’’آج ہمارادین جماعت اور فرقوں تک محدود ہے ‘‘- “Today our religion is limited to parties and sects.”

0
157

"Today our religion is limited to parties and sects."قیصر محمود عقی
علامہ اقبال ؒ نے آج سے تقریباََ نو ے یا سو سال قبل مسلمانوں کی حالت زار کو دیکھتے ہوئے یہ کہا کہ تم خوار ہو ئے تا رکِ قرآن ہو کر ۔ لیکن عصر حاضر کا مسلمان اس وقت پہلے سے کہیں زیادہ تارک قرآن نظر آتا ہے ، وہ مسلمان جنھیں دنیا کا حکمران بنا کر بھیجا گیا ہے ، وہ مسلمان جنھیں خیرامت کا لقب دیا گیا ہے ، وہ مسلمان جنھیں امامت کا بار سونپا گیا ہے ۔ وہی مسلمان آج در در کی ٹھوکریں کھا رہا ہے ، ذلت و خواری بشمول رسوائی اس کا مقدر بن گئی ہے ، گمنامی کے اندھیرے نے اسے چاروں سمت سے گھیررکھا ہے ۔ عصر حاضر میں عالم اسلام پر طائر انہ نظر ڈالیں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ مسلمان ہر جگہ پسپا ہو رہے ہیں ، کہیں انھیں گھر وں سے نکالا جا رہا ہے تو کہیں دنیا بھر کے مصائب ان پر ڈالے جا رہے ہیں تو کہیں انھیں دہشت گر دکہہ کر سلاخوں کے پیچھے ڈالا جا رہا ہے۔ اگر غور کیا جا ئے تو نظر آئے گا کہ قصور وار ہم خود بھی ہیں ، ہم غیر قوموں کو موددِ الزام ٹھہرا کر خود بری الذمہ نہیں ہو سکتے ۔آ ج ہم صحیح معنوں میں مسلمان نہ رہے ، ہم ویسے مسلمان نہ رہے جن کے ایمان و یقین کے آگے پہاڑ بھی سر جھکا دیتے تھے ، جن کا ایمان اتنا مضبوط تھا کہ موت کا خوف بھی ان کے ارادوں کو متزلزل نہیں کر سکتا تھا ۔ یہ وہ لوگ تھے جن کی زمانے بھر میں عزت تھی ، یہ وہ مسلمان تھے جو کردار کے غازی تھے، کافر بھی جن کے ایمان کی قسمیں کھایا کر تے تھے ۔ دولت و آسائشات بھی ان کے ایمان کو متزلزل نہیں کر سکتی تھی، اور اگر عصر حاضر میں مسلمانوں کی ذلت و خواری کی وجوہات بیان کی جائیں تو الفاظ اور وقت ساتھ نہ دے ۔ ہم نے قرآن کو ترک کیا ، خدا کے راستے سے منہ موڑا اور دین میں فرقہ بندی کر لی ، نتیجتاََ ہم زمانے بھر میں رسواہوئے ۔ قرآن کریم میں اللہ ارشاد فرماتا ہے کہ : اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تمام لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔ خدارا، غور کریں ! کیا ہم قرآن کے اس حکم پر عمل کر تے ہیں ، جہاں ہم دین اسلام ، مذہب سنتے ہیں ، وہیں ہمارے ذہنون میں فرقہ بندی اور جماعت جیسے الفاظ سر اُبھارتے ہیں ، آج ہمارا دین جماعت او ر فرقوں تک محدود ہے ،فلان شخص فلاں جماعت کا اور فلاں شخص فلاں فرقے کا ۔ یہ تعصب یہاں تک بڑھ گیا ہے کہ ہم اپنے مومن بھائی کو (جو کہ مخالف جماعت کا ہو ) سلام تک کر نا گوارا نہیں کر تے اور حد تو یہ ہے کہ اس تعصب سے اللہ کا گھر یعنی مسجد یں بھی محفوظ نہیں ہیں ، غور کریں ! کیا یہی ہمارا دین ہے ؟ کیا قرآن کریم اسی تعصب کا درس دیتا ہے ؟ آج ہم اتنے مصروف ہو گئے ہیں کہ ہمارے پاس قرآن پاک پڑھنے کے لئے وقت ہی نہیں ہے ، اول تو ہمیں کھانے سے فرصت نہیں ، چاہے حلال طریقے سے ہو یا حرام ، اور جو وقت بچتا ہے اسے ہم اپنے پُر تعیش مکانوں میں ٹی وی سے لطف اندوز میں گذار دیتے ہیں ،آج مسلمانوں کی حالت زار دیکھئے ، ان میں ذرا برابر بھی اسلامی طرز فکر اور اسلامی طرز معاشرت نہیں پائی جا تی ہے ۔آج ہم نے قرآن کے احکامات و ارشادات کو پس پُشت ڈال دیا ہے ، دین حقیقی سے منہ موڑا اور غیروں کے دین کو اپنی زندگی میں داخل کر لیا۔ جبکہ قرآن کریم میں اللہ نے ہمارا مقصد حیات واضح طور پر بیان فرمادیا ہے مگرہم سمجھنے اور سمجھانے کے لئے تیار نہیں ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے تمام کائنات تخلیق کی ، کہکشاں اور قوس و قزح کے رنگ بکھیرے ، چاند تارے اور سیارے بنائے ، سورج کو منور کیا ، آسمان کو وسعت بخشی ، زمین کو ٹھنڈاکیا اور کن فیکون کی گونج نے تخلیق کا عمل جا ری رکھا ۔ اور اپنے محبوب محمد ﷺ کی امت کو اپنی پسند یدہ قوم کی و دعیت بخشی ، لیکن سوچنے کی بات ہے کہ جس قوم کو اللہ نے منتخب کیا ہو اور جو قوم سیدالزماں محمد ﷺ کی امتی ہو وہ کیسے زوال پذیر ہو سکتی ہے ۔ واقعی یہ لمحہ فکر یہ ہے کہ مسلمان نا صرف وسطی ایشاء بلکہ دنیا کے ہر کونے میں اپنی شناخت اور تشخص کھو بیٹھے ہیں جبکہ ہم اب بھی اللہ کی آخری کتاب قرآن مجید کے امین ہیں ، ہمارے سینے قرآن کو حرف بہ حرف سموئے ہو ئے ہیں مگر پھر بھی ہم دین میں ناکام اور شکست خوردہ ہیں ، ہم نے اپنا مقام گنوادیا ، ہم تنزل کا شکار ہیں جبکہ دیگر مذاہب ہم سے زیادہ ترقی یافتہ اور متکلم ہیں ، دنیا میں ہر خطے میں مسلمانوں کو جنگ و جدل کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور نسل کشی کی جا رہی ہے لیکن افسوس دنیا کی دوسری بڑی قوم ہو نے کے باوجود یہودو نصاریٰ اب بھی ہم پر مسلط ہیں اور ہر طرح کے ظلم کا نشانہ بنا رہے ہیں ۔ یہاں تک گستاخانہ حرکات و سکنات پر بھی کوئی سنوائی نہیں !ایسا کیوں ہے ؟ بحیثیت مسلم ہم اپنی سا لمیت منوانے میں کیوں نا کام ہیں ؟ کیا ہم میں دوسری قوم کے مقابلے اہلیت نہیں یا پھر ہم اپنی ارتقاء اور اہداف کو نظر انداز کر رہے ہیں ؟ اس کا صرف ایک جواب ہے کہ ہم اپنے دین کو فراموش کر کے سیرت رسول ﷺ کو بھُلا دیا ہے ۔ قرانی تعلیمات بھول کر شیطانی رسوم و رواج کی طرف خود کو مائل کر دیا ہے ۔اگر امت مسلمہ اپنے وجود کی بقاء چاہتی ہے تو اس کو اپنی صف میں متحد ہو کر قرآنی احکامات کو ماننا پڑے گی اور سیر ت رسول ﷺ کی پیروی کر نی ہو گی ۔ ہر اس قانون کو ماننا ہو گا اور اُن کے ہر پہلو کی تقلید کر نی ہو گی جس سے انسانیت کو معراج ملا ۔ بلا تفریق اتحاد قائم کر کے ایک طاقت بننا پڑے گا ۔ کلمہ حق کو بلند کر نا ہو گا ، وقت کی ضرورت اور حکمت سے کام لینا ہو گا ، محبت اور اخوت کا دامن تھامنا ہو گا اور علم و فہم سے وقت کی ڈورکو تھامنا ہو گا ، اپنے اندر سے احساس کمتری کی فضاکو چاک کر نا پڑے گا ۔ گو کہ مسلمانوں کے لئے یہ دور بڑا کھٹن ہے ، کیونکہ ہم کو ٹکڑوں میں تقسیم کر کے کمزور کر دیا گیا ہے ، مگر پھر بھی ہم چاہیں تو سیرت رسول ﷺ کو تھام کر اور قرآن پاک کی ایک ایک احکامات پر عمل کر کے ایک جگہ متحد پکڑ بنا کر دوبارہ مضبوط اور طاقتور قوم بن سکتے ہیں ، کیونکہ رب نے کامیابی کا وعدہ کر رکھا ہے ۔ تو کیوں نہ آ ج کے دن یہ شور شرابہ کر نے کے بجائے سنت نبوی کو اختیار کر نے کی کوشش کر تے ہیں ، ادب و احترام اور خاموشی کو اختیار کر تے ہیں ، اپنے اپنے گھروں ، گلیوں ، کوچوں اور محلوں کے ساتھ ساتھ دل کی بغیر کو بھی اختلاف سے پاک کر کے محبتوں کے قمقموں سے روشن کر تے ہیں ۔ امن کا پیغام دے کر بھائی چارہ کی فضاقائم کر تے ہیں ، معاشرے میں انسانیت کا بول بالا کر تے ہیں اور خود کوایک صف میں لاکر صرف اور صرف مسلمان کر چھوڑ تے ہیں ۔
Mob : 8820551001

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here