بنگال میں اویسی کا رول- The role of Owaisi in Bengal

0
86

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


 

The role of Owaisi in Bengal

مغربی بنگال میں جیسے جیسے انتخاب قریب آ رہے ہیں ویسے ویسے وہاں کی سیاسی فضا روز ائکک نئی کروٹ لے رہی ہے۔سیکولر ووٹون کو تقسیم کرانے اور بی جے پی کے رستی صاف کرانے کے لئے مشہور اسد الدین اویسی مغربی بنگال میں کیاوہی کردار ادا کر سکیں گے ۔یہ موضوع بحث ہے۔کیونکہایسی خبریں آ رہی ہیں کہ اویسی کے کئی قد آور ساتھی ان کا ساتھ چھوڑ چکے ہیں اور کئی دیدی کے ساتھ مل گئے ہیں۔
اسمبلی انتخاب میں اے آئی ایم آئی ایم (آل انڈیا مجلس اتحادالمسلمین) کے سربراہ اسدالدین اویسی نے انتہائی جوش کے ساتھ میدان میں اترنے کا اعلان کیا تھا، لیکن اب جب ووٹنگ کے دن قریب آ رہے ہیں، ایسا لگ رہا ہے جیسے اویسی نے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔ بہار اسمبلی انتخاب میں بہترین کارکردگی سے حیران کرنے والے اویسی نے جب مغربی بنگال میں امیدوار کھڑے کرنے کا اعلان کیا تھا تو سبھی یہ اندازہ لگا رہے تھے کہ مسلم ووٹ پر اس کا گہرا اثر پڑے گا۔ گزشتہ کچھ مہینوں میں اویسی نے دو بار مغربی بنگال کا دورہ بھی کیا اور کہا جانے لگا کہ یقیناً ترنمول کانگریس کے مسلم ووٹ میں سیندھ لگائیں گے، لیکن اب حالات کافی بدلے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔
میڈیا ذرائع سے موصول ہو رہی خبروں اور سیاسی تجزیہ نگاروں کی رائے اس طرف اشارہ کر رہی ہے کہ مغربی بنگال میں اس بار اویسی کی پارٹی اے آئی ایم آئی ایم بہار جیسا کوئی جادو نہیں دکھانے والی۔ کہا جا رہا ہے کہ بنگال میں اے آئی ایم آئی ایم کو آگے بڑھانے میں اہم کردار نبھانے والے ضمیرالحسن اب اویسی کو چھوڑ کر خود بنگال میں انڈین نیشنل لیگ کا نیا چیپٹر شروع کرنے جا رہے ہیں اور ایسی بھی خبریں سامنے آئی ہیں کہ وہ ترنمول کانگریس کی حمایت کریں گے۔ اس کے علاوہ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ اے آئی ایم آئی ایم بنگال کے کئی لیڈران عباس صدیقی کے ساتھ اسدالدین اویسی کی دوستی سے ناراض چل رہے تھے۔ ویسے بھی عباس صدیقی کی پارٹی انڈین سیکولر فرنٹ نے لیفٹ اور کانگریس اتحاد کے ساتھ ہاتھ ملا لیا ہے۔
دوسری طرف سیاسی تجزیہ نگار ایمان کلیان لاہری کا ایک بیان سامنے آیا ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ بنگال میں مسلم طبقہ کے 94 فیصد لوگ بنگالی زبان میں بات کرتے ہیں، اسی لیے اسدالدین اویسی بنگال میں کوئی بڑا فیکٹر نہیں ہیں۔ اس کو جانتے اور مانتے ہوئے اسدالدین اویسی نے شاید عباس صدیقی سے بات کی تھی۔ لیکن بنگال اے آئی ایم آئی ایم کے لیڈروں کو یہ ناپسند تھا۔ اسی لیے اویسی کو اس بار الیکشن سے پہلے ہی ہتھیار ڈالنا پڑا۔
بہر حال، اس وقت جو سیاسی صورت حال مغربی بنگال میں دیکھنے کو مل رہی ہے۔ اس سےہوا کے رخ کا اندازہ ہو نے لگاہے کہ اویسی کی پارٹی کوئی بڑا فیکٹر نہیں بننے والی ہے۔ اور اس کا سب سے زیادہ فائدہ ترنمول کانگریس کوہونے والا ہے۔کیونکہ اویسی کی ناکامی ممتا کی کامیابی کی راہیں روشن کرے گی یہ تو صاف ہے۔اسدالدین کی ناکامی کا سب سے زیادہ نقصان بی جے پی کو ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی مغربی بنگال زیادہ سے زیادہ پولرائزیشن کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور ہندوتوا لہر پر سوار ہو کر انتخاب میں جیت کا پرچم لہرانے کی اس کی جدوجہد جاری ہے۔لیکن اسد الدین اگرواقعی بی جے پی کے ایجنٹ ہیں جیسا کہ ان کے بارے میں کہا جا تا ہے اوراب تک کہ ان کی کارکردگی بھی یہی بتاتی ہے) تو کیا اس کا اندازہ بی جے پی کو نہیں ہوگا اور وہ اپنےشاطر دماغ کا استعملا نہیں کرے گی کیا۔لیکن یہ تو سیاسی اندازے ہیں ۔آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here