جمہوری قدروں کا تقاضا- The need for democratic values

0
152

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

ہندوستانی سیاست میں وہ قوانین اور ضوابط جس میں اراکین پارلیمنٹ اور اراکین اسمبلی کا فائدہ ہو ، اس میں سب ایک ہو جاتے ہیں خواہ وہ قوا نین اور ضوابط کتنے ہی غیر فطری اورنامناسب ہوں۔چاہے وہ پنشن کا مسئلہ ہو۔کینٹٰن کا مسئلہ ہو۔رئٹائر منٹ کا مسئلہ ہو،دو دو تین تین جگہ سے الیکشن لڑ کر پھر چھوڑٰ ہوئی سیٹ یا سیٹوں پر دوبارہ الیکشن کا بوجھ ڈالنا اور عوام کے پسے کی بربادی کا مسئلہ ہو۔ایساہی ایک مسئلہ دل بدل قانون کا بھی ہے۔کسی بھی پارٹی سے لیکشن جیت کر آنا اور بعد میں اسی پارٹی کے ساتھ انضمام کر لینا یا اسی پارٹی میں چلے جانا جس کے خلاف عوام نے انھیں ووٹ دیا تھا۔یہ عوام کے ساتھ مذاق نہیں تو اور کیا ہے۔اس پر آپ خواہ کتنا ہی لکھیں کتنی ہی تقریریں کریںکوئی اثر نہیں ہونے والا۔اور مشکل یہ بھی ہے کہ اس سلسلہ میں ملک کی سب سے بڑی عدالت بھی کچھ نہیںکر سکتی۔کیونکہ ق انون بنانا عدالت کا کام ہی نہیں ہے۔عدالتیں فیصلہ کر بھی دیں تو پارلمینٹ اس فیصلہ کو قانون بنا کر کالعدم بھی کر سکتی ہے اور ایسا ماضی میں ہوا بھی ہے۔بابری مسجد کے مقدمہ کے دوران بھی ی بات کئی بار سامنے آئی تھی کہی اگار مقدمہ ہار بھی گئے تو قانون بنا کر اسےمندر کے حق میں کر لیں گے۔او ر اس طرح کے بیانات پر بھی ملک کی عدالتیں نوٹس نہیں لے سکیں جو کھلم کھلا عدالتی نظام کی توہین تھے۔
سپریم کورٹ نے جمعرات کو ایک سماعت کے دوران یہ سوال کیا کہ عدالت عظمیٰ کے لیے قانون بنانا کیسے ممکن ہے، جب کہ یہ پارلیمنٹ کے حلقہ اختیار میں ہے۔ دراصل چیف جسٹس این وی رمنّا کی صدارت والی بنچ ایک ایسی عرضی پر سماعت کر رہی تھی جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ عدالت عظمیٰ مرکزی حکومت کو ہدایت دے کہ وہ لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں کے اسپیکر اور راجیہ سبھا کے چیئرمین کو بتائیں کہ یہ لوگ ’دَل بدل‘ (ایک پارٹی چھوڑ کر دوسری پارٹی میں جانا) کرنے والے اراکین پارلیمنٹ/اراکین اسمبلی کے خلاف داخل نااہلی عرضیوں پر طے مدتی طریقے سے فیصلہ سنائے۔عدالت کو قانون نہیں بنانا تھا لیکن عدالت نے اس مسئلہ پر کچھ کرنے یا کہنے سے انکار کر دیا ۔جب کہ صرف یہ درخواست کی گئی تھی کہ طے مدت کے اندر فیصلہ لینے کی بابت گذارش کی گئی تھی۔اور گزارش کی گئی تھی کہ ایک گائڈ لائین طے کر دی جائے ۔
رنجیت مکھرجی کے ذریعہ داخل عرضی میں عدالت سے پورے ہندوستان میں دَل بدل کے معاملوں میں فیصلہ لینے کے ایک یکساں عمل کے لیے سربراہان کی گائیڈ لائنس سے متعلق ہدایت دینے کی بھی گزارش کی گئی۔ عرضی دہندہ کے وکیل نے کہا کہ عرضی گائیڈ لائنس کے لیے داخل کی گئی ہے تاکہ دَل بدل کے معاملوں پر فوری اور طے مدتی طریقے سے کارروائی ہو۔ بنچ نے کہا کہ ’’ہم قانون کیسے بنا سکتے ہیں؟ اس کے لیے ایک الگ ادارہ (پارلیمنٹ) ہے۔‘‘
بنچ نے وکیل سے کہا کہ کرناٹک کے اراکین اسمبلی کی نااہلی سے متعلق معاملے میں بھی یہی ایشو اٹھایا گیا تھا، جسے عدالت نے خارج کر دیا تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ’’میں کرناٹک رکن اسمبلی معاملے میں پہلے ہی اپنی رائے ظاہر کر چکے ہیں۔ اس معاملے میں بھی یہ ایشو اٹھایا گیا تھا اور سینئر وکیل کپل سبل نے بھی یہی دلیل دی تھی۔‘‘ بنچ نے کہا ہے کہ اس ایشو کو پارلیمنٹ پر فیصلہ کرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا تھا، اور وکیل کو معاملے میں فیصلہ پڑھنے ور پھر عدالت میں واپس آنے کو کہا۔ عدالت عظمیٰ نے معاملے کی اگلی سماعت دو ہفتہ بعد طے کی ہے۔
عرضی میں کہا گیا ہے کہ ’’نجی اور سیاسی فائدہ کے لیے یہ بڑے پیمانے پر اور غلط سیاسی دَل بدل، ہندوستانی جمہوریت کی جڑ پر حملہ کرتے ہیں، اور آئین کی شق 21 کے تحت ہندوستانی شہری کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔‘‘ عرضی دہندہ نے عدالت سے سیاسی دَل بدل سے متعلق ایشوز پر فیصلہ کرتے وقت اسمبلی اسپیکرس کی طرف سے بلاوجہ تاخیر کی جانچ کی گزارش کی تھی۔لیکن افسوس کہ عدالت نے کوئی گائڈ لائین بنانے یا کوئی ہدایت نامہ جاری کرنے کے بجائے یہ کہا کہ ہم کوئی قانون کیسے بنا سکتے ہیں۔
کسی بھی جمہوری ملک میں جمہوری قدریں تب ہی تک زندہ رہتی ہیں جب تک جمہوری نظام کی روح کے تقاضوں کے مطابق ادارے اپنے فرائض انجام دیتے رہیں۔جب منطق اور لاجک کے راستے چور دروازے تلاش کئے جائیں گے تو روح مجروح ہو جائے گی اور جمہوری قدریں بھی متاثر ہوں گی۔

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here