9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مند
صوفی انیس درانی
انگریزی کی کہاوت ہے کہ ’’پہلا تاثر ہی آخری تاثرہوتاہے‘‘۔ اکثرکسی سے پہلی ملاقات پریااس کی تقریر سے دل ودماغ میں ایسے احساسات پیداہوتے ہیں۔ وہ ہمیشہ قائم رہتے ہیں۔ خواہ اچھے ہوں یا ناخوشگوار ۔ ہم مسلم بھارتی عام طورپر ملک کے موجودہ وزیراعظم کے تئیں ایسے ہی ناخوشگوار تعلق کاشکار ہیں۔ ماسوائے افسران اعلیٰ کے تیارکردہ عیداور بقرہ عیدکی مبارک باد ی کے پیغامات کے جوان مواقع پر وزیراعظم کے دفتر سے جاری کئے جاتے ہیں۔ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے تعلق سے ان کا لہجہ تلخی سے پُرہوتاہے۔ اول تواقلیتوں کے تعلق سے و ہ خاموش ہی رہتے ہیں لیکن اگردلاسے کے لئے کچھ بولنا ان کے لئے ضروری ہوجاتاہے تووہ اتنی تاخیر سے مرہم رکھتے ہیں کہ مریض پہلے ہی صحت یاب ہوچکا ہوتاہے بس زخموں کے نشان باقی رہ جاتے ہیں۔
گذشتہ ماہ ایک میاں بھائی کی داڑھی کاجبراً کاٹاجانا بہت چرچا میں رہا۔ اترپردیش کے مغربی حصے میں یہ شرمناک واقعہ ہوا وہاں کے بادشاہ سلامت نے اسے غیر سماجی عناصر کی کارروائی بتایا اور انہوں نے اس واقعہ کو پولیس میں فرقہ وارانہ لکھنے والوں ’’سوشل میڈیا پر دکھانے والوں پرمقدمات بھی درج کرائے اور انہیں جیل بھی بھجوایا خیروہ توبادشاہ سلامت ہیں اگروہ کہتے ہیں کہ یہ معاملہ فرقہ وارانہ نہیں تھا تونہیں ہوگا۔ لیکن بہرحال ایک انسانی حق کی خلاف ورزی توہوئی تھی بھارت کے آئین کے مطابق دیئے گئے شخص آزادی کا حق توپائمال ہوا ہی تھا کہ اس معاملہ کو ذرایہ سوچ کر دیکھئے کہ فلم ادا کارمثلاًانوپم کھیر کو اپنے چمکدار روشن سرپروگ لگانے یا نہ لگانے کی آزادی ہے اگران سے کہاجائے کہ وہ بھاجپا کی انتخابی مہم میں تبھی شامل ہوسکیں گے جب وہ وگ لگاکرآئیں گے یا پھر فلمی اداکارہ کنگنا رانوت کو مجبور کیا جائے کہ وہ بھاجپا کے جلسوں میں مودی جی کی حمایت میں تب ہی تقریرکرسکیں گی جب وہ سویمنگ کاسیڈم(تیرنے کا لباس) پہن کر آئیں تو کیا یہ ان دونوں فلمی اداکاروں کی شخصی آزادی پرحملہ نہیں ہوگا۔ اسی طرح داڑھی کٹانا یا اسے جھاڑجھنکار کی طرح کوخودرو قرار دے کر چھوڑدینا خالص ذاتی اور شخصی امور ہیں۔لیکن ابھی چند روز قبل جب میں نے وزیراعظم کا پرنور چہرہ دیکھا تومیرادل باغ باغ ہوگیا صاف لگ رہاتھا کہ انہیں اس داڑھی کاٹے جانے کا اس قدر ملال ہوا ہے کہ انہوں نے اپنی ناف کی طرف بڑھتی ہوئی لمبی داڑھی کو لگ بھگ آدھاتراش کر مسلمانوں کے ساتھ اظہار ہمدردی کردکھایا۔ یہ ہمارے لئے کس قدر خوشی کی بات ہے کہ ہم کو ایسا اقلیت نواز ان کے احساسات کو سمجھنے والا فرض شناس وزیراعظم ملاہے جو آج بھی مہاتماگاندھی کی طرح کفارہ ادا کرنے کے لئے تیار رہتاہے کچھ بعید نہیں کہ کسی روز وہ اچانک کرونا وبا میں مرنے والوں سے معافی مانگنے اور کفارہ ادا کرنے کے لئے راشٹرپتا (بابائے قوم) کی سمادھی راج گھاٹ پر ’’مرن برت‘‘ پر نہ بیٹھ جائیں!بھارت بہت بھاری سنکٹ میں پھنس جائے گا۔کاش وزیراعظم ایسانہ کریں!
مسلمان ہی کیا سارے بھارت نے ۲۰۱۴ میں نئے وزیراعظم کا خیرمقدم کیا تھا جس طرح انہوں نے پارلیمنٹ جاکر اس کی دہلیزپر آنکھوںمیںآنسو بھرکے سجدہ کیا تھا توایسا لگ رہاتھا کہ انقلاب آگیاہو سابق وزیراعظم من موہن سنگھ جی کی خاموش طبیعت والی مرنجان مرنج شخصیت ایک عالمانہ تاثرچھوڑتی تھی اور عالمی شہرت یافتہ تھی مگر وہ ہمیشہ ایک پروفیسرہی نظرآئے۔ لیکن ہمارے نئے وزیراعظم جب گجرات سے طلوع ہوکر بھارت کے افق پر روشن ہوئے توسچ مچ ایک انقلاب برپا ہوگیا بھارت نے ان سے قبل ایسا کوئی رنگین مزاج وزیراعظم نہیں دیکھا تھاسب ہی کھادی کے کرتے پاجامے یا دھوتی پہنتے تھے یا کبھی کبھار سلک کا کرتہ موسم کے مطابق پہن لیا کرتے تھے لیکن نئے وزیراعظم لاجواب تھے چنانچہ ان کے کئی کئی لاکھ روپئے کے سوٹ اوران کی زنانہ فیروزی رنگ سے قندھاری انار کی سرخ رنگ کی جو اہر کٹیں (معاف کیجئے وزیراعظم جو اہر لعل نہرو کا نم لیتے ہی ان کاپارہ چڑھ جاتاہے۔ حالانکہ موجودہ مودی مارکہ جیکٹیں پنڈت نہرو کی ہی دین ہیں۔ انگلینڈ سے تعلیم یافتہ نہروجی ہمیشہ تھری پیس سوٹ پہنتے تھے جب وہ تحریک آزادی میں شامل ہوئے توانھوں نے سوٹ پہننا چھوڑدیا اور کھدر کا کرتا پاجامہ اپنالیا۔ البتہ تھری پیس کی واسکٹ میں معمولی سی تبدیلیاں کرواکر وہ کرتے پائجامے کے ساتھ پہننے لگے اور پھریہ واسکٹ ہمارے بھارت میں جو اہر کٹ کے نام سے مشہور ہوگئی تھی) یا مودی جیکٹ بیش قیمت سلک کے قوس وقزح کے رنگوں کے بہترین تراش وخراش والے کرتے دن میں کئی کئی مرتبہ کرتے ور جیکٹیں بدلنا عوام پر ایک سحرطاری ہوگیا چھپن کی چھاتی جب ٹیلی ویژن کیمروں کے سامنے آتی تومزید پھلالی جاتی تھی ۔ بھارت کے عوام کوایک نیا امیتابھ بچن مل گیا جس کی آواز میں گھن گرج کے ساتھ ادا ؤں کے ایک حسین امتزاج نے عوام کے ہوش وحواس چھین لئے انہیں ایسا لگتا تھا کہ جیسے مہابھارت کا کوئی کردار ان کے سامنے ان کے یُگ میں ان کے درمیان آگیا ہے۔
مگر بھارت کی جنتا بھی خوب ہے جب کسی کو چڑھاتی ہے توبانس پھنساکر اتنا اونچا کردیتی ہے کہ انسان خود کو بھگوان کے برابر سمجھنے لگتاہے اور اس کے مصاحبین خصوصی تو برابر یہ کوشش کرتے ہیں کہ وہ خود کو ہی بھگوان سمجھنے لگے (مری مراد بھگوان آسارام سے بالکل نہیں ہے) لیکن جب جتنا خاموشی کے ساتھ بانس ہٹانے کی ٹھان لیتی ہے توپھر کوئی نہیں روک پاتا۔ آج بھارت کا عوام بے چینی کا شکار تو ہوچکا ہے وہ اب وزیراعظم کی تڑک بھڑک سے مرعوب ہونے کے بجائے ان کے کارہائے نمایاں کا جائزہ لے رہی ہے اور ان پر تنقید بھی کررہی ہے غالباً اسی کو بھانپتے ہوئے مودی جے نے بھی بولنا کم کردیا ہے اب وہ قیمتی سے قیمتی کپڑے بھی نہیں پہنتے اور جب کسی معاملہ پر بولنا مجبور ی ہو توکذب افترا کی ایک نئی کہانی کو جنم دے دیتے ہیں۔ بلیک ختم کرنے کے لئے نوٹ بندی ، کانگریس کے دورمیں شروع ہونے والی نریگا اسکیم کے تعارف کے وقت بھاجپا کی سخت مخالفت اور اب کروڑوں لوگوں کو بھوک مری سے بچانے والی اسکیم کے لیے اپنی ہی کمر تھپتھپانایہ سب باتیں عوام کو ابھی تک یادہیں اب رہی سہی کسرکرونادیوی نے پوری کردی ہے حکومت دنیا میں وبا کے نزول کے بعد سے ہی دوسرے ممالک کی طرح باخبر تھی مگر حکومت سیاست کرتی رہی صدرٹرمپ کا استقبال کرتی رہی ، مدھیہ پردیش میں کانگریس کے منتخبہ ممبران کو خریدوفروخت کرتی رہی اور جب سارے سیاسی امور انجام دیدیئے گئے۔ تب مرکزی حکومت کرونا کی طرف متوجہ ہوئی جس نے لاکھوں بھارتیوں کی جان لے لی۔ علاوہ ازیں لمبے لمبے لاک ڈاؤن میں مزدور پٹری لگانے والے چھوٹے موٹے کام کرکے روزانہ روزی کمانے والے لوگ بری طرح پس گئے۔ آج ملک کی معیشت کو صرف دس بیس لوگ کنٹرول کرتے ہیں۔ ملک کی معیشت اگرچہ کھوکھلی ہوچکی ہے مگر ارب پتی بڑی کمپنیوں کی دولت میں کئی سو گنا کا اضافہ ہوچکاہے۔
بات توجبراًایک میاں کی داڑھی کاٹنے پر وزیراعظم کا بطور غمگساری اپنی ریش مبارک کو نصف کرنے سے شروع ہوئی تھی مگر اب یہ پتہ چلا کہ اس ریش کی طوالت کی پشت پر وزیراعظم کا خود کو ساری دنیا میں مشہور نوبل انعام یافتہ شاعر آنجہانی مہاکوی ٹیگور بنا کر پیش کرناتھا۔ بنگلہ کے دوشاعر ایسے ہیں جنھیں مغربی بنگال اور بنگلہ دیش دونوں ممالک میں نہایت ادب واحترام سے دیکھا جاتاہے ایک ٹیگور اور دوسرے قاضی نذرالاسلام ان دونوں کی شاعری آج بھی سرحدوں سے ماورا ہے۔ مہاکوی ٹیگور کے لمبے لمبے سفید بال اور لمبی سفید داڑھی ان کی منفردشناخت تھی مودی جی نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کی سوچی اور انہوں نے غیرمحسوس طریقہ سے آہستہ آہستہ اپنی داڑھی کو ٹیگورجیسا بنالیا غالباً ان کے مشیروں نے صلاح دی ہوگی کہ اگروہ خود کو ٹیگور بناکر پیش کریں گے توبنگال کے ووٹرزان کے ساتھ ہوجائیں گے وہ یہ بھول گئے کہ بنگال اور کیرالہ دوایسی ریاستیں ہیں جہاں کا سیاسی شعور بہت پختہ ہے صرف ٹیگور جیسا نظرآنا کافی نہیں ہوگا بلکہ کاسہ سرمیں ان جیسا معزز ہونا بھی ضروری ہے اس لئے بنگال کے لوگوں نے ان کو بری طرح رگڑدیا اور نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی ناف تک پہنچ جانے والی سفید داڑھی ان کے کسی کام میں نہیں آئی۔ اب واضح ہوچکا ہے کہ وزیراعظم کی ریش مبارک ایک سیاسی تیر تھا جو ہدف تک نہیں پہنچ پایا اس لئے بنگالی ووٹرز اب تالی بجارہے ہیں اور وزیراعظم اپنی داڑھی گھٹارہے ہیں۔ لیکن غصہ کا ایک آتش فشاں، وزیراعظم اور وزیرداخلہ کے دلوں میں کھول رہاہے الیکشن میں ہارجیت توچلتی رہتی ہے مگر جس قسم کی کراری ہارکا سامنا بنگال میں موجودہ ارباب اقتدار کو ہوا ہے اس نے ان کی سوچ میں شکست خوردگی کا احساس پیداکردیا ہے۔ وہ وہاں کے ۳۵ فی صدمسلم ووٹروں کو لے کر بنگال میں فرقہ وارانہ آگ بھڑکانا چاہتے تھے۔ مرکزی حکومت کی پوری مشینری وہاں کی وزیراعلیٰ ممتابنرجی کو ہرانے کے لئے لگادی گئی تھی۔ وزیرداخلہ روز بیان دے دے کر فرضی فرقہ وارانہ تصادم کی خبریں ریلیزکررہے تھے ۔ گودی میڈیا اس طرح پبلسٹی کررہا تھا گویا بنگال کے ووٹرزآآ کر ان سے درخواست کررہے ہیوں کہ ہم کو ممتا بنرجی اورمسلمانوں سے نجات دلادو۔ حدتویہ ہے کہ بنگال کے گورنر جس بازاری انداز میں الیکشن کے دوران بیان بازی کررہے تھے وہ ان کے عہدے کے وقار کے خلاف تھے۔
وزیراعظم اور وزیرداخلہ نے ابھی تک ہارنہیں مانی ہے وہ بنگال کی منتخبہ حکومت کو گرانے کے لئے ہرممکن کوشش کررہے ہیں الیکشن کمشنرپر دباؤ بنانے سے لے کر وزارت داخلہ کے اعلیٰ افسران تک سب کا ایک ہی ٹارگٹ ہے کہ کسی طرح ممتا بنرجی کی سرکار کو گراکر گورنر راج یا صدر راج نافذکردیا جائے یہ ان کے لئے زندگی اور موت کاسوال بن چکا ہے۔ کیونکہ تمام رکاوٹوں کے باوجود بنگال میں ترنمول کانگریس اورممتا بنرجی کے وزیر اعلیٰ بن جانے سے ملک کے دکھی عوام کو ایک ایسا فعال رہنما مل گیا ہے جس کے ساتھ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں جٹ کر عظیم سیاسی اتحاد کو جنم دے سکتی ہیں۔ اور بھاجپا کی سیاسی پینترے بازی کا منہ توڑجواب دے سکتی ہیں۔ ابھی تک ملک میں کوئی ایسا رہنما نظرنہیں آرہا تھا جسے وزیراعظم مودی کے مدمقابل کے طورپر سامنے کھڑاکیاجاسکے ۔لیکن ممتابنرجی کی حیثیت کے بعدصورتحال یکسر تبدیل ہوگئی ہے اور اسی لئے سنگ پریوار وزیراعظم تمام جمہوری روایات کے خلاف جاکر بنگال کی منتخبہ حکومت کو برخواست کرنے یا گرانے کے لئے کوشاں ہیں ۔ وہ ہرقسم کے فاشسٹ ہتھکنڈے آزمارہے ہیں کیونکہ سنگھ پریوار کو بھارت پر پوری طرح قابض ہونے کے لئے قومی سطح پر ایک جیت کی اور ضرورت ہے پھر نہ پارلیمنت بچے گی اور نہ ملک کاآئین !جہاں تک میاں صاحب کی داڑھی کی بات ہے تو وہ کھسیانی بلی کھمبا نوچنے والی بات ہے۔ اے ملک کے غداروں کیوں بھول جاتے ہو کہ بھارت پر ہمیشہ داڑھی والوں نے را ج کیا ہے۔ شری رام چندر کے والد محترم راجہ دسترتھ کی بھی داڑھی تھی۔پون پوترہنومان کے بھی داڑھی تھی۔اورعظیم مہابھارت کے بھیشم پتاما اوردھرت راشٹربھی لمبی لمبی سفید داڑھیاں رکھتے تھے اور تواور مہابھارت کے مشہور کوروبھائیوں کے ماما شگونی کے بھی داڑھی تھی۔ داڑھی سے نفرت کرنا بندکرویہ تمہارے بزرگوں کی نشانی ہے۔ اس کاادب ولحاظ کرو!
نہ سمجھوگے تومٹ جاؤگے اے ہندوستاں والو
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
٭٭٭