قرآن شریف کی چھبیس آیات اور شانِ نزول:تاریخ کی روشنی میں- Twenty-six verses of the Holy Qur’an and the glory of revelation: in the light of history

0
285

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


Twenty-six verses of the Holy Qur'an and the glory of revelation: in the light of history

پروفیسر اسلم سید
وسیم رضوی صاحب نے عدالت سے درخواست کی ہے کہ قرآن مجید میں ۲۶ آیات پیغمبر اسلامؐ کے وصال کے بعد شامل کی گئی تھیں۔ اس بات کا علم چودہ سو سال تک کسی کو نہیں ہوا لیکن اب وقت آگیا ہے کہ انہیں اس مقدس صحیفے سے خارج کر دیا جائے۔
اس سلسلے میں انہوں نے نہ تو کوئی تاریخی حوالہ دیا ہے نہ ہی کوئی حدیث اور نہ ہی کسی امام یا مفسر کا کوئی قول پیش کیا ہے۔
رضوی صاحب نے ۲۶ آیات کے بارے میں یہ جسارت کی ہے ۔ ہم اس وقت ان عوامل کا ذکر نہیں کریں گے جو ممکن ہے کہ اس تحریک کا باعث ہوں۔ تاہم چند معروضات ضروری سمجھتے ہیں تاکہ کلام پاک کے بارے میں کچھ غلط مفروضات کی نشاندہی ہو سکے۔
پہلی بات جو مسلمانوں کے تمام فرقے مانتے ہیںوہ یہ ہے کہ قرآن حضورؐ کی زندگی میں ہی جمع ہو چکا تھا۔ ورنہ آپ غدیر خُم کے مقام پریہ نہ فرماتے کہ میں تمہارے درمیان دو وزنی چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں کتاب اللہ اور اپنی عترت پھر واقعہ قرطاس کی حدیث کہ جب حضورؐ نے کاغذ اور قلم مانگا تاکہ وہ ایک ایسی تحریر لکھدیں جو مسلمانوں کو گمراہ ہونے سے باز رکھے تو حضرت عمر کا یہ کہنا کہ ہمارے لئے کتاب اللہ کافی ہے۔
دوسری بات یہ کہ اہل بیتؑ اور اصحابؓ‏یہ کبھی برداشت نہ کرتے کہ قرآن میں کسی قسم کا ردو بدل کیا جائے اور شاید یہ رضوی صاحب کو احساس نہیں کہ ایسی بات کہہ کر انہوں نے کن ہستیوں کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا ہے۔ مولا علی ؑخاموش رہے امام حسنؑ خاموش رہے اور سید الشہدؑا خاموش رہے!
اب میں ان آیات کی شانِ نزول اور نفس مضمون مختصراً بیان کرتا ہوں جن کا انہوں نے ذکر کیا ہے۔
سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ سورہ اور آیت کا فرق سمجھا جائے۔ قرآن مجید میں کل ۱۴ ۱ ؍ سورے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ لکھنے والے کی غلطی ہے یا مصنف کو ہی علم نہیں کہ قرآن میں ۱۲۳، ۱۵۱ اور ۱۹۱ نمبر کے سورے نہیں ہیں۔ اسی طرح ایک سورہ ۶۱ کا ذکر ہے اور اس کی ایک آیت نمبر ۳۳ کا حوالہ دیا گیا ہے جبکہ اس سورہ میں ؎صرف ۱۴ آیات ہیں!
جن سورہ اور آیات کے نمبر ملتے ہیں ان میں سے اکثر وہ ہیں جو مکّہ میں نازل ہوئی تھیں مثلاً سورہء قصص ۲۸ کی آیت ۹:
’’ اور فرعون کی عورت نے کہا یہ بچّہ (موسیٰؑ) ہمارے لئے آنکھ کی ٹھنڈک ہے اسے قتل نہ کر شاید یہ ہمیں فائدہ پہنچائے یا ہم اسے بیٹا بنالیں اور وہ نہیں جانتے تھے (کہ یہ بچّہ کون ہے)۔ یہ واقعہ حضرت موسیٰ علیہ لسلام کے بارے میں ہے ۔ دوسری آیت سورہء واقعہ (۵۶) کی نمبر ۴ ہے جو روز قیامت کے بارے میں ہے۔ ‘‘ جب زمین سخت حرکت سے تھرتھرائے گی اور پہاڑ ٹوٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گے سورہ مومنون ۲۳کی آیت نمبر ۹ بتاتی ہے کہ ’’وہی لوگ وارث ہیں (اللہ کے نزدیک) جو اپنی امانتوں اور عہد کا پاس رکھتے ہیں اور نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں‘‘۔
مزید آیات یہ ہیں:
سورہ الصف(۳۷) کی آیت نمبر ۹:
’’ یہ لوگ دھتکارے ہوئے ہیں اور یہ دکھ ان کو لگا ہوا ہے‘‘ ۔ یہ ان سرکش شیاطین کے بارے میں ہے جو ان کو گمراہ نہیں کر سکتے جن کی اللہ حفاظت کرتا ہے۔
سورہ طہٰ(۲۰) آیت نمبر ۴۸
’’ ہم پر یہ وحی نازل ہوئی کہ عذاب اس پر ہے جو جھٹلاتا ہے اور (عہد سے) پھر جاتا ہے۔‘‘
یہ حضرت موسیٰؑ کا فرعون کے ساتھ مکالمہ ہے۔
سور الحاقہ (۶۹) آیت نمبر ۸
’’ تو کیا تو ان میں سے کسی کو باقی دیکھتا ہے ،‘‘ثمود اور عاد کی تباہی کا ذکر ہے اور قاری کو کہا گیا ہے کہ کیا تو ان میں سے کسی کو باقی دیکھتا ہے۔
سورہ النّمل(۲۷) آیت نمبر ۴۱
’’انہوں (حضرت سلیمانؑ) نے کہا تخت میں تبدیلی کردو تاکہ ہم دیکھیں کہ وہ صحیح راستہ اختیار کرتی ہے یا ان میں سے ہے جو سیدھے راستے پر نہیں چلتے
ملکہ بلقیس کا ذکر جب وہ حضرت سلیمانؑ سے ملنے آتی ہیں۔
ٍ سورہ القصص (۲۸) آیت نمبر ۴۱
’’ اور ہم نے ان کو امام بنا دیا جو آگ کی طرف لے جاتے ہیں اور روز قیامت ان کا کوئی مددگار نہ ہوگا‘‘۔ اس میں بھی حضرت موسیٰؑ اور فرعون کا ذکر ہے اور موخرالذکرکے بارے میں یہ آیت ہے:
سورہ ابراہیمؑ (۱۴) آیت نمبر ۵ اور ۹:
’’ اور ہم نے موسیٰ ؑکو اپنے پیغام کے ساتھ بھیجا: جائو اور اپنے لوگوں کو اندھیرے سے نکال کر روشنی کی طرف لائو اور ایام خدا کی یاد دلائو اس میں یقینا صابر اور شکر ادا کرنے والوں کے لئے نشانیاں ہیں۔‘‘
’’ کیا تم تک پہلے لوگوں کے واقعات نہیں پہنچے سوائے اللہ کے کوئی نہیں جانتا ۔ رسول آئے واضح پیغام کے ساتھ لیکن لوگوں نے ان کے منہ بند کردئے اور کہا’ ہم انکار کرتے ہیں اس سے جسے تم لائے ہو اور ہم شک کرتے ہیں اس بات کی طرف جس طرف تم دعوت دے رہے ہو۔‘‘
یہ تمام آیات مکہ میں نازل ہوئیں جب رسول خدا اور ان کے پیروکار بہت قلیل تعداد میں تھے اور مسلسل ظلم اور تشدد کا شکار رہتے تھے ۔ پہلا سوال تو یہ ہے کہ ان میں سے کونسی ایسی آیات ہیں جن سے نبی کے بعد اصحاب کو کوئی سیاسی ، مالی یا سماجی فائدہ پہنچ سکتا تھا۔ اس لئے کہ جب بھی کوئی کسی صحیفے میں کمی بیشی کرتا ہے تو کوئی نہ کوئی فائدہ پیش نظر ہوتا ہے!
اب ان آ یات کو ملاحظہ فرمائیے جو مدینہ میں نازل ہوئیں جہاں مسلمانوں نے اپنے پیغمبر کی سربراہی میں حکومت قائم کی اور جس میں یہود و نصاریٰ بھی امت میں شامل تھے ۔میثاق مدینہ میں سب کے حقوق یکساں تھے:
سور ہ مائدہ (۵) آیت نمبر ۹ اور ۱۰
’’ اللہ نے ان سے جو ایمان لائے اور عمل صالح کرتے ہیں وعدہ کیا ہے کہ ان کے لئے مغفرت ہے اور بڑا اجر ہے اور وہ جنہوں نے انکار کیا اور ہماری آیات کو جھٹلایا وہی دوزخ والے ہیں‘‘ کیا اس پر تبصرے کی ضرورت ہے کہ ان کو قرآن میں داخل کرکے اصحاب ثلاثہ کو کیا فائدہ پہنچا!
سورہ توبہ (۹) آیت نمبر ۶۶
’’ بہانے نہ بنائو تم نے یقیناً ایمان کے بعد کفر کیا اگر ہم تم میں سے ایک گروہ کو(کسی عذر کی بنا پر) معاف کرینگے تو ایک گروہ کو (جو کوئی عذر پیش نہیں کرے گا) سزا دیں گے اس لئے کہ وہ مجرم ہیں۔‘‘
یہ آیت ریاست کے شہری کے بارے میں ہے جو کسی عذر کی بنا پر ایسا کام کرے جو غداری کے مترادف ہو مگر پھر بھی معاف کر دیا جائے ، مگر جو بغیر کسی عذر کے غداری کرے گا وہ سزا کا حق دار ہوگا۔ اس کا پس منظر فتح مکہ سے پہلے ایک صحابی کا مکہ والوں کو اطلاع دینا تھا۔ جب وہ پکڑا گیا تو اس نے عذر پیش کیا کہ اس کے عزیز مکہ میں رہتے تھے ان کی سلامتی کے لئے اس نے ایسا کیا تھا۔ حضورؐ نے اسے معاف کردیا۔ سوچنے کی بات ہے کہ آج کے دور میں غدار سے کیا سلوک کیا جاتا ہے؟
سورہء الحج (۲۲) آیت نمبر ۳۲
’’ اور جو کوئی اللہ کی نشانیوں کی تعظیم کرتا ہے تو یہ دلوں کے تقوے سے ہے۔‘‘
سورہء الحدید (۵۷) آیت نمبر ۵
آسمانوں اور زمین کی بادشاہت اسی (اللہ) کی ہے اور سب چیزوں کو اس کی طرف لوٹنا ہے۔‘‘
سورہء المجادلہ (۵۸) آیت نمبر ۹
’’ایمان والو جب آپس میں ملو تو گناہ کی ترغیب نہ دو اور رسول کے احکام کے خلاف ایک دوسرے کو مت نصیحت کرو بلکہ بھلائی اور فرض کی ادائیگی کی نصیحت کرو اور اللہ کے احکام کی جس کی طرف تم جائو گے۔‘‘
سورہ الطلاق (۶۵) آیت نمبر ۸
’’ اور کتنے قریے جنہوں نے رب اور اس کے رسولوں کے احکام کی خلاف ورزی کی ہم نے ان سے حساب لیا اور پھر عذاب لائے۔‘‘
یہ ہیں وہ آیات جو رضوی صاحب کے خیال میں رسول اللہ کے وصال کے بعد قرآن مجید میں داخل کی گئیں۔ آخر اصحاب ایسا کیوں کرتے۔ انہیں ایسا کرکے کیا حاصل ہوا؟ اوراب تک ان سے پہلے کسی نے اس بات کی نشاندہی کیوں نہیں کی؟ یہ تمام سوالات اسی طرح جواب کے منتظر ہیں جیسے امریکہ میں بعض پادری قرآن کیوں جلاتے ہیں۔؟ یورپ میں آزادیء رائے پیغمبر اسلام کے کارٹون بنائے بغیر کیوں قائم نہیں رہ سکتی۔؟ میں اسے کسی سازش یا سنجیدہ کوشش کا نام نہیں دوں گا کیونکہ ان کے لئے ٹھوس بنیادوں اور سوچ بچار کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسی کوششیں سنجیدہ ذہن کی عکاسی نہیں کرتی ہیں۔ پھر بھی ایک بات ضرور کہوں گا کہ اگر قرآن مجید کتابی شکل میں اس کرہ ء ارض سے غائب بھی کر دیا جائے تو یہ کروڑوں دلوں میں محفوظ رہے گا۔ اس کتاب کا دعویٰ ہے کہ اللہ تعلیٰ اس کا محافظ ہے دوسرا دعویٰ ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں اور یہ متقیوں کے لئے مشعلِ ہدایت ہے، تو اس لئے اس کا مطالعہ کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ معلوم کیا جائے کہ آپ اس قابل ہیں، آپ میں وہ اہلیت ہے ، وہ ’پری کوالیفیکیشن ‘ ہے جو ضروری ہے۔ اگر آپ کو خطرہ ہے کہ مسلمان ان آیات کو پڑھ کر کسی ایسی قوت کے مالک بن جائیں گے جو غیر مسلمان ممالک کے لئے خطرہ ہوں تو تاریخ کا مطالعہ کرلیں۔ مسلمانوں نے نہ صرف ہندوستان ، یورپ اور مشرق وسطیٰ میں صدیوں حکومت کی ہے اورایک ایسے وقت جب حکمرانوں کو اختیار ہوتا تھا کہ اپنی مرضی کو عوام پر مسلط کریں، اس وقت نہ کوئی اقوام متحدہ تھی نہ انسانی حقوق کے ادارے۔ مگر یورپ سے نکلے تو خود مغربی مورخ نے لکھا کہ عیسائی آبادیاں اور ان کے گرجے محفوظ تھے۔ ہندوستان میں بھی مسلمان اقلیت میں رہے اور اورنگ زیب جیسا بادشاہ بھی کتنے مندروں کی سرپرستی کرتا تھا۔ عرب جہاں سے یہ دین شروع ہوا وہاں بھی عیسائی اور یہودی عبادت گاہیں محفوظ رہیں۔ اگر کسی حکمران نے زیادتی کی تو یہ اس کا ذاتی فعل تھا جس کا اسلام کے اصولوں اور کلام پاک کی تعلیم سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ قرآن مجید کی تمام آیات اس وقت بھی موجود تھیں اور مسلمان انھیں پڑھتے بھی تھے۔ مگر وہ ان کا مفہوم ویسا نہیں سمجھتے تھے جیسا آج کے نام نہاد دانشور، آزادیء رائے کے متوالے اور مذہب کے کشکول میں سیاست کی بھیک مانگنے والے بتاتے ہیں۔
لیکن اسلام اور اس کی مقدس کتاب پر یہ حملے نئے نہیں ہیں ۔ ہوتے رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔ ہمیں ان سے گھبرانے یا اپنا توازن کھونے کی ضرورت نہیں۔ صبر، تحمل، خلوص و محبت ، انسانیت کا پیار اور دوسروں کے دکھ درد کا احساس تو ہم نے قران مجید اور پیغمبر اسلام ؐ سے ہی سیکھا ہے۔ جس کی شمع آج بھی ہمارے دلوں میں روشن ہے۔
افسوس تو بس اس بات کا ہے کہ اس بار اس قسم کے بچکانہ الفاظ ایک ایسی شخصیت سے کہلوائے گئے ہیں جن سے ہمیں اس قسم کی توقع نہیں تھی۔
ایسی ہی ایک حرکت ۳۷ برس پہلے سامنے آئی تھی۔ جب ۲۰؍ جولائی ۱۹۸۴ء کو ایک چکرورتی نامی صاحب نے کوشش کی تھی۔ انہوں نے مغربی بنگال کی حکومت کے ہوم ڈیپارٹمنٹ کو ایک خط لکھا تھا کہ قرآن پر پابندی عائد کردی جائے۔ جب انہیں کوئی جواب موصول نہ ہوا تو انہوں نے چندو مل چوپڑہ نامی شخص سے مل کر ۱۶؍ مارچ ۱۹۸۵ء کوہائی کورٹ میں اسی قسم کی عرضی دی تھی جو خارج کر دی گئی۔ نظر ثانی کی درخواست دی۔ اس کا انجام بھی یہی ہوا۔ بعد میں چوپڑہ اور سیتا رام گوئل نے اپنی گذارشات کو The Calcutta Quran Petition کے نام سے شائع کیا جو ۱۹۸۷ء میں دوبارہ شائع ہوئی اور ۱۹۹۹ء میں تیسری دفعہ شائع ہوئی۔
اس میں ۲۴ آیات کو نکالنے کے لئے کہا گیا تھا،
اب اس وقت یہ نیا شوشہ کھڑا کیا گیا ہے۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ ہمارے صبر کا پیمانہ نہیں ٹوٹے گاکیونکہ ہمارے سینے میں ہمارے قرآن کی مشعل روشن ہے۔
ضضض

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here