مراسلہ
مکرمی!اترپردیش میں بنے ’لوجہادقانون‘کو لیکر اب سابق آئی-اے-ایس افسران بھی کافی فکر مند ہیں۔اس قانون کے خلاف 104سابق افسران نے ریاست کے وزیراعلیٰ کو ایک مکتوب بھیجاہے جس میں ’لوجہادقانون‘پر اعتراض ظاہر کیا گیا ہے۔ اُن افسران نے اِس آرڈیننس کو واپس لینے اورجن لوگوں پر اِس قانون کے تحت مقدمات درج کیے گئے ہیں اُن کو معاوضہ دینے کا مطالبہ کیاہے۔ان لوگوں کا خیال ہے کہ اُترپردیش جسے پہلے گنگاجمنی تہذیب کیلئے جاناجاتاتھا،وہ اب نفرت ، تفریق اورشدت پسندی کی سیاست کامرکز بن گیاہے۔ظاہر سی بات ہے کہ اِن افسران کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے نہیں ہے اورنہ ہی اُن کے اِس قدم میں کسی سیاسی مفاد کا دخل ہے۔ملک کا ہر روشن خیال ، سیکولر ، ایماندار اوردانشور شہری اُن کے اِن خیالات سے متفق ہوگا۔غور طلب ہے کہ اترپردیش میں ’لوجہادقانون‘کو نافذ ہوئے ایک ماہ گزرچکاہے اوراِس ایک ماہ میں مجموعی طور پر 14کیس رجسٹر ہوئے ہیںجن میں 51؍افراد کی گرفتاریاں ہوئی ہیں۔اترپردیش میں جن 51؍افراد کو پولیس نے جبری تبدیلی مذہب قانون کے تحت گرفتار کیاہے وہ سبھی مسلمان ہیں جب کہ ہندو لڑکے کی طرف سے مسلم لڑکی سے شادی کیے جانے کے کئی معاملوں میں پولیس ان جوڑوں کو تحفظ فراہم کرررہی ہے۔حکومت کا اِس نوعیت کا یہ پہلا قدم نہیں ہے ۔کشمیر سے متعلق دفعہ 370کی منسوخی ، تین طلاق قانون، سی-اے-اے اور یو- اے- پی- اے سبھی اِس زمرے میں آتے ہیں۔ان تمام اقدام کا مقصدایک مخصوص اقلیتی فرقہ کو نشانہ بناناہے۔ان واقعات کے ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے ملک کے شہری زمینی حقیقت کو سمجھ سکیں اور اِس طرح کے اقدام روکنے کیلئے حکومت پر دباؤ ڈالیں۔اِس طرح کے واقعات سے نہ صرف ہمارے ملک کی بیرونی ممالک میں بدنامی ہوتی ہے بلکہ یہ چیزیں وقت کے ساتھ ایک تاریخی حقیقت بن جائیں گی اور مستقبل میںتاریخ ہم سب کو کٹ گھرے میں کھڑا کردے گی۔اِس سے ملک کی ساکھ کو خطرہ پیدہ ہوگا۔
عتیق احمدفاروقی ،سبکدوش پرنسپل
ممتاز پی -جی-کالج، بالاگنج لکھنؤ،رابطہ نمبر:9161484863
Also read