9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مند
جبیں نازاں
اکیسویں صدی کے اکیسویں سال کی اکیسویں تاریخ نبیرہ نے نانی کی جگہ لے لی ، اور نانی نواسی بن گئیں ۔آپ نے غلط سمجھا کسی ایپ کے ذریعہ نہیں کہ نبیرہ کی شکل نانی میں تبدیل کی گئی تھی اور نہ نانی کی صورت نواسی جیسی بنائی گئی تھی،
بلکہ ہوا یوں کہ اس صدی کی دوسری دہائی کے اختتام سے قبل ہی نانی کے ذہن سے ساری لوک کہانیاں محو ہوچکی تھیں ۔۔نانی کا دماغ کورا کاغذ یا پھر موبائل کا صاف و شفا ف اسکرین میں تبدیل ہوگیا تھا جسے صاحب موبائل لکھنے پڑھنے دیکھنے یعنی کہ حسب منشااستعمال کیا کرتا ہے ۔۔
نبیرہ نانی کے کورے کاغذ (دماغ) پر کہانی لکھنا چاہتی تھی ۔۔۔ اس نے کہا _
“اکیسویں صدی کی اکیسویں سال کی نواسی پر بہت ذمے داریاں آن پڑی ہے ننا!
سب سے بڑی ذمے داری آپ کو کہانی سنانے کی ہے – اس نے لمبی سانس لیتے ہوئے کہا
“کہانی یوں شروع ہوتی ہے- کہانی کا عنوان مجھے نہیں پتہ”
نبیرہ بولتی ہوئی ننا کے بغل میں آکر بیٹھی
” ہاں ! نناسنیں !”
ننا یو ٹیوب چینل پر کسی مولانا کی تقریر سن رہی تھیں نواسی نے ننا کے ہاتھ سے موبائل لیا پرے رکھتی ہوئی کہا
“ننا!شہزادی جنگل میں تھی یہ آپ کے عہد کا جنگل نہیں ننا !جو آبادی سے دور افتادہ ویران و سنسان مقام پر واقع ہوا کرتا تھا جس میں خود رو پودے اگتے اور پھر ازخودبڑھ کر درخت بن جایا کرتے تھے ۔۔اور اس میں چوپائے رہا کرتے تھے ۔۔۔یہ میرے عہد کا جنگل ہے جو باضابطہ بنایا جاتا ہے کار آمد درخت اگائے جاتے ہیں یہاں چوپائے نہیں ۔بلکہ۔دوپائے دندناتے پھرتے ہیں جو چوپایوں سے کہیں زیادہ خونخوار جانور ہوتے ہیں ”
نانی نے تعجب سے نواسی کو دیکھتی ہوئی گویا ہوئیں ا۔۔
“نبیرہ ! شہزادی کو اس جنگل میں جانے کی کیا ضرورت تھی ۔۔۔؟”
“ہاں ننا! وہی تو میں بھی سوچ رہی ہوں، شہزادی /شہزادے بے وقوف ہوتے ہی ہیں ۔۔”
“شہزادی گر گئی بھی تو تنہا جانے کی کیا ضرورت تھی ؟؟شہزادیوں کے ہمراہ ہمیشہ کینزوں اور نگہبانوں کا جتھہ ہوا کرتا ہے
“ننا !وہ آپ کے عہد کی شہزادی لوک کہانی یا پھر طلسمی داستان کی شہزادیوں کے ساتھ ہوا کرتا تھا ، کہ وہ باڈی گارڈ سوری! معذرت باڈی گارڈ کو اردو میں کیا کہتے ہیں؟ آں آں یاد نہیں آرہا ہے پلیز ہیلپ می ننا ! سوری سوری! پلیز کتنا اچھا لفظ ہے اسے اردو میں ‘ براہ مہربانی”دو لفظ میں ادا کرنا ہوتا ہے ! براہ مہربانی میری مدد ننا! ہاں یاد آیا ننا آپ صرف اردو جانتی ہیں ؟انگریزی جانتی تب میری مدد کرتیں” نگہبان ‘ میں گھری رہتی تھی” لفظ نگہبان اس نے ذرا کھینچ کر مخصوص انداز میں کہا ننا کو اپنے عہد کی فلمی اداکارائیں یاد آگئیں نہ جانے نبیرہ نے دانستہ کسی ادا کارہ کی نقل کی ، (کیونکہ اکثر ننا کے سامنے پرانی فلمی ادا کاراؤں کی نقل یا پرانے فلمی نغمے گنگنا کر کبھی چھیڑا کرتی کبھی ننا کا دل بہلایا کرتی تھی ) یا پھر ۔۔۔ننا سوچ رہی تھیں اداکاراؤں کو یاد کررہی تھیں لیکن انھیں کامیابی نہیں ملی ۔۔ نبیرہ بولے جارہی تھی،
” آج کی شہزادیاں نڈر اور پر اعتماد ہوا کرتی ہیں ہرجگہ آیا جایا کرتی ہیں ”
“ہاں !ہاں ! صحیح کہا ۔۔جانور جب اتنے خونخوار ہوجائیں تو پھر انسان کو نڈر بن جانا چاہئے ”
سادہ لوح نانی نے عقل مند بن کر کہا ۔۔۔
پھر کیا ہوا؟”
نانی نے بھولی نواسی کی طرح سوال کیا۔۔
شہزادی جنگل میں بیٹھی ہمراز کا انتظار کررہی تھی اچانک ایک جن نمودار ہوا ۔۔ اس نے شہزادی کو سراپا منتظر دیکھ کر کہا ۔۔۔کب تک انتظار کروگی؟؟ہمراز کہیں اور جا بسا ۔۔۔لو یہ ڈبیا ۔۔تمھیں اس ڈبیا سے ساری معلومات فراہم ہوجائیں گی ! ہمراز جہاں بھی روپوش ہے تمھیں خضرراہ ‘ اس کا پتا بتادے گا اور تم ہمراز تک پہنچنے میں ایک روز کامیاب ہو جاؤ گی!
اس نے جن کی پیش کش ٹھکرا دی اور آنکھیں بند کرلیں جب اس نے آنکھیں کھولیں تب اس نے دیکھا ہمراز پاس کھڑا ہے ، شہزادی خوش ہوئی کہ ہمراز تاخیر سے ہی سہی لیکن وعدہ نبھا نے میں کامیاب ہوا !مارے خوشی کے شہزادی با ؤلی ہوئی- ہمراز شہزادی کے لیے ایک تحفہ لایا تھا وہ تحفہ ‘جن ‘ کے پیش کردہ تحفے سے سائز میں ذرا بڑا تھا اور اس تحفہ کا کور (غلاف)نہایت ہی خوبصورت کمخواب کے کپڑے کا جس پر جگہ جگہ قیمیتی نقلی اسٹون نہیں ، اصلی پتھر اور سچے موتی ٹانکے گئے تھے
شہزادی یہ تحفہ پاکر نہایت خوش تھی -شہزادی تحفہ کھول کر دیکھنے لگی -ہمراز نے کہا-
“تم دیکھو !میں تمھارے لیے مشروب منگواتا ہوں !
“مشروب نہیں چاکلیٹ منگوادوناں؟؟”
شہزادی نے ٹھنکتے ہوئے کہا ۔
اچھا پھر تو مجھے اسٹیشنری کی دوکان جانا پڑے گا! میں آتا ہوں نصف گھنٹہ میں ۔تم کہیں جانا نہیں ! -”
ہمراز شہزادی کے پہلو سے اٹھا ۔شہزادی کے دائیں رخسار کا بوسہ لیا اور جنگل سے نکل گیا
“توبہ توبہ !ہمراز نے یہ کیا کیا ؟شہزادی کا بوسہ لیا؟”
ہاں ننا !اس نے پیار جتایا برا کیا کیا؟؟”
ننا نبیرہ کی دلیل سن کر آپے سے باہر ہوگئیں
لاج ،شرم غیرت حیا ذرا بھی نہیں ؟ نہایت ڈھٹائی سے کہہ رہی ہو برا کیا کیا؟ برائی اور کسے کہتے ہیں ؟؟”
نبیرہ نے سوچا میری زباں غلط جگہ پھسل گئی یہ وقیانوسی قدامت پسند ننا کو ابھی ہینڈل کرتی ہوں ، وحیدہ رحمان جو پردے پر جلد رنگ کے آستین والے بلاؤز پہن کر آئیڈیل بننے کا سوانگ رچتی تھی یہ سیدھی سادی عقل کی کوری مداح نسل جانتی ہی نہیں کہ یہ فلمی ادا کارائیں پردے کے پیچھے کیا کھیل کھیلتی رہی ہیں اسکاٹ کاؤچ کیا ہوتا ہے ؟؟ننا گر جان جائیں ۔۔۔بتادوں انھیں! نہ بابا ناں ۔۔۔میری کھال ادھیڑ دیں گی
نبیرہ نے سوچا اور مسکراتی ہوئی بولی
“ننا آپ خواہ مخواہ آگ بگولہ ہورہی ہیں یہ کہانی ہے حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ”
نبیرہ کھڑی ہوئی نانی کے دامن سے لپٹتی ہوئی بولی ننا اپنا دامن چھڑاتی ہوئی گویا ہوئیں
“جس عہد کی کہانیوں یا فلموں میں فحاشی اور عریانیت کا بول بالا ہو اس عہد کی معاشرتی زندگی بھی کہانیوں اور فلموں جیسی ہو جایا کرتی ہے -”
“معذرت ننا! اب میں جھوٹ نہیں بول سکتی ۔۔جو سچ تھا کہا آپ کی آئیڈیل اداکارہ( جسے آپ ہیروئن کہا کرتی ہیں)مدھو بالا چیخ چیخ کر کہتی رہی پردہ نہیں جب کوئی خدا سے بندوں سے پردہ کرنا کیا ۔۔
چھپ چھپ کر سلیم سے ملتی تھی جھوٹ بول کر گناہ کرنے سے بہتر کہ سچ بول کر کیا جائے !”
گناہ گناہ ہوتا ہے سچ بول کر کریں یا جھوٹ ۔۔۔۔
جسے تم ‘جھوٹ ‘کہہ رہی ہو وہ جھوٹ نہیں ‘ احساس گناہ’ ہے ۔۔اور جسے ‘سچ’ کا درجہ دے رکھا ہے تم نے وہ’ بے حسی’ہٹ دھرمی ہے دل سے احساس گناہ کا مٹ جانا ہے ۔
جو تائب ہونے کی راہیں مسدود کردیتا ہے ”
اچھا اچھا! میں بڑھتی ہوں کہانی کی طرف ”
نبیرہ پلنگ پر دراز ہوئی ننا مطمئن سی واپس صوفےپر جا بیٹھیں اپنا موبائل اٹھایا ۔نبیرہ نے کہانی شروع کی
یہاں رکی تھی ناں؟ کہ ہمراز نے اتنا کہہ کر نبیرہ نے زباں روک لی
“ہاں شہزادی مسکرائی اور پھر ہمراز کا تحفہ دیکھنے لگی
وہ اس قدر مگن تھی کہ گزرتے ہوئے وقت کا احساس ہی نہیں ہوا ۔جنگل کے نگراں نے آکر اسے باخبر کیا کہ رات کے 12 بج چکے ہیں اب جنگل بند کرنے کا وقت ہوا چاہتا ہے تم اپنے گھر جاؤ !
“جنگل بند بھی ہوتا ہے؟؟”
“ہاں ننا میرے عہد کا جنگل ہے ناں! ”
شہزادی چونک پڑی اور ناقابل یقین صورت حال سے دوچار ہوتے ہوئےکہا-
“لیکن ابھی تو ہمراز نہیں آیا -اس نے کہا تھا کہ نصف گھنٹے میں لوٹ آؤں گا !”
نگراں نے مسکراتے ہوئے کہا_” کہ ہمراز ہوتا تو لوٹ آتا -یہ ہمراز نہیں’
‘ جن ‘تھا جو تمھیں بے وقوف بنا گیا!
شہزادی نگراں کے فقرے بازی پر روہانسہ سی ہوئی ،اٹھی اور جنگل سے نکل گئی!
جنگل کی جگمگ رات مصنوعی قمقموں سے روشنی بانٹ رہی تھی
جنگل ہو یا باغ گھر ہو یا ویرانہ ۔۔۔آج اچھے یا برے سارے کام دن جیسے اجالے میں انجام دیئے جارہے ہیں آپ کے عہد کا ایک فلمی نغمہ ہے جب پیار کیا تو ڈرنا کیا ۔۔
“ہاں ہاں ۔۔۔مجھے یاد نہیں آرہا ہے نبیرہ کہ کس فلم کا نغمہ تھا۔۔!”
“جانے بھی دیں ننا ! مدر انڈیا ،مغل اعظم، پاکیزہ ؟چودھویں کا چاند، میرے محبوب ،ان ہی چار فلموں میں سے کسی ایک فلم کا نغمہ ہوگا!”
نبیرہ کو معلوم تھا کہ یہ کس فلم کا نغمہ ہے لیکن ننا کی یادداشت کا امتحان لے رہی تھی اس نے ان فلموں کا تذکرہ اس لیے کیاکہ ننا کی یہ پسندیدہ فلمیں تھیں شاید ننا کو نام یاد آجائے ننا ذہن پر زور ڈال رہی تھیں یاد کرنے کی کوشش کر رہی تھیں
“ننا! آپ اپنے عہد کی شہزادی کا نام بتانا چاہیں گی؟؟آپ نے اپنی آنکھوں سے کسی شہزادی کو دیکھا تھا ؟؟
شہزادی کے نام پر ننا کی آنکھوں کے سامنے ایک جھماکہ ہوا اور ایک ساتھ کئی چہرے نمودار ہوئے سارے چہرے گڈ مڈ ہوکر ایک چہرے میں تبدیل ہوکر ان کی نظروں کے سامنے رونما ہوا اور وہ تھا انار کلی یعنی کہ مدھو بالا کا چہرہ ۔۔۔
“ہاں ہاں دیکھا ہے ناں !مدھو بالا کو ۔۔۔!”
“ننا !میری نادان سی ننا!اصل شہزادی تو میری ننا ہیں ! ”
نبیرہ نے کہتے ہوئے نانی کے سر پر رکھا ہوا ہلکے سلیٹی رنگ دوپٹا گھونگھٹ کی صورت چہرے کے نیچے تک کھینچ دیا!نانی نواسی کی شرارت پر ہنس دیں پاس میں رکھا ہوا موبائل چارجر نواسی کی جانب پھینک دی ۔۔نواسی پلنگ سے اتری نانی کے گلے سے لپٹتی ہوئی بولی
“ننا! پہلی بات تو یہ کہ انار کلی شہزادی نہیں کنیز تھی دوسری بات یہ کہ آپ کی مدھوبالا شہزادی کیسے ہوسکتی ہے ؟ اجرت لے کر چند گھنٹے کسی کردار کو جی لینا اس کا پیشہ تھا ننا! ”
“نبیرہ ان کی بھی حقیقی زندگی ہوا کرتی ہے حقیقی زندگی کی وہ شہزادی تھی ۔۔ جس طرح ہم اجرت لے کر باقی زندگی گزارتے ہیں ”
آپ یہ کیا کہہ رہی ہیں ننا؟؟ماشاء اللہ!آپ نے شاندار زندگی گزاری ہے، ”
نانی کی آنکھوں کاگوشہ بھیگ گیا !
نواسی حیرت زدہ تھی۔۔ننا کو یہ کیا ہوگیا ؟؟نانی آنسو پیتی ہوئی بولیں
“نبیرہ! ہماری مرضی بس’ مہر’ مقرر کرنے تک طے کی گئی ہے لیکن ملاؤں کے نظام نے یہ مرضی بھی چھین لی ۔کیسی آزادی کہاں کی آزادی ؟؟”
جب تو بڑی ہوجائے گی ازخود سمجھ جائے گی ”
نبیرہ سوچنے لگی مجھے اور بڑا ہونا پڑے گا ؟؟ بچپن سے سنتی آرہی ہوں ۔۔۔اس جملے سے اب مجھے وحشت ہونے لگی ہے ۔۔نہیں سمجھنا مجھے اس آزادی کے مفہوم ۔۔۔۔۔میں اپنا نظام خود بناؤں گی !”
نواسی کو دیکھ کر نانی نے کہا چل چھوڑ ان باتوں کو دل پر نہ لے !اور اپنی کہانی جاری رکھ!
نہیں ننا! دماغ منتشر ہوچکا ہے ، اب کہانی نہیں سنا سکتی۔۔۔۔ جب تک میرا موڈ فریش نہ ہوجائے مطلب کہ طبعیت بحال نہ ہوجائے کہانی نہیں سناؤں گی –
نبیرہ نانی کی گود میں سر رکھ کر سو گئی ننا اس کے سر میں انگلیوں سے کنگھی کرنے لگیں کیسا چڑیوں کا گھونسلہ بنا رکھا ہے سر پر ۔۔کتنے خوبصورت بال تھے ۔۔بالکل اپنی ماں زنیرہ کی طرح اس عمر میں زنیرہ کے کھلے گھنے سیاہ ریشم جیسے ملائم بال کمر سے نیچے۔۔۔ جو دیکھتا فدا ہوجاتا ۔۔لڑکیاں رشک کیا کرتی تھیں ۔۔۔۔۔
نبیرہ لڑکوں جیسے بال کٹوا آئی یہ عذر بیان کرتی ہوئی
اتنا وقت نہیں کہ” لٹ الجھی سلجھا جا میرے بالما ” نغمے گنگنا کر اپنے تین فٹ لمبے بال سلجھاؤں پھر چوٹیابناؤں کمر پر لٹکاؤں اور مٹک مٹک کر چلوں ۔۔”
اس نے “ہمالے کی گود”کی دیہاتی کردار ادا کرنے والی ادا کارا مالاسنہا کی نقل اتاری
ننا ہنس پڑیں تھیں ، وہ حیران رہتیں کہ نبیرہ نہایت عمدگی سے اداکاروں کے مکالمے سے لے کر اداکاری تک فنکارانہ انداز میں نقل کیسے کرلیتی ؟
ننا کو معلوم ہی نہیں تھا کہ نواسی ماس کمیونیکیشن کی طالبہ ہے اور وہ اسی کی تعلیم حاصل کررہی ہے کالج میں ڈرامے میں ہیروئن کا کردار ادا کرتی رہی ہے کئی ایوارڈز مل چکے ہیں لیکن ننا سے چھپا رکھا ہے انھیں بتاتی ہے کہ اسلامی معلومات پر مبنی پروگرام میں اول آنے پر اسے یہ تمام اعزازات ملیں ہیں ۔۔ننا خوشیوں سے نہال ہوجاتی ہیں مزیدفتح و کامیابی کی دعائیں دینے لگتی ہیں
ننا سوچ رہی تھیں
نبیرہ تو ہے نئی نسل کی پروردہ لیکن وہ میرے سامنے پرانی عہد کی فلمیں ، نغموں اور تہذیب کی باتیں کیا کرتی ہے جو خوش آئند بات ہے ورنہ آج کی نسل تو سابقہ تہذیب و ثقافت کو فرسودہ سمجھ کر مسترد کررہی ہے بعض اوقات نانی نبیرہ سے خوش ہی نہیں رہتیں بلکہ فخر کیا کرتی ہیں اپنے رشتے داروں ہمسایوں کے در میان
” جدید نسل سابقہ عہد سے وابستہ ہر ایک شئے رد کررہی ہے ،لیکن میری نواسی ایک روز
جدید اور قدیم کے امتزاج سے ایک متوازن نئی راہ قائم کرے گی دیکھنا!
نانی نے نواسی کے سر کو اپنی گود سے اٹھاکر ہولے سے تکیہ پر رکھا ۔۔اس کی ٹانگیں سیدھی کیں اور خود بھی اس کے بغل میں سیدھی ہوگئیں دیوار کی طرف کروٹ بدلی اور اپنی آنکھیں بند کرلیں
دودن بعد نانی نے نبیرہ کو دیکھا موبائل لیے کسٹم گیم کھیل رہی ہے ۔۔نانی نے کہا
“بیٹا اس شہزادی کا کیا ہوا؟ ؟ ”
آں ہاں ۔۔۔شہزادی ننا ؟؟ ذرا ٹھہریں گیم فائنل کرنے دیں نہیں ایسا کرتی ہوں کھیلتی ہوئی ہی کہانی سناتی ہوں
” ہاں ننا شہزادی جنگل سے نکلتی ہے گھر کی طرف روانہ ہوتی ہے ابھی کچھ دور ہی چلی تھی کہ اچانک راستے میں ایک بھیڑ امڈ آتی ہے عورت مرد بوڑھے بچے سب افرا تفری کے عالم میں چیخ و پکار کررہے تھے ۔۔ادھر ادھر بھاگے جارہے تھے شہزادی ہکا بکا بھیڑ میں خاموش کھڑی تھی ۔۔
اور پھر جب شہزادی کی آنکھ کھلی تو خودکو اسپتال کے بیڈ پر پایا ۔۔۔
نبیرہ کہتی ہوئی بیچ میں کھیل روک دیا اپنے ساتھی سے کہا ۔۔اسٹاپ کرو کھیل !ارجنٹ کال آئی ہے میں جارہی ہوں ۔۔۔!
پھر یہ ہوا ننا!شہزادی یاد داشت گنوابیٹھی ۔۔ڈاکٹر نےمعائنہ کے بعد شہزادی کے والدین کو بتایا گھبرانے کی کوئی بات نہیں دراصل نا پختہ ذہن اور کچی عمر کے ساتھاکثر ایسا ہوتا ہے جب خلاف توقع حالات سے سابقہ پڑتا ہے ان کی یا د داشت انھیں دغا دے جاتی ہے چونکہ ان کا ذہن الجھ جاتا ہے- رفتہ رفتہ جب حالات معمول پر آتے ہیں تو ان کی یاد داشت واپس آجاتی ہے ”
چند مہینوں بعداس کی یاد داشت واپس ہوئی تو اس نے پہلا جملہ بولا
“میری جادو کی ڈبیا کہاں ہے؟؟”
شہزادی کی ماں نے کہا
” جو کھو گیا اس کا غم نہ کر!”
زندگی خود جادو کی ڈبیا ہے ۔۔اسے کھل کر جیو !
شہزادی کے باپ کے کانوں یہ خبر پہنچی اس نے ایک جادو گر کی مدد سے جادو کی ڈبیا حاصل کی اور بیٹی کے حوالے کردی!
شہزادی نہایت مسرور تھی ۔۔اس نے اس ڈبیا کو اپنی آنکھوں سے لگایا ۔۔اور پھر ڈبیا کی جادو گری سے محظوظ ہونے کا کھیل شروع ہوا ۔۔۔۔
جب یہ ڈبیا کھلتی آن واحد میں جہاں چاہتی وہاں پہنچ جاتی ابھی انگلینڈ میں ہے تو چند لمحوں بعد امریکہ تو کبھی افریقہ کے دور دراز کسی گاؤں میں
چند ساعتوں میں ہندستان کے شہر کشمیر کی گلمرگ وادی میں کبھی ایفل ٹاور کے سامنے کھڑی ہے تو کبھی بکنگھم میں ۔۔۔
شہزادی اور جادو کی ڈبیا کا تعلق گل و بو ، جسم اور روح کی مانند سا ہوگیا ۔۔۔وہ دنیا و مافیہا سے بے خبر گردش و پیش سے بے نیاز جادو کی دنیا میں کھو گئی ۔۔۔
جادوئی دنیا نے حقیقی دنیا کی جگہ لے لی حقیقی رشتوں سے بہتر اسے جادوئی رشتے لگنے لگے۔وہ اس لیے کہ یہاں اپنی پسند کے رشتے بنانے کی آسانی تھی جب جس سے تعلق میں ذرا بد مزگی پیدا ہونے کے آثار نمودار ہونے لگتے یا کسی تعلق سے ذرا خطرہ محسوس ہوتا اس تعلق کو فورا سے پیشتر ختم کرلینے کی سہولت مہیا تھی جبکہ حقیقی دنیا میں خون کے رشتے ختم کرنا چاہو بھی تو برقرار رہتے ہیں اور دل کے رشتے تو ناسور بن جاتے ہیں ۔۔ گھر کے بنے ہوئے کھانوں سے لذیذ جادوئی خوراک لگنے لگی گھر میں جو پکا ہوتا کھانا پڑتا تھا ناں؟ اور یہاں تو جب جو خواہش ہوئی جادو کی ڈبیہ کھولی خواہش کا اظہارکیا چند لمحے میں کھانا حاضر ۔۔۔۔
ایک شام شہزادی شالیمار باغ سے واپس لوٹ رہی تھی کہ اچانک اس کی نظروں کے سامنے ہولناک منظر رونما ہوا ۔۔۔۔
چاروں طرف آگ کا لپکتا شعلہ اٹھتا دھواں ۔۔۔یہ نہ جانے کون سے بستی تھی جو آگ و شعلہ کی لپیٹ میں تھی ۔۔عورت و مرد بوڑھے بچوں کی چیخ و پکار ۔۔اٹھا پٹک کی بے ہنگم آواز ۔۔۔۔۔
شہزادی آواز کو سمجھنے کی کوشش کررہی تھی ، لیکن اسے سمجھ نہ آئی ، اور نہ معاملات کے اسباب و علل سمجھ پائی
یہ بھیڑ کے اندر داخل ہوئی ۔دیکھا سب کے ہاتھوں اس کے جیسی جادو کی ڈبیا ہے اور سب شکوہ سنج ہیں ، سب کاشکوہ ایک تھا ۔۔جادوئی دنیا بسانے والے نے ان کے ساتھ نہایت خطرناک کھیل رچا!
ان سے حقیقی دنیا چھین کر مصنوعی جادوئی جال میں الجھا دیا ۔۔۔
انھیں تلاش تھی سامری جادو گر کی ۔۔اور حضرت موسیٰ کی ۔۔۔۔
سب نے مل کر تلاش شروع کی سامری مل گیا ۔۔۔فرعون خوش تھا
لیکن کسی کو موسیٰ علیہ السلام نہ مل سکے ۔۔۔۔
لہذا شہزادی نے سوچا یہاں تو کوئی موسیٰ ہے اور نہ شہزادی
اس نے جادو کی ڈبیا کھولی اور سوچا کاش میں جادو کی ڈبیا ہوتی
اور سب کے ہاتھوں میں اپنی جادو گری دکھا رہی ہوتی ۔۔۔
تب ہی دور کھڑا ایک سامری نے واچ چپ (watch chip) کی مدد سے شہزادی کی خواہش جان لی کئی کیلو میٹر دور کھڑے رہ کر ہی شہزادی کے وجود پر تین رنگوں پر مشتمل ایک برقی روشنی منعکس کی ، چند لمحوں میں شہزادی جادو کی ڈبیا میں تحلیل ہو گئی۔۔
اور پھر صارف کے ہاتھوں کھلونا بن گئی ۔۔۔
“شہزادی کا یہ حشر ۔۔؟عجیب بے سروپا کہانی سنائی تم نے ؟؟
“ننا!۔۔یہ کہانی نہیں ہے ۔۔!”
“تو پھر کیا ہے۔۔؟”
“کاش یہ کہانی ہوتی !”
“مطلب ؟”
ننا کی آنکھیں حیرت اور انجانے خوف سے پھیل گئیں انھوں نے نواسی کو سینے سے لگاتے ہوئے کہا !
“تم شہزادی مت بننا !میری گڑیا!”
نبیرہ ننا کے سینے سے چمٹتی ہوئی اپنا چہرہ نانی کے دوپٹے سے چھپاتی ہوئی ایک آواز نکالی !
‘اونھ
جو نبیرہ کی بے بسی ظاہر کررہی تھی!
رمیش پارک لکشمی نگر ،نئی دہلی
ضضضض