لوگ بیٹھے ہی رہے اور شہر سارا جل گیا

0
104

بھارت کو کچھ عرصہ کے لئے سپریم کورٹ کے حوالے کردیا جائے

صوفی انیس درانی
مستقبل قریب میں بھارت کے وزیراعظم بننے کے خواہش مند شقی القلب مالک کل صوبہائے متحدہ یعنی اترپردیش بھارت کی سب سے مقتدر مذہبی شخصیت عالی جناب یوگی آدتیہ ناتھ نے ان دنوں رحم دلی، دریا دلی اور فیاضی کے دریا بہادیئے ہیں۔ ان کے دل میں ایک خاص گداز پیداہوگیاہے۔ وہ کسی ہندوتواکے بھگت کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دیکھنے کے لئے تیارنہیں ہیں بلکہ جوکسی ایماندار پولیس افسر کے قانون کی پابندی کے سبب جیل میں پھنس بھی چکاہے اسے جیل کی سلاخوں سے نکال کر آزاد کروانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ غالباً اس رحم وکرم کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ باقاعدہ مقدمات چلے توبیشتر ملزموں کو کافی سزائیں مل سکتی ہیں۔ اوراگران لوگوں کوسزاملی تویوگی جی کو ایسے قانون شکن اندھ بھکت کہاں سے ملیں گے۔ کیونکہ ابھی الیکشن اگلے سال ہونے ہیں دوسرے یہ کہ مسلمانوں کو بالواسطہ طورپر یہ پیغام دیدیا جائے کہ انھیں تو آواز بلند کرنے پر بھی کچل سکتے ہیں۔ مگرمیں اپنے بھکتوں کا مسیحاہوں ان کاکوئی قانون کچھ نہیں بگاڑ سکتا ۔حتی کہ عدالتیں بھی میری ماتحت ہیں۔ اس کی تازہ ترین مثال سابق ممبراسمبلی ، یوپی گئو سیواآیوگ کے موجودہ وائس چیرمین اتول سنگھ ہیں۔ اتول سنگھ ۲۰۰۰ سے یوگی آدتیہ ناتھ کے بھگت ہیں۔ جب ۲۰۰۲میں یوگی آدتیہ ناتھ نے ہندوتوا واہنی بنائی تھی۔ تووہ اس کے اہم لیڈروں میں سے ایک تھے۔یوگی جی کے آشیرواد سے ۲۰۰۷ کے اسمبلی انتخابات ضلع کوشی نگر میں رام کولا سے بھاجپاکا اسمبلی ٹکٹ ملا اور وہ مسلم ووٹوں کے بکھر جانے کے سبب جیت بھی گیا تھا۔ مارچ ۲۰۲۰ میں یوپی سرکارنے افسروں کو حکم دیا کہ اتول سنگھ کے خلاف جتنے مقدمات دائر ہیں انھیں واپس لے لیا جائے۔ خواہ وہ مقدمات فوجداری ہوں یا دیوانی سب کو ختم کردیا جائے۔ مقامی پولیس حکام نے ان چھ سال سے چل مقدمات (جو بیشترفوجداری ہیں) جو ضلعی عدالت میں زیر سماعت تھے واپس لینے کی درخواست کی اور عدالت نے فوری اس درخواست کو منظور کرلیا اور اتول سنگھ بری ہوگیا۔
رحم وکرم کی یہ بارش صرف اتول سنگھ تک محدود نہیں ہے ۔ اترپردیش میں مظفر نگر کے ممبراسمبلی اور چنددیگر ممبران پرمظفر نگر کی بیلٹ میں خوفناک فساد کی ذمہ داری عائدہے ان کی جاٹون کی پنچایت میں زہریلی تقریروں کا ریکارڈ پولیس میں بھی موجود ہے اور گودی میڈیا میں بھی ان کی زہر افشانی کے سبب تقریباً چالیس سے پچاس ہزار مسلمانوں کواپنے گاؤوں اور علاقے چھوڑ کر سرکاری کیمپوں میں پناہ گزیں ہونا پڑاتھا۔ بلکہ ابھی تک بہت سے پناہ گزیں وہیں پرہیں۔کیونکہ اس ایم ایل اے کی مہربانی سے اب تک ان کے پشتینی گاؤوں ان کے لئے محفوظ نہیں ہیں۔ یوگی جی نے وہاں بھی اعلیٰ پولیس افسران اورڈی ایم کو کیس ختم کرنے کے لئے کہاتھا۔ لیکن جب عوامی سطح پر زبردست شور شراباہوا اور معاملہ پریس کی نظرمیں بھی آگیا ۔ تواس کو ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا گیا ۔ پورے اترپردیش کا جائزہ لیں توپتہ چلتاہے کہ گئورکشکوں نے سارے صوبہ میں قہر ڈھادیا تھا۔ اور ٹھگی کی نئی ٹیکنیک گئورکھشا کی آڑمیں وضع کی گئی تھی جس نے قصاب سے زیادہ مسلم مویشی تاجروں کا جینا حرام کردیا تھا۔ مویشیوں کے جائزکاغذات خیریداری پاس ہونے کے باوجود تاجروں کو تنگ کرکے ان سے وصولی کی جاتی تھی۔ ان شیطانوں کی مارپیٹ کے سبب بہت سے لوگوں کو جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔ اسی طرح اب لو جہاد کی آڑمیں مسلم جوانوں پر مقدما ت قائم کئے جارہے ہیں۔ جو بیشتر عدالتوں میں جاکر ختم ہوجاتے ہیں مگر اس دوران نامزد مسلم نوجوان کے گھر والے اور دور پرے کے رشتہ داروں کو پولیس کے ہاتھوں خوب تنگ کیا جاتاہے لڑکی یا نامزد لڑکے کو تلاش کرنے کے لئے چھاپے ماری کی جاتی ہے۔ وہ توالہ آبادہائی کورٹ تک پہنچے لو جہاد کے مقدمات نے پولیس کے ہاتھ باندھ دئیے کیونکہ عدالت عالیہ صاف طورپرلوجہادکے قانون کو ہی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والا اور غیر آئینی قرار دیدیا۔ ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے بعد سے پولیس والے محتاط ہوگئے ہیں۔ یہ معاملہ کئی ریاستوں کی عدلیہ عدالتوں کے سامنے سپریم کورٹ تک معاملہ پہلے ہی پہنچ چکا ہے مگر سپریم کورٹ ہائی کورٹوں سے فیصلے آنے کے لئے اس معاملہ پر سماعت شروع کرے گی۔
کرناٹک کے وزیر اعلیٰ یدیرپا بھی اس بیماری کے شکار ہیں۔ وہ بھی اپنے ایام حکومت میں فرقہ واریت، فرقہ وارانہ جھگڑوں اور خواتین کے ساتھ زیادتی کرنے کے معاملات میں ملوث منتخب نمائندوں اور کرناٹک کے بھاجپائی لیڈروں کو مقدمات سے نجات دلانے کے لئے خوب کوشش کررہے ہیں وہ تویہ کانڈکرکے فارغ بھی ہوچکے ہوتے مگر ۲۹جنوری ۲۰۲۱ کو مشہور اخبار انڈین ایکسپریس کے بنگلور ایڈیشن نے ان کا بھانڈہ پھوڑدیا۔انڈین ایکسپریس کی یہ رپورٹ جب کرناٹک ہائی کورٹ کی نظر سے گذری توہائی کورٹ کی ایک ڈویزن بنچ نے جس میں جسٹس سرینواس اور جسٹس سچن شنکر مگادہم شامل تھے کرناٹک حکومت کو نوٹس جاری کردیا کہ مقدمات ختم کرنے کے ۳۱اگست ۲۰۲۰ کے اپنے حکم نامے کے تحت ۶۲ مقدمات واپس لینے اور تکمیل کی تفصیلات اورمتعلقہ کاغذات (فرد جرم وغیرہ) ہمارے عدالتی حکم یکم دسمبر ۲۰۲۰ کے مطابق جلداز جلد پیش کئے جائیں ۔ کرناٹکاسرکارنے ہائی کورٹ سے مہلت مانگی عدالت پندرہ فروری ۲۰۲۱ کے سماعت کے لئے تاریخ دی ہے اور ساتھ میں تاکید بھی کی کہ یکم دسمبر ۲۰۲۰ سے آگے کاریکارڈ بھی عدالت میں پیش کیا جائے تاکہ عدالت پوری طرح آگے کی کاروائی خبردہے۔ بڑی دلچسپ بات یہ ہے کہ ۳۱اگست ۲۰۲۰ کو کرناٹک سرکارنے جن ۶۲مقدمات کو واپس لینے کاحکم دیا تھا ان کی سفار ش کرتے والوں میں کرناٹک کے وزیر قانون جے سی مدھوسوامی وزیر مویشیان پربھو چوان کئی سینئرممبران اسمبلی اور بھاجپاکے دوسرے اہم لیڈرشامل تھے۔اب ان سیاسی دلالوں پرسے جلداز جلد مقدمات ختم کرانے کی سرکاری کوششوں سے ہٹ کریہ دیکھنابھی ضروری ہوجاتاہے کہ بھارت کے عام شہریوں کے ساتھ حکومتیں کسی قسم کاگھناؤنا کھیل کھیل رہی ہیں۔
جمال بھائی میدھاگذشتہ تیس سال سے بھی زیادہ عرصہ سے گجرات کی ایک جیل میں بندہیں ان کو ایک قتل کے سلسلہ میں عمر قید کی سزاسنائی گئی تھی۔ چھتیس گڑھ کی ایک جیل میں گوری شنکر سنگھ اور رنجن سنگھ گذشتہ پچیس سال سے بندہیں۔ ایسے مجرم جنھیں عمر قید کی سزا سنائی جاتی ہے اسے چودہ سال کے بعد یہ حق حاصل ہوجاتا ہے کہ وہ عدالت سے سزائیں تخفیف کرکے رہا کرنے کی درخواست کرے۔ یہ انتہائی افسوسناک صورتحال ہے کہ بھارت کی جیلوں میں ۳۴۸۷ایسے قیدی ہیں آج بھی موجودہ یں جو جیل میں چودہ سال سے بھی زیادہ مدت کاٹ چکے ہیں اور آج بھی اپنے خاندانوں سے دورہیں۔ ان میں سے بہت سے رہائی کے لئے درخواست کئی کئی سال پہلے داخل کرچکے ہیں مگروہ ابھی تک رہائی سے محروم ہیں۔ ورنابیشترقتل کی وارداتیں وقتی اشتعال غیر اضطراری ضرب اور اپنی زندگی بچانے کوشش میں سرزدہوتے ہیں۔ لیکن سزا یافتہ ہونے کا کلنک ان کے دامن پر ہمیشہ قائم رہتاہے۔ چودہ سال تک اپنے خاندان سے بیوی بچوں سے دور رہنا خود ایک بہت بڑی سزا ہوتی ہے جب قانون نے انہیں یہ حق (چودہ سال کے بعدرہائی) دیا ہے توا س کی پابندی ہونی چاہیے۔اسی لئے سپریم کورٹ کی دو نفری بنچ جس میں جسٹس سنجے کرشن کول اور جسٹس ہریش کیش نے یہ بیڑہ اٹھایا ہے کہ وہ سماج کے ان فراموش کردہ قیدیوں کو ان کی رہائی کا حق دلائیں اوراس نظام کی اصلاح کریں۔ ہوا کچھ یوں کہ چھتیس گڑھ سے ایک قیدی نے یہ درخواست سپریم کورٹ میں دائر کی کہ اس نے چودہ سال کی سزاکاٹنے کے بعد تین سال قبل اپنی رہائی کے لئے ریاستی وزارت داخلہ میں درخواست لگائی تھی ایک سال سے بھی زائد عرصہ کے بعد محکمہ داخلہ نے اس کی درخواست منظور کی اور رہائی کاحکم جاری کیا لیکن اسے چودہ سال سزا کاٹنے کے بعد مزید دوسال کیوں سزاکاٹنی پڑی ۔ اس صورتحال کے لئے کون ذمہ دار ہے یہ بات عدالت طے کرے!سپریم کورٹ نے چھتیس گڑھ حکومت سے وضاحت طلب کی کہ کیا ضابطہ یا طریقہ کار ہے اس تاخیر کاسبب اور ذمہ دار کون ہے یہ بتائیے۔ چھتیس گڑھ حکومت نے ایک حلف نامہ کے ذریعے سپریم کورٹ کو بتایا کہ یہ جیل سپرنٹینڈنٹ کی ذمہ داری ہے کہ وہ چودہ سال کی سزا کاٹنے کے بعد ایک ماہ کے اندر اندر سزاکاٹنے والے کی سزا میں تخفیف کرنے کی درخواست پیش کرے ۔ سپریم کورٹ نے ایسے سزایافتہ قیدیوں کی تعداد اور مختلف ریاستوں کی جیلوں میں بعدان کی تعداد کا تعین کرنے کے لیے مسڑگورواگروال کو عدالتی معاون نامزد کرکے ان کے ساتھ نیشنل لیگل سروس اتھارٹی کوشریک کرکے یہ ذمہ داری سونپی۔ ان کی تیارشدہ سروے رپورٹ کے مطابق موجودہ صورتحال یہ ہے کہ ۳۴۸۷ لوگ عمر قید کی سزکاٹ رہے ہیں ۲۸۶۸ فوری رہائی کے مستحق ہیں کیونکہ وہ سزاکے چودہ سال پورے کرچکے ہیں ان میں ۱۶۵۹ کی درخواستیں ریاستی حکومتوں کے پاس آچکی ہیں ن میں سے ۷۵۷درخواستوں کومسترد کردیا ہے ۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے سپریم کورٹ کی اس بنچ نے طے کیا کہ چودہ سال کی سزا کاٹنے کے بعد سزا میں تخفیف کی درخواست تیار کرناجیل کے سپرینتنڈنٹ کی ذمہ داری ہے۔ اسے یہ کام کسی قیدی کے چودہ سال پورے ہونے کے ایک ماہ کے اندر مکمل کرنا ہوگا۔ محکمہ داخلہ کی درخواست پرزیادہ سے زیادہ تین ماہ میں فیصلہ کردینا چاہیے۔ اس طرح سپریم کورٹ نے قیدیوں کے حقوق کو صحیح طورپر پر نافذ کرنے کی طرف ایک بڑاقدم اٹھایاہے۔
سپریم کورٹ ایک اوراہم فیصلہ کے لئے قابل مبارک باد ہے۔ مختلف سرکاری محکموں میں عدلیہ سے متعلقہ امور کے لئے جو عملہ تعینات ہے وہ خود کو سپریم کورٹ سے کم نہیں آنکتا۔ اورکرپشن میں لت پت ہونے کے باوجود کاغذی کارروائی اس خوبی سے تیار کرتاہے کہ اس پر کوئی مواخذہ نہ ہوسکے۔ ا س کی مثال یوں سمجھ لیجئے کہ کوئی سرکاری محکمہ یا ادارہ کوئی مقدمہ ہا رجاتا ہے اور عدالت سے مدعی کو تاوان میں کثیر رقم ادا کرنے کا حکم ملتاہے اور اس فیصلے کے خلاف اس سے اوپر والی عدالت ہی اپیل کرنے کا وقت بھی ملتاہے۔ توجس محکمہ کامعاملہ اس کے عدلیہ سیکشن کافرض بنتا ہے کہ وہ نچلی عدالت سے اپیل کے لئے ملے وقت کے دوران اونچی عدالت میں اپیل دائر کردے۔ مگر عموماً دیکھا جاتاہے کہ محکموں کے قانونی افسران فائل دباکر بیٹھ جاتے ہیں۔ یا پھر کاغذات مکمل کرنے کی آڑ میں فائلوں کو ادھر ادھر گھمائے رکھتے ہیں ۔ یہاں تک کہ اپیل کرنے کا وقت نکل جاتاہے اور جب تاخیر سے معاملہ کارگذاری دکھانے کے لئے اعلیٰ عدالت میں جاتاہے تومیعادِ اپیل میں تاخیر کے سبب مقدمہ خارج کردیا جاتاہے۔ یہ سب کچھ ایسے ہی نہیں ہوجاتابلکہ اس تاخیر کے لئے پرائیویٹ مدعی عام طورپر ان کی خدمت کرتاہے۔ اب سپریم کورٹ کی ایک سہ نفری بنچ جس میں جسٹس کول جسٹس مہیشوری اور جسٹس ہریش کیش رائے شامل ہیں یہ حکم صادر کیا ہے کہ مستقبل میں ایسے افسران اور متعلقہ عملے سے حکومت کو پہنچنے والے مالی نقصان کاتاوان لیا جائے گا۔جسے وہ اپنی تنخواہ میں سے اداکریں گے۔
کاش سپریم کورٹ ہمارے پولیس سسٹم پر بھی نظرڈالے توا س کو پتہ چلے گا کہ یہ محکمہ معاشرہ میں بہت سی خرابیوں کاسبب ہے۔ اورجب تک پولیس ایمان داری کے ساتھ اپنے فرائض انجام نہیں دے گی تو معاشرہ جرائم سے پاک نہیں رہ سکتا۔
بندکمروں میں تحفظ کی نیت باندھے ہوئے
لوگ بیٹھے ہی رہے اور شہر سارا جل گیا
٭٭٭

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here