9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مند
سید جاوید بن یوسف
آج ہم موجوہ ترقی یافتہ دور میں دیکھتے ہیں کہ ہر پڑھا لکھا نوجوان خواہ وہ لڑکا ہو یا لڑکی اس کے ذہن میں بس ایک ہی سوچ رہتی ہے۔ وہ یہ کہ پڑھائی مکمل ہونے کے بعد ایک اچھی نوکری کیسے ملے؟ تاکہ وہ اپنی زندگی آرام سے گزار سکے ۔ لیکن یہ ہرگز ضروری نہیں ہے کہ ہر نوجوان کو نوکری ملے، کیونکہ بچوں میں وہ صلاحیتیں موجود نہیں ہوتی جو کہ ایک کمپنی کو یا کسی بھی کارپوریٹ ادارے کو درکار ہوتی ہیں ۔کئی سو بچوں میں سے کچھ ہی بچے ایسے ہوتے ہیں۔ جو ان کمپنیوں یا اداروں کی طے شدہ شرائط پر کھرے اترتے ہیں۔ضروری صلاحیتوں کی کمی کی وجہ سے نوجوانوں کو نوکری نہیں ملتی ۔اس کے علاوہ نوجوانوں کے بے روزگار ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہر سال ملک بھر میں لاکھوں نوجوان اپنی پڑھائی مکمل کرنے کے بعد نوکری کی تلاش میں کئی اداروں کے چکر کاٹتے ہیں، لیکن کمپنیوں میں نو ویکنسی کا بورڈ دیکھ کر واپس ہوجاتے ہیں۔کیونکہ حکومت نوجوانوں کیلئے نوکریاں فراہم کرنے میں ناکام ہوچکی ہے۔ جس کی وجہ سے ملک بھر میں بے روزگاری بڑھتی جا رہی ہے۔
نوجوانوں کے پاس کوئی کام نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں۔ وہیں کچھ نوجوان منشیات کی عادت میں مبتلا ہوکر جرائم کا ارتکاب بھی کر رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے ملک بھر میں جرائم وحادثات عروج پر ہے ۔اس کے برعکس تجارت ایک ایسا واحد راستہ ہے جس کے ذریعے ہم ملک بھر کے نوجوانوں میں بڑھنے والی بے روزگاری اور جرائم کو روک سکتے ہیں۔
عالمی وباء کورونا وائرس(کووڈ۔19)کے بعد سے تو کئی بڑی بڑی کمپنیوں نے اپنے ملازمین کی تعداد میں کمی کردی ہے۔اسی کے تحت نوجوانوں کو نئے زمانے کے حالات اورتقاضوں کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنا ضروری ہے ۔ایسے میں نوجوان اپنے ذوق اور صلاحیت کے مطابق چھوٹے پیمانے ہی پر کیوں نہ، اپنا کاروبارشروع کر سکتے ہیں۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم نوجوانوں کو کاروبار کی اہمیت اور اس کے فائدے کے بارے میں بتائیں اور انہیں نوکری کے بجائے کاروبار کرنے کی صلاح دیں۔ کیونکہ کاروبار کے ذریعے کسی کا نوکر بننے کے بجائے کوئی بھی اپنے کاروبار کا مالک ہوتا ہے۔
اس مضمون کے ذریعے آپ کو نوکری کے بجائے تجارت کے فائدے، اسلام میں تجارت کی اہمیت اور تجارت کے ذریعے انسانیت کی خدمت کیسے کی جا سکتی ہے؟ کے بارے میں بتانے کی کوشش کریں گے ۔
نوکری ،گھر سے دفتر تک محدود :
کسی بھی ملٹی نیشنل کمپنی میں یا کسی اور ادارے میں نوکری کرنے پر ہوسکتا ہے کہ آپ کو ٹھیک تنخواہ مل جائے، مگر آپ کو آپ کے اس ادارے میں صرف ایک آلہ کی طرح استعمال کیا جاتا ہے ۔ وہاں آپ کے کام کرنے کا وقت مقر ہوتا ہے ، ورنہ آپ کو آپ کے پاس کی ڈانٹ کھانی پڑسکتی ہے یا آپ کی نوکری خطرے میں پڑسکتی ہے اس میں جہاں آپ کرتے ہیں اپنے دل میں کچھ بھی کام کرسکتی ہے یا آپ کی نوکری خطرے میں پڑسکتی ہے۔اس کے علواہ آپ اس ادارے میں جہاں آپ ملازمت کرتے ہیں، وہاں اپنے دل یا اپنے من سے کچھ بھی کام نہیں کرسکتے۔بس آپ کو وہی کام کرنا ہوتا ہے جو آپ کو آپ کے باس کی جانب سے دیا گیا ہو یا کہا گیا ہو۔
یہ اور اس طرح کی دیگر وجوہات کی بنا پر نوجوان اپنے اندر موجود بے پناہ صلاحیتوں تو دنیا کے سامنے لا نہیں پاتے کیونکہ ان کے اوپر اس ادارے کی جانب سے کچھ تحدیدات لگی ہوتی ہیں، جس کی وجہ سے وہ ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں اور اگر نوکری کے بعد وہ کچھ اپنی جانب سے کرنا بھی چاہے تو ان کو وقت اجازت نہیں دیتا ۔کیونکہ عموما دیکھا جاتا ہے کہ کمپنیوں میں کام کرنے کا وقت اٹھ گھنٹے مقرر ہوتا ہے اور بعض کمپنیوں یا اداروں میں یہی وقت نو یا دس گھنٹے ہوتا ہے۔ نوکری کے وقت کو چھوڑ کر گھر سے ادارے کو آنے اورجانے میں وقت لگتا ہے جس کی وجہ سے نوجوان بس اسی میں الجھ کر ایک غلام کی طرح یا ایک مشین کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
کاروبار، ایک وسیع دنیا:
وہیںکاروبار، نوکری سے بالکل مختلف ہیں۔ پہلے تو کاروبار کرنے والا شخص کسی کا غلام نہیں ہوتا وہ کسی کے حکم کا محتاج نہیں ہوتا اور وہ اپنی ذات کا خود مالک ہوتا ہے ۔ایک کاروباری شخص پر کام کرنے کے لئے کسی طرح کا کوئی دباؤ نہیں ہوتا ہے ۔اس شخص کے کندھوں پر بس ایک ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے کاروبار کو کس طرح ترقی کی بلندیوں پر لے جائے ۔اپنے کاروبار کی ترقی کے لئے وہ بنا کسی روک ٹوک اپنی صلاحیتوں کا استعمال کر سکتا ہے۔ کسی بھی کاروبار میں ترقی حاصل کرنے اور پیسہ کمانے کے لئے کاروبار کرنے والے شخص کے اندر صبر کرنے کا مردہ ہونا ضروری ہے۔ وہیں خوش اخلاق، خوش مزاج اور محنتی بھی ہونا ضروری ہے۔ اگر کسی شخص میں یہ سب صلاحیتیں موجود ہیں تو وہ شخص دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کرے گا۔جب بھی ملازمت کی بات آتی ہے، تو ہم نوکری حاصل کرنے کی بات کرتے ہے۔ کیوں نہ ہم دوسرے لوگوں کو نوکری دینے کے بارے میں سوچیں۔
اسلام میں تجارت کی اہمیت:
اسلام میں تجارت کو بہت اہمیت دی ہے، کیونکہ اسلام غلامی نہیں بلکہ خودمختاری کی بات کرتا ہے۔اسلام اپنی صلاحیتوں کو منوانے اور اپنے پیروں پر کھڑے ہو کر زندگی گزارنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے ۔ پیغمبر انسانیت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایک تاجر تھے۔آپﷺ کے کپڑوں کی تجارت کیا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت کر کے سارے عالم کو تجارت کرنے کا طریقہ سکھایا ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تجارت کرنے کا طریقہ اوروںسے مختلف تھا ۔بازار میں جہاں دوسرے تاجر اپنے سامان کی جھوٹی تعریفیں کر کے گاہکوں کو سامان فروخت کرتے وہیں سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اپنی اشیاء کی تعریف نہیں کی ۔اپنے کپڑے کی اچھائیاں اس کے فائدے بتانے کیے بجائے آپ ﷺ پہلے اس کی خرابی گاہکوں کو بتاتے اور بعد میں اس کی اچھائی کا ذکر کرتے۔بازار میں آنے والے گاہکوں کو آپ صلی اللہ وسلم کی یہ ادا بہت پسند آتی اور وہ لوگ آپ کے پاس ہی کپڑا خریدتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گاہکوں سے جھوٹ کہہ کر اشیاء بیچنے سے سخت منع فرمایا۔ اس کے علاوہ کم تولنے اور زیادہ منافع لینے سے بھی سختی سے منع فرمایا۔
تجارت کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث موجود ہیں۔ حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :جو شخص ایسی عیب دار اشیا فروخت کردے ، جس کے عیب سے خریدار کو واقف نہ کیا گیا ہو تو وہ شخص اللہ تعالی کی ناراضگی میں رہے گا اور فرشتے اس پر لعنت بھیجتے رہیں گے۔ (ابن ماجہ:59/3، کتاب التجارت، باب باب من باع عیبا فلابیر، الحدیث:2247) اس کے علاوہ اللہ تعالی نے قرآن مجید کی سورتوں میں کم ناپنے اور کم تولنے سے منع فرمایا اور ان لوگوں کے لئے عبرت ناک سزا مقرر کیے جو کم نا پ کراور کم تول کر لوگوں کا حق مارتے ہیں اور انہیں دھوکہ دیتے ہیں۔ قرآن مجید کی سورۃالمطففین میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔ ترجمہ ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے لیے ویل ہو۔(ویل دوزخ کے ایک کنویں کا نام ہے)۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ جب دوسروں سے ناپ کر لیتے ہیں تو پورا لیتے ہیں۔لیکن جب ان کو ناپ یا تول کر دینا ہوتا ہے تو کم دیتے ہیں۔ کیا یہ لوگ اتنا بھی نہیں خیال کرتے ہیں کہ ایک بڑے سخت دن (قیامت کے دن) ان کو قبروں سے اٹھایا جائے گا ۔جس دن تمام لوگ لوگ سارے جہاں کے پروردگار کے سامنے کھڑے ہو ں گے۔ اس طرح اللہ تعالی نے قران میں کئی جگہ کم تولنا اور کم ناپنے والوں کے لیے سخت عذاب مقرر کیے ہیں۔ دنیا کا ہر مسلمان اللہ تعالیٰ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بنائے گئے تجارتی نظام کو اپنا لے تو اس کو اس دنیا میں دولت اور شہرت سے نوازے گا ہی اس کے ساتھ ساتھ اس کی آخرت بھی سنور جائے گی ۔
تجارت کے ذریعہ انسانیت کی خدمت:
تجارت کے ذریعہ ایک انسان دوسرے انسان کی مدد نہیں کر سکتا ہے۔ کیونکہ یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ دنیا کا ہر شخص تجارت نہیں کر سکتا ۔اس کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں: جیسے اس کو تجارت کی سمجھ بوجھ نہ ہونا اور تجارت کرنے کے لیے پیسوں کا نہ ہونا ۔ مگر وہ لوگ جو تجارت کرسکتے ہیں، جن کو کاروبار کی سمجھ ہواور صاحب استطاعت ہو تو ایسے لوگوں کو چاہیے کہ وہ کہیں ملازمت کرنے کے بجائے تجارت کرے ۔ کیونکہ اس طرح سے وہ ملازم سے مالک بن جائیں گے اور ان کے تجارت کرنے کی وجہ سے ملک کے نوجوانوں کے لیے ملازمت کے مواقع فراہم ہوں گے۔ ان نوجوانوں کے لیے جو اپنا ذاتی کاروبار نہیں کر سکتے ،انہیں روزگار ملے گا ۔اس طرح تجارت کے ذریعے انسانیت کی خدمت کی جاسکتی ہے اور ملک و معاشرے میں بڑھنے والی بیروزگاری کو ختم نہیں تو کم سے کم کیا جا سکتا ہے ۔
(رابطہ نمبر: 8142368528