موت کا سچ- The truth of death

0
503

 

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

The truth of death
گلشن انصاری گل

آج اس جگہ پر کتنی خاموشی تھی۔جہاں ہم سب مل کر کام کے ساتھ مستی مذاق کیا کرتے تھے۔ ہنسی کی کھنکتی آوازوں سے دل مسرور ہوا کرتا تھا۔ایک ساتھ بیٹھ کر لنچ کرنا۔شام کی چاۓ مل کر پینا اور پھر ایک دوسرے کے غم بانٹنا۔یہی ہماری زندگی تھی۔پھر اچانک یہ وبا آیی اور سب پرانے دن اپنے ساتھ لے گئی۔ہو سکتا ہے کہ اب پہلے سا وقت واپس آ جاۓ۔لیکن کچھ لوگ جو ہم سے بچھڑ گئے۔وہ ساتھ، وہ ہاتھ، وہ ہنسی، وہ اپنا پن، وہ مسکراہٹیں اب کبھی واپس نہیں آ سکتی۔
شمائلہ نہ جانے کب سے اس خالی آفس کے دروازے پر کھڑی سوچ رہی تھی۔اور جیسے پچھلی سب یادیں ذہین کے پردے پر چل رہی تھی۔اس نے قدم آگے بڑھائے اور دھیرے سے چلتے ہوئے۔ایک کرسی پر آ بیٹھی۔ایک درد کی لہر اس کے جسم میں اٹھی۔وہ آنکھیں بند کیے اس وجود کو محسوس کرنے لگی۔جو اب کبھی اس کرسی پر واپس نہیں آ سکتا۔اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہی تھے۔درد پورے وجود میں دوڑ رہا تھا۔ اچانک کچھ یاد آنے پر اس نے ٹیبل کی دراز کھولی۔اس میں رکھا ہوا سامان بلکل اسی طرح تھا جیسے وہ رکھ کر گئیں تھیں۔پین،پیپر،کچھ کتابیں اور آفس کی کا دوسرا سامان اور ان کی میٹنگ ڈائری۔اس نے دھیرے سے وہ ڈائری نکالی اور ایک ایک کرکے اس طرح اس کے اوراق کو چھو رہی تھی۔جیسے وہ انھیں محسوس کر سکتی ہو۔شاید اتنے غور سے تو زندگی میں انھیں بھی نہیں دیکھا تھا ۔جتنا آج ان کے چلے جانے کے بعد ان کے سامان کو دیکھ رہی تھی۔
مسز شہناز اور شمائلہ ایک ہی آفس میں کام کرتے تھے۔مسز شہناز اس کی سینئر تھیں۔بلکہ مسز شہناز نے ہی شمائلہ کو بہت کچھ سکھایا تھا۔حالانکہ مسز شہناز ہر کسی سے فری نہیں ہوتی تھی۔لیکن شمائلہ کی باتوں اور عادتوں نے مسز شہناز کا دل جیت لیا تھا۔وہ دونوں ایک دوسرے کے لئے بہت خاص ہو گئی تھی۔پھر جب یہ وبائی دور آیا تو سب ہی ایک دوسرے سے بچھڑ گئے۔پھر ایک رات اچانک مسز شہناز کو سانس لینے میں مشکل ہونے لگی۔سردی کی شکایت انھیں پہلے ہی تھی۔ہسپتال میں ایڈمٹ کرنے کےپندرہ روز بعد ہی وہ سب کو چھوڑ کر چلی گئیں۔بہت یاد آئے وہ دن جب ہمارا کوئی اپنا اگر ہسپتال میں ایڈمٹ ہوتا تو ہم عیادت کر آتے تھے۔زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں اسی بہانے انھیں دیکھ بھی آتے تھے۔لیکن اس بیماری نے تو عیادت کرنے لائق بھی نہیں چھوڑا۔جو وجود کچھ وقت پہلے ہنستا بولتا ملا ہو اور اچانک ایسے چلا جاۓ۔جہاں سے نہ وہ اور نہ ہی کوئی آواز کبھی آ سکتی ہے۔تو بہت تکلیف ہوتی ہے۔اور وہی تکلیف آج شمائلہ، مسز شہناز کی ڈائری ہاتھ میں لئے ان کی کرسی پر بیٹھے محسوس کر رہی تھی۔واقعی ہم انسان بڑے خسارے میں ہیں۔ہم زندگی بھر وہ سب جمع کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔جو موت کے وقت ساتھ نہیں جاۓ گا اور جو ساتھ جاۓ گا اس کی ہمیں زرہ برابر فکر نہیں۔یہ وبا،یہ آفتیں،فتنے ثبوت ہیں اس بات کے کہ انسان چاہے زمین کے اوپر جتنا بھی طاقتور ہو جاۓ۔اسے جانا زمین کے اندر ہی ہے۔تو یہ اکڑ، دکھاوا،تکبر کس کام کا-شمائلہ کو بھی سمجھ آ گیا تھا کہ مسز شہناز کی موت اسے اتنی اذیت کیوں دے رہی تھی۔کیوں کہ رب اسے بہت کچھ سمجھانا چاہتا تھا۔اس عارضی زندگی کی حقیقت،زندگی کا اصل مقصد،موت کا سچ اور بہت کچھ ایسا جو ہماری سمجھ سے پرے ہے۔
ممبئی

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here