سابق ڈپٹی ڈائرکٹر(یونانی
7071772077
(۱۱ فروری ۱۸۶۸ء۔۲۹ دسمبر ۱۹۲۷ء) کے مخلص سیاسی رہنما تھے، ایک مایہ ناز طبیب تھے، اچھے شاعر تھے ان سب کے علاوہ ایک دوراندیش ، منصوبہ ساز اور اعلی پایہ کے مدبر تھے۔ ان کے سیاسی اورملی شعور کی معنویت ممکن ہے ان کے دور میں کم قابل فہم رہی ہو لیکن دیکھا جائے تو عصر حاضر میں ان کے سیاسی تدبر، سماجی فکر اور طریقہ کار (Strategy)کے اثرات پہلے بھی متاثرکرتے تھے آج ان کی اثر پذیری(Implication)اور عمل آوری (Application)زیادہ قابل عمل نظر آتی ہے ۔انھوں نے مسلمانوں کے رہنما کے طور سے مسلمانوں کی تعلیمی بیداری کیلئے جامعہ ملیہ کے قیام میں موثر رول ادا کیا، ندوۃ العلماء کی انتظامیہ کے ذمہ دار کی حیثیت سے اپنی مخصوص فکرپیش کی، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے لئے بھی اہم مشورے دیئے ۔بحیثیت طبیب ملک اور بیرون ملک یونانی طب کا سر بلند کیا ۔انگریزوں کی دیسی طب مخالف ساز شوں کے مقابلہ کے لئے یونانی اورآیورویدک معالجین کا ایک مشترکہ پلیٹ فارم کا تصور پیش کیا بطور خاص طب یونانی پر لگے نان سائنٹفک الزام کو ختم کرنے کے لئے مجلس تحقیقات طب قائم کی ۔اس کے لئے طبی لٹریچر کی تالیف کے ساتھ اہم اور مستند عربی اور فارسی طبی کتابوں کے منصوبہ بند انداز سے تراجم کرائے ۔بلاشبہ اگر حکیم اجمل خان نے یہ کوشش نہ کی ہوتی تو شاید طبی مخطوطات کی طرح پوری یونانی طب الماریوں میں قید ہوجاتی۔
حکیم اجمل خان نے ہندومسلم اتحاد کے لئے سبھی جماعتوں اور ہر مذہب کے افراد سے معنی خیز مذاکرے (Dialogue) کئے تحریک خلافت ہو یا مسلم لیگ کانگریس کی صدارت ہو یا ہندو مہاسبھا کے جلسوں کی صدرنشینی حکیم اجمل خان کی مقبولیت اور ہر مذہب و ملت اور ہر طبقہ میں ان کی مقبولیت کی بہترین مثال ہے ۔ وہ جس قدر مسلمانوں کے لئے فکر مند تھے اس سے کم ملک کے وفادار نہیں تھے انھوں نے ہندوستان کے ہر طبقہ کے فلاح و بہبود کے لئے جہاں بھی موقع ملا آواز بلند کی اور کندھے سے کندھا ملا کر اپنے مقاصد کے حصول کے لئے سرگرم عمل رہے ۔یہ ان کی کرشمائی شخصیت کاکما ل تھا کہ انھوں نے تادم آخر ہندومسلم اتحاد کے تانے بانے کو بکھرنے نہیں دیا۔ مہاتما گاندھی کو برائے دنیا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں تھی لیکن حکیم اجمل خان نے ان سے بھی ضرورت پڑنے پر آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی اور ان سے بہت سی باتیں منوائیں ان کا ذہن ہر قسم کی تعصب اور نفرت سے پاک تھا ۔یہی وجہ ہے کہ ہر پلیٹ فارم پر وہ مدلل انداز سے اپنی بات کہتے اور اکثر منوا بھی لیتے تھے ۔اپنے اس طرز عمل میں وہ اعتراضات اور تنقیدات کا شکار بھی رہے لیکن وہ اپنے راہ پر ا ستقلال کے ساتھ گامزن رہے انھوں نے ملک کی خاطر قربانیاں بھی دیں اور ضرورت پڑنے پر انگریزوں سے لوہا لینے سے گریز نہیں کیا ایک وقت آیا جب انھوں نے مسیح الملک کا خطاب واپس کرکے اپنی ملک دوستی کا جراتمندانہ ثبوت پیش کیا ۔یہ انکی حکمت عملی تھی (جس میں گفتگو کی گنجائش بھی نکلتی ہے ) کہ انھوں نے یونانی دواخانہ نام نہ رکھ کر ہندوستانی دواخانہ قائم کیا اور کسی طبیب کے بجائے قرول باغ دہلی میں طبیہ کالج کے افتتاح کے لئے مہاتما گاندھی کا انتخاب کیا۔
اگر آج کے حالات میں حکیم اجمل خان کی ان کارگذاریوں کا جائزہ لیں تو یہ بات صاف طور سے سمجھ میں آتی ہے کہ حکیم صاحب کی نظر آئندہ کے سو سال کے بعد کے ملی تقاضوں اورسماجی تبدیلیوں پر تھی ہمیں کہنے دیجئے کہ آج بھی ضرورت ہے کہ حکیم اجمل خان کی مخصوص حکمت عملی اور ڈاکٹر عبد الجلیل فریدی کے ہندو مسلم اور دلت اتحاد کے تجربات کو آج بھی بروئے کار لانے کی ضرورت ہے یہ بات طے ہے کہ نفرت اور علاحدگی سے ملک ترقی کرسکتا ہے نہ ہی ملک میں رہنے والے کروڑوں افراد سب کے مسائل محبت اور اتحاد کے ساتھ متحد ہو کر حل کئے جاسکتے ہیں ۔عرب اور اسرائیل اتحاد پر تنقید کی جاسکتی ہے لیکن عرب پر آپسی اختلاف کے بادل چھٹنے سے دنیا کی بڑی طاقتوں کی پیشانی پر بل دیکھے جاسکتے ہیں ۔عرب اور اسرائیل ایک ساتھ آسکتے ہیں تو اس ملک کی اکثریت (Majority)اور اقلیتیں (Minorities)ایک ساتھ کیوں نہیں آسکتیں۔