظر اعجاز ہیںجومگدھ یونیورسٹی کے اے ۔ین کالج پٹنہ کے شعبہ اردو میں ریڈررہ چکے ہیں ۔
یہ سبھی صوبہ بہار کے اردودب کے درخشندہ ستارہ ہیں اورانہوںنے اردوادب میںاپنی تخلیقاات پیش کرکے گلشن اردوکی آبیاری کی ہے ۔ اپناخون جگرجلایاہے اوراردوادب کوعالمی سطح پررونق بخشی ہے ۔ ان کی سوانح عمری کاتذکرہ اعجازعلی ارشدنے اس طرح کیاہے کہ قارئین ان کے ادبی کارناموں سے بھی واقف ہوجائیں اوران کی سوانح حیات سے بھی متعارف ہوجائیں ۔
توآئیے سب سے پہلے ارتضیٰ کریم کے حالات زندگی جانیںاِن کاپورانام سیدعلی کریم ولدسید شرافت کریم ہے ۔ یہ گیامیںپیدا ہوئے نانیہال دیسنہ بہار شریف ہے ۔ ان کاسلسلہ سید سلیمان ندوی سے ملتاہے ۔ مگدھ یونیورسٹی سے ایم ۔اے کرنے کے بعد دہلی یونیورسٹی سے شعبہ ردوسے ایم۔ فل اورپی۔ایچ ۔ڈی کیا۔ وہاں صدرشعبہ اردوبھی رہے ۔قومی کونسل برائے فروغ اردو (NCPUL)کے ڈائرکٹربھی رہے ۔
پروفیسر اعجازعلی ارشد اس کتاب کے مصنف ہیں ۔ ان کی پیدائش دیوان محلہ پٹنہ سیٹی میں ہوئی ۔ والدکانام پروفیسرمحمدعلی خان ہے ۔ایم ۔ے اردوور پی۔ ایچ۔ڈی۔ شعبہ اردوپٹنہ یونیورسٹی سے کیا۔ بی۔ایڈ اورفارسی میںایم ۔اے مگدھ یونیورسٹی سے کیا۔ پھرشعبہ اردو بی۔این کالج پٹنہ یونیورسٹی میںاسسٹنٹ پروفیسر کے طورپر بحال ہوئے ۔ اس کے بعدپٹنہ یونیورسٹی میںپروفیسر ہوئے ۔ جہاں آپ اسٹوڈنٹس ویلفیئر اور ہومنیٹیز کے ڈین بھی رہے ۔ اس کے بعد پٹنہ یونیورسٹی میںصدرشعبہ اردوبھی رہے ۔ان کابیرون ملک سفربھی ہواجس کی تفصیل کتاب کے صفحہ نمبر52پردی گئی ہے ۔ یہ سب اردو پروگرام میںشرکت کی غرض سے ہوئے ان کے تصنیفات جس کی تفصیل اس کتاب کے صفحہ نمبر 52پردی گئی ہے کودیکھنے سے پتہ چلتاہے کہ یہ اردو ادب کے ماہرقلم کارہیںاوراردوتنقیدنگاری میںانہوںنے اہم کام کیا ہے ۔ ان کواپنے فن پر عبور ہے ۔اوران کی تحریرسے ان کی علم کی پختگی اورقادر الکلامی کاپتہ چلتا ہے ۔ان کی یہ کتاب ان کے فن تحریر اورکامیاب سوانح نگاری کی عمدہ مثال ہے۔
تیسرے ادیب پروفیسر جاوید حیات ہیںجومشہورافسانہ نویس ڈاکٹر احسان احمد تابش کے ممیرے بھائی ہیں۔ ان کا پورانام سید محمدجاوید حیات (قلمی نام جاوید حیات ) ولد سید محمدابوالحیات شیداہے ۔ موضع رجے پورتھانہ کرتھامیںپیداہوئے ۔ان کے دادا سید وجاہت حسین ایک زمیندارگھرانے کے فردتھے ۔ والد ابوالحیات شیدا خود شاعر اورادیب تھے۔ جاوید حیات نے بی ے اورپی۔ایچ ۔ ڈی مگدھ یونیورسٹی سے کیاباڑھ اورہزاری باغ میں پروفیسرکے عہدہ پررہے ۔ اس کے بعد بی ۔ین ۔کالج پٹنہ یونیورسٹی میںصدر شعبہ اردوبن گئے ۔
یہ کلام حیدری کے قائم کردہ کلچرل اکیڈمی کے پروگرام میںشریک ہوتے رہے بعد میںادبی سرگرمیوں سے منسلک ہوگئے ۔ان کا زیادہ ترادبی کام اردوفکشن اورصحافت کی تاریخ وتنقیدسے تعلق رکھتاہے ۔ مبادیات صحافت کے نام سے ایک کتاب 1995 میں منظر عام پر آ چکی ہے ۔
اردوزبان وادب کے حوالے سے جاوید حیات کی دوسری اہم خدمات معیاری درسی کتابوں کی تیاری سے متعلق ہے ۔ انہوںنے بہار ٹکسٹ بک پبلیشنگ کارپوریشن اوربہار ایجوکیشنل پروجیکٹ BEP کے لئے بہت سی کتابیں ترتیب دی ہیں ۔جن میںسے بعض تعلیم بالغان سے تعلق رکھتی ہیں ۔
چوتھے پروفیسر شہاب ظفر اعظمی ہیں ۔ یہ گیا میںپید اہوئے ۔والد کانام عبدالبر اعظمی ہے ۔مگدھ یونیورسٹی سے بی۔اے ۔ آنرز (اردو) کرنے کے بعد جامعہ اسلامیہ دلی سے بی۔ایڈ اورجواہر لال نہرویونیورسٹی سے ایم ۔اے ۔ فرسٹ ڈویژن سے پاس کیا۔ پٹنہ یونیورسٹی میںشعبہ اردو میںاسسٹنٹ پروفیسر ہوئے اب تک یہیں ہیں ۔
شہاب ظفر اعظمی کی دوادبی جہتیں ہیںایک کاتعلق اردوتنقیدسے ہے دوسرے کاصحافت سے ۔ انہوںنے ہندوپاک کے درجنوں سمینار وں میں شرکت کی ہے ۔ان کے چار درجن سے زیادہ تحقیقی وتنقیدی مضامین مختلف سالوں میںشائع ہوچکے ہیں ۔ن کواتر پردیش اوربہارکے اردو اکادمیوں سے انعامات بھی مل چکے ہیں ۔بہاراردو اکادمی سے کلیم الدین احمد ایوارڈ اورعلمی مجلس پٹنہ سے عبدالمغنی ایوارڈ بھی حاصل ہوچکاہے ۔
اب تک ان کی درج ذیل کتابیں چھپ چکی ہیں :
ضیائے اشرفیہ ، اسلام کامعاشر تی نظام ، اردو کے نثری اسالیب ،فرات مطالعہ ،محاسبہ ، اردوناول کے اسالیب ،جہانِ فکشن ۔
پروفیسر علیم اللہ حالی محتاج تعارف نہیں ۔ ان کانام سید علیم اللہ حالی قلمی نام علیم اللہ حالی ؔ ہے والد کانام سید احمد ہے ۔بھاگلپور میں پید اہوئے ۔ بی۔اے ۔آنرز کے بعد پٹنہ یونیورسٹی سے ایم۔ اے اردومیںامیتازی پوزیشن حاصل کی ۔ 1987میں پی۔ایچ ۔ ڈی کی ۔ کچھ دنوں شعبہ اردو ایچ۔ڈی ۔جین۔کالج آرہ پھرشعبہ اردوگیاکالج گیا پھرمگدھ یونیورسٹی میںپروفیسر رہے ۔ فی الحال فخرالدین پلازہ پٹنہ میںمقیم ہیں اورطرح طرح کے علمی اورادبی کاموںمیںمشغول ہیں۔ صحافت سے بھی لگاؤرہاہے ۔ ایک ادبی رسالہ انتخاب کے نام سے شائع کررہے ہیں ۔ایک شاعر کی حیثیت سے وہ ہندوپاک کی ادبی دنیامیں خاصے معروف ہیں۔ ان کے نظموں کامجموعہ ’’سفر جلتے دنوں کا‘‘ ،’’نخل جنوں ‘‘اور ’’لفظ آواز اورصورت گری اہم ناقدوں کی نگاہ میں معتبر رہے ہیں ۔ انہوںنے نظمیں ،غزلیں دونوں کہی ہیں ۔
تنقیدی مضامین کے تین مجموعے احتساب اعتبار ،اور فردوفن منظرعام پرآچکے ہیں۔ ایک غزل کے اشعار ملاحظہ ہوں ؎
گزرا ہر ایک شخص مجھے دیکھتا ہوا
گویا میں آدمی نہ ہوا آئینہ ہوا
اب اپنی رسم وراہ نئے موسموں سے رکھ
وہ سایۂ دار پیڑ خزاں آشنا ہوا
پروفیسر منظراعجاز ویشالی میں پیدا ہوئے ۔ پی۔ایچ۔ ڈی کے بعد مگدھ یونیورسٹی میں پروفیسر ہوئے اب بی۔این ۔کالج پٹنہ کے شعبہ اردو میںریڈرہیں۔ ان کی درج ذیل تصانیف سامنے آچکی ہیں جن میں سے بیشترملک کی مختلف اکادمیوں وراداروں سے انعام یافتہ ہیں ۔ انہوںنے مختلف اصناف سخن پرطبع آزمئی کی ۔ منظراعجاز کی نگارشات پر نظرڈالتے ہوئے یہ احساس ہوتاہے کہ وہ افلاطونی نقطہ نظر کے حامل ہیں ۔
مندجہ بالا ادباء کی سوانح عمری سے پتہ چلتاہے کہ پروفیسر اعجازعلی ارشدنے صوبہ بہار کے غالباً تمام مشہور ادباء ، ناقدین ،شعرء ، افسانہ نویس اورناول نگار کی سوانح عمری بیان کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے ۔ ان کایہ تحقیقی سفر جاری ہے اور مستقبل قریب میں یہ صوبہ بہار کے دیگر ادیب ،ناقدین ،افسانہ نگار، اورشعراء کی سوانح عمری کومنظر عام پرلانے کاکام کریںگے ۔ انشاء اللہ ۔ہمت مرداں مددخدا والا معاملہ ہے ۔
٭٭٭
کاشی ناتھ ٹکاری ہل روڈ ،گیا
رابطہ : 9931441623