منفرد مزاح نگار ڈاکٹر عابد معز کالم نگار کی حیثیت سے

0
76

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


حیدر آباد سے تعلق رکھنے والے طنز و ظرافت نگار ڈاکٹر عابد معز کی ادبی شناخت کئی حیثیت سے مسلم ہے ، کہ وہ ایک طرف جہاں معزز پیشہ ور طبیب ہونے کے تعلق سے انسانی صحت کی بازیابی و استحکام کے لیے اردو میں طب و غذائیت کے عنوان سے کئی کتابیں لکھ کر منظر عام پر لاچکے ہیں ، جن میں ’’ذیابیطس کے ساتھ ساتھ‘‘ چکنائی اور ہماری صحت‘‘ کولیسٹرال کم کیجیے‘‘حج و عمرہ اور ہماری صحت‘‘ اور ’’پکوان کا تیل ‘‘ وغیرہ کئی کتابیں شامل ہیں ، ان میں سائنس اور جدید طب سے متعلق بیش بہا معلومات درج کی گئی ہیں ۔ دوسری جانب انھیں اردو ادب سے بے انتہا محبت ہے ، جب انسان قلم وقرطاس سے محبت کرنے لگتا ہے تو وہ اولا شوق اور عادت کے طور پر لکھتا ہے ، پھر وہی عادت عبادت بن کر قلم کار کے رگ و ریشے میں سماجاتی ہے اور وہ للہ فی اللہ لکھنے لگتا ہے ۔
چنانچہ اردو ادب کے موضوع پر انھوں نے ’’اردو ہے جس کا نام ‘‘ لکھ کر اردو سے اپنی بے پایاں محبت کا ثبوت پیش کیا ، ڈاکٹر عابد معز صاحب زندہ دل اور شگفتہ طبیعت کے مالک ہیں ، ان کا ملاقاتی اس بات کا فرحت بخش احساس لے کر لوٹتا ہے کہ ’’بہت جی خوش ہوا حالی سے مل کر ‘‘ مگر ان کے مزاح میں مذاق اڑانے ، تمسخر کرنے ، تحقیری رویہ اپنانے اور تکبر کے اظہار کا کوئی شائبہ نہیں ہوتا ، وہ دوسرو ںکی بات ہمہ تن گوش ہوکر سنتے ہیں ، اور پھر مکمل ڈاکٹر ہونے کی حیثیت سے جس طرح علاج کرتے ہیں اسی کے مثل مخاطب کے غمہائے روز گا ر کا علاج کرکے خوش کردیتے ہیں ۔ وہ ’’دل بدست آور کہ حج اکبر است‘‘ کی طرح دل خوش کرکے دونوں ہاتھوں سے نیکیاں بٹورتے ہیں ۔ اسی کے ساتھ ڈاکٹر معز صاحب کو طنز و ظرافت سے خاصی دلچسپی رہی ہے ، اور مزاج میں شگفتگی کی بنا پر انھوں نے مزاح کے موضوع پر اپنا قلم اٹھایا تو پھر پیچھے مڑکر نہیں دیکھا اور متواتر لکھتے چلے گئے ۔ چنانچہ کالم نگاری شروع کرنے سے پہلے ہی اس موضوع پر ان کی کئی کتابیں منظر عام پر آچکی تھیں ، جن میں ان کی پہلی کتاب ’’واہ حیدر آباد‘‘ ۱۹۹۴ء میں شائع ہوئی ۔ جب کہ ان کے لکھنے کی ابتدا شگوفہ کے ذریعے ۱۹۸۱ء سے ہوچکی تھی ۔پھر ۲۰۱۱ء میں ان کے شگفتہ افسانوں کا مجموعہ ’’ عرض کیا ہے ‘‘ شائع ہوا ۔ پھر اسی موضوع پر دوسرا مجموعہ ’’ یہ نہ تھی ہماری قسمت‘‘ بھی شائع ہوا ۔ اس کے بعد ۲۰۱۳ء میں ان کے انشائیوں کا مجموعہ ’’ فارغ البال‘‘ کی اشاعت عمل میں آئی ۔
اردو کے ممتاز مزاح نگار مجتبیٰ حسین مرحوم نے لکھا ہے، جس کا خلاصہ میرے الفاظ میںیوں ہے ’’ اخبار میں کچھ اس طرح کی خبریں شائع ہوتی ہیں جن کو پڑھ کر قاری کا خون خشک ہوجاتا ہے‘‘ شاید یہی وجہ ہو کہ اس کی تلافی کے لیے اب اکثر اخباروں میں فکاہیہ کالم پابندی سے شائع کیا جانے لگا ہے ، کہ قاری کہیں مایوس ہوکر اخبار پڑھنا ہی بند نہ کردے ۔ ایک ہفتہ کے حساب سے اخبارات میں کئی کالم روز بروز شائع کیے جاتے ہیں ، اور اخبارکے ہر قسم کے قارئین کی دلچسپی کا سامان فراہم کرنے اور تفنن طبع کے واسطے فلم ، ادب ، ظرافت ، خواتین ، اطفال ، سیاسی میز ، انٹرویو ، کھیل کود ، مستقل ادارتی کالمز ، معمے ، سوال و جواب ، اور مراسلے وغیرہ شائع کیے جاتے ہیں ۔
ڈاکٹر عابد معز صاحب چوں کہ طب کے معزز پیشے سے وابستہ ہیں ، اس لیے طب و صحت پر ان کی کئی ایک مفید کتابیں منظر عام پر آئیں ، مگر ہمیں بحث ان کی کالم نگاری سے ہے ، بالا میں یہ بات آچکی ہے کہ ان کی کئی کتابیں طنز و ظرافت پر بھی شائع ہوچکی ہیں ، لیکن باقاعدہ کالم نگاری کی ابتدا انھوں نے سعودی عربیہ جانے کے بعد کی ، لکھنے پڑھنے سے تعلق تو انھیں پہلے سے تھا ، وہاں یہ کب اور کیسے پہنچے ؟ اس بارے میں وہ لکھتے ہیں ’’ ۱۹۸۷ء میں میرا تقرر سعودی عرب کی وزارت صحت میں طبیب اختصائی تغذیہ کی حیثیت سے ہوا ، اور میں سعودی عرب چلاگیا ، میں ریاض سعودی عرب میں کچھ کم ربع صدی مقیم رہا ، یوں میری ادبی زندگی کا تقریبا —-وقت اردو کی ایک نئی بستی سعودی عرب میں گزرا۔ سعودی عرب کے شہر جدہ سے جب سنہ ۱۹۹۹ء میں عرب دنیا کے پہلے ہفت روزہ ’’اردو میگزین‘‘ کا آغاز کیا گیا تو ایک صفحہ میرے لیے مختص ہوا ، میں اس صفحہ پر فکاہیہ کالم تحریر کرنے لگا ، اردو میگزین کے جملہ ۵۵۵؍شمارے شائع ہوئے اور دس برس سے زیادہ عرصہ تک چھپنے کے بعد ۳۰؍ اکتوبر میں اردو میگزین بند ہوا ۔ اس طرح میری کالم نگاری بھی موقوف ہوگئی ‘‘۔ پھر آگے چل کر لکھتے ہیں ’’ کالموں کے چار مجموعے ’’ بات سے بات‘‘ اتنی سی بات‘‘ اور وہاں کی بات‘‘ بھی شائع ہوئے ، اس طرح اب تک طنز و مزاح کی میری نو کتابیںمنظر عام پر آئیں ، صحت وطب اور تغذیہ کے میدان میں اب تک میری گیارہ کتابیں اور دس کتابچے شائع ہوچکے ہیں ‘‘ ۔پیش لفظ آئی گئی بات ۔ ص ۱۰۔
ایسا نہیں ہے کہ انھوں نے کالم نگاری صرف ’’اردو میگزین‘‘ کے لیے کی ، بلکہ حیدر آباد کے مشہور اخبار ’’اعتماد‘‘ کے لیے بھی فرمائش پر سعودی عرب میں قیام کے دوران شروع کی ۔ وہ لکھتے ہیں ’’جناب احمد الدین اویسی نے سنہ ۲۰۰۶ء کے اوائل میں اس خواہش کا اظہار کیا کہ میں اپنے کالموں کو روزنامہ اعتماد حیدر آباد میں چھپنے کے لیے دوں ، موصوف کی فرمائش کے جواب میں میں نے اعتماد کے لیے الگ سے کالم لکھنے کا ارادہ ظاہر کیا، اس خیال کو احمد الدین اویسی نے سراہا اور پسند کیا ، یوں ہر دوشنبہ کو روزنامہ اعتماد کے ادبی سپلیمنٹ ’’اوراق ادب‘‘ میں میرا کالم شائع ہونے لگا ، تقریبا ڈھائی برس چھپتا رہا جب شاید جنوری ۲۰۰۸ء میں چار سے صرف ایک صفحہ کردیا گیا تو جگہ کی تنگی کے سبب میرا یہ کالم ’’ (پھر چھڑی بات)‘‘ بند ہوا ‘‘ ۔ پھر چھڑی بات ، ص ۹۔
ڈاکٹر معز صاحب کو اردو ادب کی صنف طنز و ظرافت سے بے انتہا لگاؤ اور قلبی تعلق ہے ، اس صنف کے ذریعے وہ معاشرے میں پھیلی ہوئی انارکی اور برائیوں کی جانب ایسے انداز میں طنز کرتے ہیں جس میں مزاح کی چاشنی کی آمیزش ہوا کرتی ہے ، اس کی وجہ سے کڑوی بات سن کر بھی انسان برافروختہ ہونے کے بجائے اس کی اصلاح کی فکر میں محو ہوجاتا ہے ، اس طرح کے اقدام سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ سانپ بھی مرجاتا ہے اور لاٹھی بھی سلامت رہ جاتی ہے ۔
حیرت ہوتی ہے کہ ڈاکٹر صاحب اپنے پیشے کے اعتبار سے بے حد مشغول ہونے کے باوجود اتنے مضامین کس طرح سپرد قلم کرلیتے ہیں ؟ اور کس طرح طبابت و حکمت سے یکسو ہوکر ادب کی خدمت میں مصروف ہوجاتے ہیں ، اسی کے ساتھ مختلف اخبارات و رسائل میں سائنسی مضامین اور طب و صحت و تغذیہ کے موضوع پر لکھنے کے علاوہ طنز و مزاح کے لیے کیسے وقت نکال لیتے ہیں ؟ اردو ادب ان کی شناخت بلکہ جان ہے ، کالم نگاری ان کی پہچان ، اور طنز و ظرافت تو ان کا نصب العین و مقصود ہے ۔میں جہاں تک سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب کو جب بھی مطب سے فرصت ملتی ہوگی ، وہ اپنے مطلب میں مشغول ہوجاتے ہوں گے اور قلم کو حرکت دے کر اپنے اندر طمانینت و انبساط محسوس کرتے ہوں گے ۔
ان کی کالم نگاری کی خوبیوں کا علم تو ان کے کالموں کے پانچوں مجموعوں کے مطالعے کے بعد ہوتا ہے، اب تک جنھوں نے اس کی قراء ت کی ہے اور اپنا تاثر ظاہر کیا ہے ہم یہاں ان میں سے صرف ایک تاثر نقل کررہے ہیں : ڈاکٹر معز کی کتاب ’’وہاں کی بات‘‘ میں واحد نظام آبادی نے ان کی کالم نگاری سے متعلق بڑے پتے کی بات تحریر کی ہے ’’ عابد معز کے تحریر کردہ کالموں میں لفظیات ، تعبیرات ، محاورات ، تراکیب، تشبیہات واستعارات ، جامعیت ،ربط، تسلسل اور موزوں طرز نگارش جیسی خوبیاں ملتی ہیں ، ان میں موقع ومحل کے اعتبار سے بات سے بات پیدا ہوتی ہے اور درمیان میں حالات ،واقعات اور مختلف مسائل کا کچھ اس انداز میں بیان ملتا ہے کہ جس سے قاری کو وہ باندھے رہتے ہیں ، وہ آخر آخر کے فقرے اور جملے میں ایک ایسی بات کہہ جاتے ہیں جو ضرور بالضرور قاری کو اصلاحی نقطۂ نظر کے ساتھ سوچنے پر مجبور کردیتی ہے ‘‘۔
عابد صاحب کے پانچوں مجموعوں کے نام کے آخر میں ’’بات‘‘ کی ردیف ہے ، جس طرح فکر تونسوی نے اپنا فکاہیہ کالم ’’ پیاز کے چھلکے‘‘ رکھا تھا ، اور ہر چھلکے کے نیچے ایک چھلکا ردیف کی صورت میں نمودار ہوتا تھا ، اسی طرح عابد صاحب نے چھلکے پر چھلکے کی طرح سے بات سے بات پیدا کی ہے اور ہرہر بات سے کوئی نہ کوئی اصلاحی نکتہ اخذ کیا ہے ، حالاں کہ کام سے کام بنتا ہے ، مگر ڈاکٹر معز صاحب نے بات سے بات بنانے کی ہمت کی ہے ، اور ہر بات ؛ اگر چہ وہ اپنے موضوع کے اعتبار سے بے سلیقہ تھی مگر معز صاحب نے عابدانہ انداز اختیار کرتے ہوئے اسے اتنے سلیقے سے پیش کردی ہے کہ وہی بے سلیقہ بات ’’باعث عزت‘‘ بن گئی ، اور بگڑتا کام بن گیا ۔
ہر ہفتہ کسی مؤقر اخبار کے لیے کوئی نئی بات لکھنا ؛ جس میں کوئی پتے کی بات کہی گئی ہو ، ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی ، ہر باتونی شخص سے یہ کام نہیں ہوسکتا ، کیوں کہ ایسے دیار میں جہاں سیاست کو موضوع بناکر کسی سیاسی شخصیت پر کچھ طنز و تعریض کے فقرے کس دیے جائیں ، کسی لیڈر کی ہنسی اڑادی جائے ، بلکہ دوسرے ممالک کے سربراہ پر انگلی اٹھادی جائے ، ایک ناقابل معافی جرم تصور کیا جاتا ہے ۔ جب کہ ہندوستان کے اخبارات میں عموما فکاہیہ کالم لکھنے والے حضرات انھی موضوعات کو اختیار کرتے ہیں جو گذشتہ ہفتہ میں موضو ع کے اعتبار سے گرم رہا ہو ، پھر بھی ڈاکٹر صاحب نے اتنے کثیر فکاہیہ مضامین لکھے ، مگر ان میں کسی ایسی شخصیت کو نشانہ نہیں بنایا گیا جن کو ہدف ملامت بنانے سے قلم کار کو جیل کی ہوا کھانی پڑے ، یا کم ازکم حکومت و کسی شخصیت کی نگاہ میں معتوب ہونا پڑے ۔ اس لیے انھوں نے عام قسم کے مضامین جیسے خود اپنی ذات کو نشانہ بنانا ، بیوی بیگم کے نخرے ، نوکر ، صحت ، طب ، فلم ، درس وتدریس، تعلیم ، حیوانات ، سبزیاں ، بڑھتی ہوئی آبادی ، جدید نسل کی بے چہرگی ، فون ، موبائل ، بھوک اور مٹاپا ، ریال ، عقد ، قرض، صحرا ، اور پٹرول جیسے موضوعات پر قلم اٹھایا ہے ، اور ہر موضوع کا حق ادا کردیا ہے ۔
ڈاکٹر صاحب کی کتاب ’’پھر چھڑی بات‘‘ کتاب کے ایک مضمون ’’میں ہر آنسو پونچھوں گا‘‘سے ایک اقتباس پیش کرکے بات ختم کرتا ہوں
’’ بیمار پڑتے ہیں تو دواخانہ جانے سے پہلے کئی مرتبہ سوچنا پڑتا ہے ۔ علاج پر اٹھنے والے خرچ کے خیال سے بیماری میں اضافہ ہوجاتا ہے ، مجبور ہوکر دواخانہ جاتے ہیں تو جیسے آنسوؤں کی جھڑی لگ جاتی ہے، تکلیف سے کم اور بل کے بوجھ سے زیادہ آنسو بہ نکلتے ہیں ،آنسو نکل پڑنا معمولی بات ہے ، بعض مریض بل دیکھ کر مزید بیمار ہوجاتے ہیں ، شاید اسی لیے ایک تجربہ کار مریض نے نرسنگ ہوم کی انتظامیہ کو مشورہ دیا تھا کہ بل سیکشن کے پاس بھی ایک ایمرجنسی روم رکھنا چاہیے تاکہ بل سے لگنے والے صدمہ کا فوری علاج کیا جاسکے ‘‘۔ص ۹۶۔
اب اگرچہ ڈاکٹر صاحب نے لکھنا بند کردیا ہے، البتہ جو کالمز ابھی موجود ہیں اور کتابی شکل میں سامنے نہیں آئے ہیں ان کی ترتیب دے رہے ہیں ، اگر ایسا ہے تو پھر نام کے اعتبار سے شاید وہ ’’آخری بات‘‘ ہو ۔
ضضض

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here