سوال ہار جیت کا نہیں۔۔۔- The question is not about winning or losing …

0
120

[email protected]

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


The question is not about winning or losing ...
کس کو اندازہ نہیں تھا کہ اس اکیسویں صدی میں ریاست بنگال میں بھی ایک رانی جھانسی پیدا ہوگی جس کا نام ممتا بنرجی ہوگا۔ جی ہاں، ممتا بنرجی اس دور کی کسی رانی جھانسی سے کم نہیں ہے۔ وہ جس جواں مردی اور ہمت سے بھارتیہ جنتا پارٹی کا یک و تنہا مقابلہ کر رہی ہیں اس کی جس قدر تعریف ہو وہ کم ہے۔ اخبارات کے مطابق ممتا بنرجی نے کس طرح نندی گرام میں چناؤ کے روز 80 منٹ تک اکیلے الیکشن کمیشن، سنٹرل سیکورٹی فورس اور بی جے پی کارکنان کا مقابلہ ایک پولنگ بوتھ پر کیا وہ قابل داد ہے۔ آپ نے پڑھا ہوگا کہ ممتا بنرجی بذات خود نندی گرام سے چناؤ کے لیے کھڑی ہوئی ہیں۔ وہاں ان کے مقابل میں ابھی حال تک ان کے معتمد خاص سوویندو ادھیکاری بی جے پی کے نمائندے کے طور پر چناؤ لڑ رہے ہیں۔ بنگال کے اس جدید میر جعفر کو ابھی مشکل سے دو ماہ قبل امت شاہ نے انگریزوں کی طرح لالچ اور ڈرا دھمکا کر توڑ لیا۔ نندی گرام سے وہ ممتا کی پارٹی سے ایک عرصے سے چناؤ لڑتے رہے ہیں اور جیتتے رہے ہیں۔ لیکن اس بار جب انھوں نے بی جے پی کی جانب سے نندی گرام میں چناؤ لڑنے کا اعلان کیا تو بنگال کی شیرنی اور حالیہ رانی جھانسی ممتا بنرجی نے یہ اعلان کیا کہ وہ اس بار ان کے مقابل نندی گرام سے چناؤ لڑیں گی۔

بس یہ اعلان ہونا تھا کہ بی جے پی خیمے میں بے چینی اور مایوسی ایک ساتھ پھیل گئی ۔ جیسے 1757 میں پلاسی کی جنگ کے وقت کمپنی بہادر کے کمانڈر لارڈ کلائیو نے نواب سراج الدولہ کے خلاف پوری طاقت جھونک دی تھی، ویسے ہی بھاجپا کیمپ نے نندی گرام میں سنٹرل سیکورٹی فورس، الیکشن کمیشن کی ناانصافی، بی جے پی اور آر ایس ایس کارکنان کی فوج کے ساتھ ساتھ دنیا کی ہر دولت ممتا کے خلاف جھونک دی۔ ووٹنگ کے روز تو قیامت ہی بپا ہو گئی۔ ممتا کا الزام ہے کہ ووٹنگ کے دوران بی جے پی کارکنان کے ان کے خلاف بوتھ پر قبضہ کر ان کے خلاف ووٹ ڈال کر دھاندلی کر رہے تھے۔ اس کے خلاف ممتا بنرجی بذات خود بویل نامی ایک بوتھ پر پہنچ گئیں جہاں بی جے پی کارکنان نے ان کو گھیر لیا۔ جواباً ان کی پارٹی کے کارکنان بھی وہاں پہنچ گئے۔ اسّی منٹ تک ممتا وہاں سنٹرل سیکورٹی فورس اور بی جے پی کارکنان کے گھیرے میں رہیں۔ وہ پولنگ بوتھ ایک میدان جنگ میں تبدیل ہو گیا لیکن ممتا جھانسی کی رانی کی مانند اسی میدان جنگ میں ڈٹی رہیں۔ آخر گورنر بنگال سے ان کی فون پر گفتگو ہوئی اور گورنر نے سیکورٹی فورس کو کچھ حکم دیا، تب جا کر وہاں سے بی جے پی کارکنان رفع دفع ہوئے اور ممتا باہر آئیں۔ہندوستان کی جمہوریت اور الیکشن کمیشن کی انصاف پسندی اور اس کی طاقت و اختیارات کی پول کھل کر رہ گئی۔ساتھ ہی جمہوری الیکشن کو غندہ گردی کے ننگے ناچ نے بھی شرمندہ کیا اور ممتا کے مخالفین کی بوکھلاہٹ بھی سامنے آئی۔
اس ایک واقعہ سے اندازہ لگا یا جا سکتا ہےکہ بنگال میں جمہوریت بالائے طاق ہے۔ کیونکہ جمہوریت کا دار و مدار صاف و شفاف چناؤ پر منحصر ہوتا ہے۔ اگر کہیں چناؤ کا طرز نندی گرام جیسا ہو جائے تو پھر کیسی جمہوریت اور کہاں کا صاف شفاف چناؤ۔ بنگال میں چناؤ کس قدر صاف و شفاف ہو رہے ہیں اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ اکیلے نندی گرام میں ممتا کے کارکنان نے چناؤ کی خلاف ورزی کے 63 معاملات الیکشن کمیشن کو داخل کیے۔ لیکن قربان جائیے الیکشن کمیشن کی ایمانداری اور غیر جانبداری پر کہ اس نے ایک بھی شکایت پر کان نہیں دھرا۔ الیکشن کمیشن کے رویہ کے خلاف تو جس روز سے بنگال میں چناوی تاریخوں کا اعلان ہوا ہے اس روز سے ہی ممتا بنرجی یہ الزام لگا رہی ہیں کہ بنگال میں کمیشن مرکز کے اشاروں پر ناچ رہا ہے۔ سارے ہندوستان سے بی جے پی اور آر ایس ایس کارکنان جو بنگال میں اکٹھا ہیں وہ سب راؤنڈ بہ راؤنڈ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو کر بی جے پی کے لیے ہر قسم کا کام کر رہے ہیں۔ کھلے عام نعرے لگ رہے ہیں کہ اب کے وام کو نہیں رام کو ووٹ دیں۔لیکن الیکشن کمیشن کے کان پر جوں نہیں رینگ نہیں رہی۔ بھاجپا کی حکمت عملی کا جواب ’بنگال بنام گجرات‘ حکمت عملی کا استعمال کر رہی ہیں۔۔لیکن سوال بنگال میں جیت ہار کا نہیں بلکہ بنگال میں بی جے پی کی متشدد حکمت عملی کا ہے۔سوال الیکشن کمیشن کے نئے رنگ و روپ کا بھی ہے اور سوال ہندوستان کی جمہوریت کے وقار اور تحفظ کا بھی ہے،

 

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here