9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مند
شیخ ساجد اقبال
آج کی دوڑتی بھاگتی دنیا میں ہر انسان اپنے فائدے اور مفاد کی جنگ لڑنے میں مصروف عمل ہے ۔ آج کے انسان کی ترجیحات میں سب سے پہلے اپنی ذات کا فائدہ اور مقصد پورا کر نا ہی سرِ فہرست ٹھہرتا ہے ، دنیا جائے بھاڑ میں ، معاشرہ جائے بھاڑ میں اور انسانیت ، خلوص و محبت یہ کس چڑیا کانام ہے؟ان ساری خوبصورت اور پاکیزہ باتوں اور خوبصورت جذبوں کا نام و نشاں اور وجود تک مٹتا جارہا ہے ۔ آج سے۴۰،۵۰سال پہلے کے لوگوں اور آج کے دور کے انسان کا موازنہ کیا جا ئے تو یہ فرق بچے بچے میں نظر آتا ہے ، آج کا بظاہر پڑھا لکھا انسان کل کے ان پڑھ انسان سے زیادہ جہالت کا مظاہرہ کر تا نظر آتا ہے ، آج کے جدید دور میں جہاہ انٹرنیٹ کی سہولت کی وجہہ سے دنیا سکڑ کر رہ گئی ہے ، فاصلے بے معنی سے رہ گئے ہیں ، قربتوں کے اس دورمیں بھی ہر انسان اپنی ذات میں ناخوشگوار زندگی گذاررہا ہے ، وجہہ صرف اور صرف مفاد پرستی ہے ، لوٹ مار کا یہ بازار بڑے مہذب انداز میں سجایا جا تا ہے ، اپنے فائدہ کے لئے غلط صحیح کوئی حد لا گو نہیں کی جا تی ، بس مقصد پورا ہو نا چاہئے ، طریقہ کوئی سا بھی کیوں نہ استعمال کیا جا ئے ۔ اگر ہم اپنی عائلی زندگی پر ہی نظر ڈالیں تو بہت سی ایسی باتیں نظر آئینگی جو قابل گرفت ہیں ، مگر ہم لوگ اس پر توجہ دینے کے بجائے صرف نظر کرنا پسند کر تے ہیں ۔ مثال کے طور پر رشوت کو ہی لیا جا ئے تو اس کا فروغ بھی ہمارے اپنے گھر کی پیدا وار ہے ۔ ماں بچے سے کوئی کام کرواتی ہے تو اس کو کہتی ہے کہ بیٹا میرا یہ کام کر دو تو میں آپ کو چپس بنا کر دونگی یا پھر آپ کو جیب خرچ کے علاوہ پیسے دونگی وغیرہ وغیرہ ۔ بظاہر ہر ماں بچے کو ترغیب دینے کے لئے ایسا کر تی ہے مگر در حقیقت وہ بچے میں لالچ کا ایسا بیج بوتی ہے جس کے درخت کو بڑھنے اور پھیلنے پھولنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگتی اور بچے کے اندر بڑھتے حرص میں یہ انعام یا رشوت کی صورت ایسا بگاڑ پیدا کر تی ہے جس کے حصار سے بچہ پھر کبھی نکل نہیں پاتا۔ ایسے ہی آج کل کے استاد کا کردار ٹھہرا۔ وہ بچوں میں مذاق مذاق میں فرمائیش کر تا ہے کہ چیز کھلائو تو ٹیسٹ میں پورے نمبر ملینگے یا پھر کسی بھی چیز کی فر مائش کر تا ہے جو بچے اپنے والدین تک پہنچاتے ہیں اور والدین مرتا کیا نہ کر تا کے مصداق پوری کر نے کی کوشش میں ہلکان ہو تے ہیں ۔ رشوت جیسے حرام کام کو بھی تحفے کی خوبصورت ریپر میں لپیٹ کر اتنے دھڑلے اور ڈھٹائی سے پیش کیا جا تا ہے کہ آپ کو رشوت اور تحفے کی پہچان کر نا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہو تا جا رہا ہے ، مفاد پرستی کی اس فضا میں منہ ساختہ کا بھی بڑا رجحان عام ہے ۔ اگر کسی کی پہنچ بڑے افسر تک ہے تو لوگ ان کی ایسی منت سماجت کر تے ہیں جیسے کہ وہ خود اس پوسٹ پر فائز ہو ، گھر وں میں دعوتوں کے سلسلے ، مشروبا ت ، مٹھا ئیاں، تحفے کے نام سے بطور رشوت دینا ایک عام اور معمولی بات ٹھہر تی ہے ، چائیے پر مدعو کر نا ، خاطر مدارت کرنا ، پیسہ خرچ کر نا ، سب مفاد پرستی کے وہ سنہرے اصول اور راستے سمجھے جا تے ہیں جن کے ذریعے مشکل سے مشکل کام بھی کروا لئے جا تے ہیں ۔ اور بظاہر منزل بھی پالی جا تی ہے ۔ گذرے وقتو ں میں بچوں کو اچھے برے کی تمیز ، غلط صحیح کی پہچان کی تعلیم و تربیت پر زور دیا جا تا تھا، مگر آج کے دورمیں آپ کو تعلیم تو نظر آئے گی مگر تربیت کا فقدان ہے ۔ جس وجہہ کر آج کا دور بھی قیامت سے کم نہیں ہے ۔ بھائی بھائی کا دشمن ، بہن بھائی کی دشمن ، اولاد ماں باپ جیسے عظیم رشتوں کو بھی اپنے مفاد کی سب سے بڑی دیوار سمجھتے ہیں ، ان کے خلوص ، پیار، محبت کو دقیانوسیت کا نام دے کر دھتکار دیا جا تا ہے ، جبکہ ہمارا دین ہمیں اپنے ماں باپ کے سامنے اُف تک کہنے سے بھی روکتا ہے ۔مگر آج کا پڑھا لکھا نوجوان ماں باپ کو دنیا کا چغد ترین انسان ثابت کر نے کے لئے وہ زبان استعمال کر تا ہے کہ ماں باپ کے لئے ڈوب مر نے کا مقام ٹھہرتا ہے اور وہ بے چارے اپنا سامنہ لے کر رہ جا تے ہیں ۔ اب تو معاشرے میں اپنے سے نیچے کو دیکھنے کی خو ختم ہو تی جا رہی ہے ۔ پہلے کے والدین بچوں کو دینی تعلیم دینے میں زیادہ دلچسپی اور توجہ دیتے تھے ، بچوں کو ذہنی شعور دینے کی کوشش کی جا تی تھی ، ایک اچھا اور سچا مسلمان بنانے کی تگ و دو میں رہنا والدین اپنا فرض سمجھتے تھے ، مگر آج کے والدین نے اپنے پائوں پر خود ہی کلہاڑی کے وہ وار کئے ہیں ، جن کی سب سے زیادہ تکلیف بھی ان کے اپنے حصے میں آئی ہے