اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے- Urdu is a funeral, just come out of Dhoom

0
211

معصوم مرادآبادی
بات2015 کی ہے۔ عام آدمی پارٹی نے اپنی پہلی حکومت تشکیل دینے کے بعد دہلی اردو اکادمی کی نئی گورننگ کونسل بنائی تھی۔ کچھ دن بعد گورننگ کونسل کے ایک نئے ممبراردو اکادمی کے دفتر میں تشریف لائے ۔انھوںنے دریافت کیا کہ’’ یہاں کیاکام ہوتا ہے؟‘‘جب انھیں بتایا گیا کہ یہ اردو اکادمی ہے اور یہاں اردوزبان وادب کی ترویج واشاعت کاکام ہوتا ہے تو انھوں نے دانتوں تلے انگلی دباکر کہا کہ ’’بھائی ہمارا تو منگول پوری میں اسکریپ کا کاروبار ہے۔ کوئی کام ہو تو ہمیں بتانا۔‘‘
یہ واقعہ مجھے اکادمی کے ایک ملازم نے اپنا سر کھجاتے ہوئے سنایا تھا۔گورننگ کونسل کی تشکیل اردو اکادمی کے چیئرمین اور نائب وزیراعلیٰ منیش سسودیا نے کی تھی ۔ انھوں نے اس کمیٹی میں تجربے کے طورپر ایسے لوگوں کو شامل کیا تھا جو اکادمی کو ’ نیارخ‘ دے سکیں۔تب سے اب تک جمنا میں کافی آلودہ پانی بہہ چکا ہے ۔امید تھی کہ دہلی میں عام آدمی پارٹی کی سرکار چلانے والوں نے کچھ تجربہ ضرور حاصل کیا ہوگا، لیکن دہلی اردو اکادمی کی تازہ گورننگ کونسل کے ممبران کی فہرست دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ عام آدمی پارٹی کے لوگوں کے پاس نہ صرف لائق اور پڑھے لکھے لوگوں کی کمی ہے بلکہ وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ کس کام کے لیے کون سا آدمی موزوں ہے ۔بتایا جاتا ہے کہ اردواکادمی کے نئے وائس چیئرمین نہ صرف یہ کہ اردو نہیں جانتے بلکہ ان کی تعلیمی لیاقت بھی واجبی سی ہے۔ اس کے علاوہ جن دیگرلوگوں کو گورننگ کونسل کے ممبر کے طورپر اس میں شامل کیا گیا ہے، ان میں سے دوچار کو چھوڑکر بیشتر لوگ وہ ہیں جنھیں اردو حلقو ںمیں کوئی نہیں جانتا۔ یہی وجہ ہے کہ نئی گورننگ کونسل کی تشکیل پر اردو حلقوںمیں شدید ردعمل سامنے آرہاہے ۔
قابل ذکربات یہ ہے کہ اب تک اس اکادمی کی گورننگ کونسل میں ایسے لوگوں کو نامزد کیا جاتا رہا ہے، جنھوں نے اردو زبان وادب کے میدان میں کچھ نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔لیکن نئی گورننگ کونسل کی 22رکنی فہرست دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اس میں راہ چلتے لوگوں سے ان کا نام پتہ پوچھ کر بہت عجلت میں نئی گورننگ کونسل تشکیل دے دی گئی ہے۔بہت تلاش کرنے کے بعد بھی اس فہرست میں ہمیں ایسا کوئی نام نظر نہیں آیا جوقابل ذکر ہویاجس نے اردو زبان وادب کی کوئی خدمت انجام دی ہو۔ سب سے زیادہ افسوس اس بات پر ہے کہ اس فہرست میں کئی لوگ ایسے شامل ہیں جو اردو کا ایک لفظ بھی نہیں جانتے ۔اکادمی کا وائس چیئرمین ایک سابق میونسپل کونسلر کو بنایا گیا ہے۔ ان کی سب سے بڑی لیاقت یہ ہے کہ وہ کانگریس چھوڑکر عام آدمی پارٹی میں شامل ہوئے ہیں۔اردو زبان وادب سے ان کا دور دور تک بھی کوئی واسطہ نہیں ہے۔ جبکہ اب تک اس اکادمی کا وائس چیئرمین اردو کی کسی جانی مانی شخصیت کو بنا یا جاتا رہا ہے ۔ یہ وہی اکادمی ہے جس کے وائس چیئرمین کے عہدے پرکنور مہندر سنگھ بیدی سحر،غلام ربانی تاباں، پروفیسر قمررئیس ، پروفیسر گوپی چند نارنگ ، پروفیسر اخترالواسع ،م۔ افضل اورپروفیسر شہپررسول جیسے لوگ رہ چکے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنی زندگیاں اردوزبان وادب کی ترویج واشاعت میں صرف کی ہیں اور اردو دنیا میں اپنی شناخت رکھتے ہیں۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عام آدمی پارٹی کے ذمہ دار سیاست کے نئے کھلاڑی ہیں اور بہت سے امور میں ان کی معلومات صفر کے برابرہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 2015میں جب اردو اکادمی کی نئی گورننگ کونسل تشکیل دی گئی تو اس میں بھانت بھانت کے لوگوں کو بھرتی کیا گیاتھا۔ اس وقت بھی اس پرایسی ہی سخت تنقید ہوئی تھی جیسی کہ اس مرتبہ ہورہی ہے ۔ امید تھی کہ حکومت آئندہ اس بات کا خیال رکھے گی کہ ایک ایسے ادارے میں جو اردوزبان کی ترویج واشاعت کے لیے تشکیل دیا گیا ہے ، وہاں ایسے لوگوں کو ہی نامزد کیا جائے جن کاتعلق اردو ادب اور ثقافت سے ہو۔ اکادمی کی نئی گورننگ کونسل کے بارے میں باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ اس کی تشکیل دہلی میں آنے والے کارپوریشن چناؤ کو نظر میں رکھ کر کی گئی ہے اور اس میں ایسے لوگوں کو بھرتی کیا گیا ہے جو کارپوریشن کے الیکشن میں پارٹی کی مدد کریں گے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب عام آدمی پارٹی کی سرکار کا یہ موقف ہے کہ وہ ہر ذمہ دار عہدے پر ’ عام آدمی‘ کو ہی براجمان کرنا چاہتی ہے تو پھر ان ادبی، ثقافتی اور تہذیبی اداروں کی کیا معنویت باقی رہ جائے گی جو زبان وادب کے فروغ کے لیے بنائے گئے ہیں اور جہاں پڑھے لکھے اور لائق لوگوں کی ہی ضرورت ہے۔جس اکادمی کی گورننگ کونسل میںحکیم عبدالحمید،کنورمہندر سنگھ بیدی سحر،پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی، ڈاکٹر خلیق انجم، خواجہ حسن ثانی نظامی، پروفیسر محمدحسن، ڈاکٹر تنویراحمدعلوی، پروفیسر خواجہ احمدفاروقی، بیگم صالحہ عابدحسین، رفعت سروش، پروفیسر شمیم حنفی،ڈاکٹر اسلم پرویز، جوگندر پال،سیدضمیرحسن دہلوی اور پروفیسر عنوان چشتی جیسے علم وادب کے آفتاب وماہتاب ممبر رہ چکے ہیں ، اس میں اب منّے خاں،رخسانہ خان،سلیم چودھری، عین الحق،شبانہ بانو،رخشی خان اور نفیس منصوری وغیرہ وغیرہ کو شامل کیا گیاہے۔
دہلی اردو اکادمی ہندوستان کی تمام اردو کادمیوں میںسب سے نیک نام اکادمی رہی ہے۔اس کا قیام مارچ ۱۹۸۱ میں آنجہانی وزیراعظم اندرا گاندھی کے ایماء پر عمل میں آیا تھا۔اس سے قبل دہلی میں اردو کے فروغ کا کوئی سرکاری ادارہ موجود نہیں تھا۔ 1976 میں اردو دوستوں کی کوششوں سے دہلی انتظامیہ اور دہلی کے محکمہ لسانیات کے تحت ایک اردو صلاح کار کمیٹی ضرورتشکیل دی گئی تھی ۔ وشو بندھو گپتااس کمیٹی کے پہلے صدر بنے ۔ اس کے بعد یہ ذمہ داری خورشیدعالم خاں کے سپرد کی گئی۔ لیکن اس کمیٹی کو کوئی اختیار حاصل نہیں تھا ، اس لیے محبان اردو اس سے مطمئن نہیں تھے۔ دہلی میٹروپولیٹن کونسل اور اردو اخبارات میںبہار اور یوپی کی طرز پر دہلی میں بھی ایک اردو اکادمی قائم کرنے کے مطالبہ نے زور پکڑلیا۔ 21مئی1981 سوسائٹی رجسٹریشن ایکٹ1860کے تحت دہلی اردو اکادمی قیام عمل میں آیا۔ ابتداء میں اکادمی کا سالانہ بجٹ پچاس ہزار روپے تھا۔اس کے بنیادی مقاصد میںدہلی شہر کی ادبی تاریخ کے احوال اور اس کی ثقافتی اور سماجی زندگی کے مختلف پہلوؤں سے متعلق دستیاب تاریخی اور دستاویزی مواد کو مرتب کرکے کتابی صورت میں محفوظ کرنے کی سرگرمی خاص طورپر شامل کی گئی۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ پچھلے تقریباً چالیس برس میں اکادمی نے بنیادی نوعیت کے کام کئے ہیں۔اکادمی کو یہاں تک پہنچانے میں اس کے محنتی عملہ کا بڑا دخل ہے۔یہ ملک کی واحد اکادمی ہے جو اردو تعلیم کے فروغ سے وابستہ ہے۔ اردو خواندگی مراکز کے ذریعہ اس اکادمی نے ہزاروں افراد کو اردوپڑھانے کا کام کیا ہے ۔ تعلیمی مقابلوں کے ذریعے دہلی کے اردو میڈیم اسکولوں کے طلباء کی استعداد کا فروغ بھی ایک اہم کام ہے۔ اس کے علاوہ کتابوں کی اشاعت پر مالی امداد، انعامات اور سالانہ ایوارڈ وں کی تقسیم اور ا ہم سیمیناروں اورمشاعروں کا انعقاد بھی شامل ہے، جس میں یوم جمہوریہ پر ہربرس لال قلعہ میں منعقد ہونے والا مشاعرہ ملک گیر پہچان رکھتا ہے۔اس کے علاوہ اکادمی دو مقبول عام ادبی جریدے بھی شائع کرتی ہے۔جس کا نگراں گورننگ کونسل کا وائس چیئرمین ہوتا ہے۔
ایسے میں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ ان تمام امور سے قطعی نابلد نئے وائس چیئرمین اور ان کے ممبران اکادمی کو کہاں لے جائیں گے؟ ۔ اندیشہ اس بات کا ہے کہ اکادمی کا وہ معیار جو دہلی کی ادبی برادری نے اپنی کوششوں سے بلند کیا ہے ،اچانک زمین پر آجائے گا اور یہاں ایسے ایسے کام ہوںگے کہ اردو والوں کے پاس اپنا سر پیٹنے کے علاوہ کوئی کام نہیں بچے گا۔اس صورتحال پر رئیس امروہوی کی مشہور نظم کا یہ بند یاد آتاہے۔
اردو کے جنازے کی یہ سج دھج ہے نرالی
صف بستہ ہوں مرحومہ کے سب وارث ووالی
آزاد و نذیر و شرر و شبلی و حالی
فریاد یہ سب کے دل مغموم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
[email protected]

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here