خواتین کی کہانی خود ان کی زبانی- The story of women in their own words

0
203

 

 

توصیف خان
امید سے کم نظر خریدار میں آئے
ہم لوگ ذرا دیر سے بازار میں آئے
خود نوشت ہی کیا بلکہ تمام اصناف ادب میں ہی خواتین کی ذرا دیر سے انٹری ہوئی۔ بلکہ ان کے حقوق کی ہی طرف دنیا تھوڑی دیر سے متوجہ ہوئی۔ یوں کہہ لیں کہ ایک زمانہ تک جوہر عورت کی کلید غیروں کے ہاتھوں میں تھی۔ آخر اس عقدہ کو خود عورت نے اپنی جدو جہد سے حل کیا۔ در اصل عورت زندگی کو زیادہ قریب سے دیکھتی، محسوس کرتی ہے اور احساس و شعور میں زندگی کے تلخ و شیریں تجربات کے رنگ و بو کو دامن میں سمولیتی ہے، جب ان کو خود نوشت لکھنے کا موقع ملتا ہے، تو وہ ایک ایسی داستان بن کر سامنے آتی ہے، جس کے ورق ورق پر عورت کے حساس دل میں موجزن احساس و جذبات کی تصویریں چلتی پھرتی، سانس لیتی، کچھ اس طرح محسوس ہوتی ہیں، کہ ہمارا معاشرہ دم بخود ہوکر زندگی کی سچی حقیقتوں کا تماشہ دیکھتا ہے، حالانکہ ابھی تک اردو ادب میں خواتین کی طرف سے بہت کم خود نوشتیں سامنے آئی ہیں، لیکن ریختہ نے کچھ اچھی اور معتبر خواتین کی خود نوشتوں کی ایک منتخب فہرست ترتیب دی ہے، ریختہ پر موجود درج ذیل خودنوشتیں آپ کے مطالعہ کی منتظر ہیں۔
“بیتی کہانی”
“بیتی کہانی” اردو تاریخ و ادب کی نہ صرف اولین نسوانی خود‌نوشت ہے بلکہ تاریخ پاٹودی کا ایک بنیادی ماخذ بھی ہے۔ یہ سوانح عمری اکرچہ پہلی مرتبہ 1995 میں پروفیسر معین ا لدین عقیل کے مقدمہ و حواشی کے ساتھ شائع ہوئی لیکن مصنفہ شہر بانوں بیگم نے “بیتی کہانی” کو 1885 میں تصنیف کیا تھا اور تقریبا دیڑھ سال بعد اس میں محض دیباچے کا اضافہ کرکے کتابی شکل دی۔ اس آپ بیتی کی مصنفہ شہر بانو بیگم کا تعلق ریاست باٹودی کے حکمراں خاندان سے تھا۔ وہ رئیس ریاست نواب اکبر علی خاں (1813- 1872) کی دختر تھیں۔ انہوں نے اپنی اس سرگذشت میں زندگی کے تقریباً تمام اہم واقعات کو کہیں تفصیل اور کہیں اختصار کے ساتھ بیان کر دیا ہے اور پھر اہم مقامات پر تاریخ و سنہ کے اندراج کا بھی اہتمام کیا ہے۔ اپنی سرگذشت کے ضمن میں ریاست کے قیام کے تاریخی و سیاسی پس منظر اور اپنے اجداد کے تاریخی و سوانحی حالات کو انہوں نے جو خاص اہمیت دی ہے، اس سے تاریخ سے ان کے گہرے شغف کا اظہار ہوتا ہے۔ کتاب کی زبان صاف اور سادہ ہے۔ کتاب کو تین ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے اور ان تینوں کے ماتحت متعدد عناوین ہیں۔ یہ ابواب مصنفہ کی طرف سے نہیں قائم کئے گئے ہیں، بلکہ ابواب کی تقسیم بعد میں مرتب نے کی ہے۔ البتہ مصنفہ نے جگہ جگہ موضوع کے اعتبار سے بین السطور اس طرح تحریر کیے ہیں کہ بیان کا ربط نہیں ٹوٹتا۔ اپنی زندگی کے نشیب و فراز کو انہوں نے بلا کم و کاست بیان کر دیا ہے۔ اس سے ان کی حقیقت نگاری اور راست گفتاری کا ثبوت ملتا ہے۔ اس کتاب کا دوسرا ایڈییشن لاہور سے 2006 میں شائع ہوا۔
تزک سلطانی
بھوپال کی حکمران خاتوں سلطان جہاں بیگم برصغیر میں خواتین کی تعلیم کی علمبردار تھیں۔ وہ اعلی تعلیم یافتہ روشن خیال خاتون تھیں۔ انہوں نے ہر پلیٹ فارم پر تعلیم نسواں کو فروغ دیا۔ زیر نظر نواب سلطان بیگم کی خود نوشت ہے۔ جو تین حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلا حصہ “تزک سلطانی” )مطبوعہ (1903 جس میں ان کی پیدائش اس وقت کے سیاسی و سماجی حالات، ان کی مسند نشینی اور ان کی شادی وغیرہ کی تفصیلات درج ہیں۔ تز ک سلطانی کا دوسرا حصہ “گوہر اقبال” )مطبوعہ (1909کے نام سے موسوم ہے۔ جس میں ان کی صدر نشینی، 1909 سے 1908 تک کے حالات۔ اور ان کی صدر نشینی کے بعد کیا مشکلات پیش آئیں۔ شوہر کا انتقال، بیٹیوں کی شادیاں وغیرہ۔ تزک سلطانی کا تیسرا حصہ “اختر اقبال” کے نام سے 1914 میں منظر عام پر آیا اس حصے میں ان کی تعلیمی سرگرمیاں، تعلیم نسواں کے فروغ کے لئے اسفار، اور اس سلسلے کی دوسری جدو جہد مذکور ہیں۔ یہ خود نوشت اس وقت کے بھوپال کی سیاسی و سماجی تاریخ کی ایک اہم دستاویز قرار پاتی ہے۔
نیرنگئی بخت
یہ ایک معزز گھرانے کی خاتون وزیر سلطان بیگم کی بد نصیبی کی داستان ہے۔ جو صحیح معنوں میں نیرنگئی بخت کا شکار ہوئیں۔ قسمت نے ان کے ساتھ عجیب کھیل کھیلا تھا کہ شوہر سے علاحدگی کے بعد معاملہ عدالت تک پہنچا، اور عدالت نے ان کو مہر کی رقم دلوادی۔ یہ خود نوشت ایک ناول کی طرح آگے بڑھتی ہے جس میں انسانی زندگی کے نشیب و فراز اور عروج و زوال کی عبرت انگیز داستان پوشیدہ ہے۔ یہ خود نوشت رسالہ “الزہرا” میں قسط وار شائع ہوئی تھی جس کو اس وقت بہت پسند کیا گیا تھا، بعد میں قارئین کی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے اس خود نوشت کو 1942 میں ذکاء اللہ شاہ حسینی نے شائع کیا۔
آزادی کی چھاوں میں
یہ بیگم انیس قدوائی کی خود نوشت ہے۔ یہ خود نوشت ایک ذاتی ڈائری کی طرح ہے جس میں 1947 میں آزادی کے دوران پیش آنے والے واقعات اور اس کے کچھ سال بعد کا احاطہ کیا گیا ہے۔ یہ اس دور کے خونین واقعات کا ایک آئینہ ہے جس پر مصنفہ کے شوہر کے خون کی چھینٹیں موجود ہیں جو ان ہنگاموں میں شہید کردیا گیا ہے۔ اس خود نوشت کے آغاز کا عنوان غالب کا مصرعہ “کرتا ہوں جمع پھر سطر لخت لخت کو” کے تحت داستان “لخت لخت” کو سنایا گیا ہے۔ یہ خود نوشت ہندوستان کی تاریخ کے ایک اہم دور پر روشنی ڈالتی ہے۔ انیس قدوائی کی نثر پرزور اور شگفتہ ہے۔ جگہ جگہ اشعار کی پیوند کاری سے مضمون اور نثر میں ایک جامع معنی خیزی پیدا ہوگئی ہے۔
کاغذی ہے پیرہن
یہ عصمت چغتائی کی نا مکمل خود نوشت سوانح عمری ہے۔ جو رسالہ “آج کل” میں مارچ-1979 سے مئی-1980 تک 14 قسطوں میں شائع ہوئی تھی۔ اس سوانح میں عصمت کی زندگی کے مختلف ادوار در آئے ہیں اور اتنے خوبصورت انداز میں کہ قاری ان میں کھو جائے۔ انداز بیان اور منظر کشی اعلی پائے کی گئی ہے۔ در اصل افسانہ میں ذات مجہول ہوتی ہے لیکن سوانح میں اس کی گنجائش نہیں ہوتی ہے اس لیے افسانہ کے بہ نسبت عصمت کو سمجھنے کے لیے یہ کتاب زیادہ اہم ہوجاتی ہے۔ بچپن کی یاداشتوں سے کتاب شروع ہوتی ہے اور1980تک کے مختلف حالات کو سولہ عنوانا ت میں قلمبندکرتی ہیں۔ اسکے ساتھ اس کتا ب میں عورت ابد سے کیسی تھی، کیا مقام تھا اور وہ مقام کیسے کھو گیا۔ دور حاضر تک اس مقام پہ کیسے آئی اور شادی کی ابتدا کیسے ہوئی۔ ان تمام چیزوں پر تفصیلی بات کی گئی ہے۔ اس کتاب نے خواتین کی خود نوشت سوانح نگاری میں ایک سنگ میل کا درجہ حاصل کیا ہے۔ تانیثی نقطہ نظر سے بھی اس کتاب کامطالعہ کیاجاتا رہا ہے۔ یہ سوانح وارث علوی کے دیباچہ کے ساتھ 1994 پہلی بار اشاعت پذیر ہوئی۔
جو رہی سو بے خبری ہوئی
یہ خود نوشت مشہور شاعرہ ادا جعفری کی ہے۔ جو ان کی شادی سے پہلے ادا بدایونی اور شادی کے بعد ادا جعفری کے ارد گرد گھومتی ہے۔ اس سوانح عمری کے حوالے سے ادا جعفری خود لکھتی ہیں۔ “یہ خود نوشت اک عام سی لڑکی اور ایک روایتی گھریلو عورت کی چھوٹی سی کہانی ہے جس میں کوئی کہانی نہیں ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ وہ لڑکی اکیلی تھی اور بہت اکیلی۔ اپنے دل کی تنہائی میں گرفتار اور وہ عورت چار دیواری کے حصار میں رہ کر بھی اپنے وجود کی پہنائیوں میں سرگرداں رہی۔ اس نے سوچا کہ میں سائے کا پیچھا نہیں کروں گی۔ اب میرے سائے کو میرے پیچھے پیچھے چلنا ہوگا، جل کی مچھلی ریت پر جینے کا ہنر سیکھنا چاہتی تھی۔” سوانح کا آغاز شہر بدایوں کی بڑی حویلی “ٹونک والوں کے پھاٹک” سے ہوتا ہے۔ جو جاگیر دارانہ گھرانوں کی دلچسپ تصویر ہے۔ سوانح کی نثر خوبصورت اور شاعرانہ ہے۔ یہ سوانح 1995 میں منظر عام پر آئی۔
رسیدی ٹکٹ
رسیدی ٹکٹ امریتا پریتم کی بے حد مقبول خودنوشت ہے۔ جو اگرچہ پنجابی زبان میں لکھی گئی تھی مگر اس کا ترجمہ ہندی اور اردو زبان میں بھی ہوچکا ہے۔ یہ خود نوشت اپنی حق گوئی اور بیباکی کی وجہ سے ایک خاص کشش رکھتی ہے۔ سوانح میں بچپن سے سولھیں سال تک کے واقعات قدرے آہستہ اور روایتی انداز میں رونما ہوتے ہیں لیکن امرتا کے سولھین سال کے پہنچتے ہی منظر نامہ پر ایک بھوچال سا رونما ہوجاتا ہے۔ عمر کے اس سولہویں سال کو امرتا استعارہ بنا کر پیش کرتی ہیں۔ یہ حصہ مکمل سوانح پر حاوی رہتا ہے۔ امرتا نے ساحر کے سحر میں رہ کر زندگی کو ایک خواب کی طرح گزارا تھا وہ کیفیت اس خود نوشت میں بڑی شدت کے ساتھ سامنے آتی ہے۔ خود نوشت میں کہیں کہیں زندگی کی روداد نظموں کی شکل میں بھی پیش کی گئی ہے۔ اس سوانح میں ذاتی زندگی کے نشیب و فراز کے علاوہ ملک کے حالات و واقعات کو نہایت ہی خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا ہے۔
اس کے علاوہ بھی ریختہ کے پاس خواتین کے خود نوشت سوانحی کلیشن میں کچھ اچھی کتابیں آپ کے مطالعہ کی منتظر ہیں۔ جیسے صالحہ عابد حسین کی خود نوشت “سلسہ روز و شب” اور سعیدہ بانو اختر کی “ڈگر سے ہٹ کر” مجاز کی چھوٹی بہن حمیدہ سالم کی “سورش دوراں” ممتاز شیریں کی “شیریں کتھا” ساجدہ زیدی کی “نوائے زندگی” منورما دیوان کی “انقلاب زندہ آباد” عذرا عباس کی میرا بچپن” کیفی اعظمی کی اہلیہ شوکت کیفی کی “یاد کی راہگزر” وغیرہ۔ اس کے علاوہ سوانحی ناول، یاد داشتیں اور روزنامچے بھی ملاحظہ کئے جاسکتے ہیں۔
ضضض

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here