غالب کی خیال بندی

0
292

مضمون نگار: مہرفاطمہ
ریسرچ اسکالر
دوسرا شعر ہے:
چشم خوباں خامشی میں بھی نوا پرداز ہے
سرمہ تو کہوے کہ دود شعلہ آواز ہے
شعر کی بنیاد اس بات پر قائم ہے کہ معشوق کی یا حسینوں کی آنکھیں بولتی ہیں۔آنکھوں کا بولنا محض ایک خیال ہے ۔پہلے مصرعے میں اس خیال کو حقیقت کے طور پر پیش کیا گیا ہے ،دوسرے مصرعے میں آواز کو شعلہ قرار دیا گیا ہے۔ظاہر ہے کہ شعلے کے ساتھ دھوئیں کا بھی گزر ہے۔دھوئیں سے شعلہ چھپ بھی جاتا ہے،سرمہ کا بھی ذکر آیا۔سرمہ کے کھا لینے سے آواز چلی جاتی ہے یعنی بیٹھ جاتی ہے اور سنائی نہیں دیتی ہے۔یعنی اگر چشم خوباں کی آواز سنائی نہیں دیتی تو اس کا سبب یہ ہے کہ چشم خوباں میں سرمہ لگا ہواہے۔سرمے کی وجہ سے چشم خوباں کی آواز دب گئی ہے۔یعنی ایک خیال قائم کیا گیا کہ چشم خوباں نوا پردازہے۔آواز کو شعلہ کہاگیا اورشعلہ سے دھوئیں کاتصور اوردھوئیں اورسرمے میں مناسبت اورسرمہ کھالینے سے آواز کا دب جانا یعنی سنائی نہ دینا۔اورسرمہ،آواز شعلہ اور دود کی مناسبت سے یا ان کی مدد سے یہ ثابت کر دیاگیا کہ چشم خوباں نواپرداز ہے۔یہی شعر کا اصل موضوع ہے جوکہ ایک خیال پرمبنی ہے۔اس لحاظ سے کہا جا سکتا ہے کہ یہ شعر خیال بندی کی عمدہ مثال ہے۔
ایک شعراور جس کو خیال بندی کی عمدہ مثال کہا جا سکتا ہے :
خیال سادگی ہائے تصور نقش حیرت ہے
پرعنقا یہ رنگ رفتہ سے کھینچی ہیں تصویریں
اس شعر میں وہ کیفیت بیان کی گئی ہے کہ جب تصورمیں کچھ نہیں ہوتاذہن ایک سادہ ورق کے مانند ہوتا ہے۔یعنی جب حیرت و استعجاب کی کیفیت ہوتی ہے اس صورت میں نہ کوئی خیال ہوتا، نہ تاثیر اور نہ کوئی ردعمل اورنہ کسی جذبے کی کارفرمائی ہوتی ہے۔اسی کوحیرت کی تصویر کہتے ہیں۔
شعرکے پہلے مصرعے میں شاعر تصورمیں کچھ نہ ہونے کا تصور کرتاہے ۔اس کے سامنے حیرت کی تصویرآجاتی ہے اور اس میں بھی کچھ نہیں ہے۔جس چیزپر تصویر بن رہی ہے یعنی ’’پرعنقا‘‘وہ بھی معدوم ہے۔اورجس چیز سے تصویربنائی جارہی ہے یعنی رنگ رفتہ وہ بھی کچھ نہیں ہے۔تصور،نقش حیرت، پرعنقا،رنگ رفتہ اور تصویریں سب ایک دوسرے سے متعلق ہیں۔لیکن شعر کی بنیاد خیالی باتوں پر ہے۔ اور انہیں چیزوں کا استعمال کیا گیا ہے جو خود معدوم ہیں۔ شاعرنے ان سب کا استعمال کر کے خیال حیرت و استعجاب کی کیفیت دکھائی ہے اور وہیں خیال بندی کی عمدہ مثال قائم کر دی ہے۔
بزم وحشت کدہ ہے کس کی چشم مست کا
شیشے میں نبض پری پنہاں ہے موج بادہ سے
پری کے نظر آنے اور غائب ہو جانے کی وجہ سے یہ مضمون باندھا جاتا ہے کہ پری میں وہ وحشت ہوتی ہے دوسرے شعرا کے یہاں بھی اس مضمون کا استعمال ملتا ہے۔چونکہ پری کا کام دیوانہ بنانا ہے اور دیوانگی کی صورت میں بے سکونی آتی ہے یعنی وحشت ہوتی ہے۔وحشت میںاضطراب کا مضمون اس سے قبل غالب کی پہلی غزل کے ’’موئے آتش دیدہ‘‘ والے شعر میں آ چکا ہے۔آتش زیر پا سے شاعر کی یہی مراد تھی۔
جو بات اس شعر میں کہی گئی وہ مکمل تجریدیت کی حامل ہے کہ شیشے میں شراب کا ابلنا مثل نبض پری ہے۔یعنی پری کی وحشت شراب میں آ گئی ہے۔موج مئے کا اضطراب نظر نہیں آ رہا ہے چونکہ وحشت بھی ہے۔نبض صرف دھڑکتی ہے اور دکھائی نہیں دیتی ہے گویا ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ نبض پری کی وحشت شراب میں آ گئی ہے۔یہاں پر ایک مناسبت یہ بھی ہے کہ شراب کو لال پری بھی کہتے ہیں۔یعنی پری کی وحشت شراب کے ذریعے سے لوگوں میں آ گئی ہے اور اسی لیے وہ بہک رہے ہیں اور مئے خانے میں وحشت کی حالت میں ہیں۔ شراب اور چشم مست میں مناسبت دیکھیے ۔اسی لیے شاعر یہ فرض کرتا ہے کہ یہ سب کسی چشم مست کا کرشمہ ہے۔ظاہر ہے کہ موج بادہ کاشیشے میں نبض کی طرح دھڑکنا اور موج بادہ میں وحشت کا ہونا اور دکھائی نہ دینا اور نبض پری ساری باتیں خیالی ہیں۔جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ساری قوت متخیلہ کی کار فرمائی ہے۔اور ظاہر ہے کہ اس طرز کے اشعار سے لطف اندوز ہونے کے لیے بھی قوت تخیل کی ضرورت پڑتی ہے۔یہ اشعار خیال بندی کی عمدہ مثالوں میں سے ہیں۔
غالب کے یہاں پیچیدہ سے پیچیدہ مثالوں کے ساتھ ساتھ سہل ممتنع میں بھی خیال بندی کی مثال مل جاتی ہے ۔مثلا:
مستانہ طے کروں ہوں رہ وادی خیال
تا باز گشت سے رہے نہ مدعا مجھے
کہا جا سکتا ہے کہ یہ شعر سادگی کے ساتھ ساتھ خیال بندی کا عمدہ نمونہ ہے ۔اس شعر میں تو خود ’’خیال‘‘کا لفظ موجود ہے۔ظاہر ہے کہ خیال بندی کے اشعار غالب کے دیوان میں کثرت سے ملتے ہیں۔کہیں مضمون میں پیچیدگی ہے تو کہیں سہل ممتنع سے کام لیا گیا ہے ۔وقت کی حد بندی یا قلت کے باعث مزید تفصیل کی گنجائش نہیں ۔فاروقی صاحب کی اس قول کے ساتھ بات ختم کرتی ہوں کہ :
’’ہم خیال بندی کے اصول اور غالب کی اس پر عمل پیرائی کو ہم اردو غزل کا وہ سب سے اہم موڑ کہ سکتے ہیں جو اٹھارہویں صدی کے بعد ظہور پذیر ہوا ،جس نے اقبال کی غزل کے علاوہ جدید غزل کے لیے بھی راہ ہموار کی ‘‘
ذکر آ گیا اقبال کا تو اقبال کی نظم ’’مرزا غالب ‘‘ کے جن اشعار کے ساتھ میں نے گفتگو کا آغاز کیا تھا اسی نظم کے ان اشعار کے ساتھ رخصت چاہتی ہوں:
لطف گویائی میں تیری ہمسری ممکن نہیں
ہو تخیل کا نہ جب تک فکر کامل ہم نشیں
شاہد مضموں تصدق ہے ترے انداز پر
خندہ زن ہے غنچہ دہلی گل شیراز پر
ضضض

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here