عتیق احمدفاروقی ،سبکدوش پرنسپل
یوم جمہوریہ کے موقع پر کسان تحریک کے نام پر ملک کے دارالحکومت میں جوتشدد اورقوم مخالف کارروائی ہوئی اُس سے ساراملک پریشان ہے۔ تشدد آمیز واقعات تو کشمیر ، نکسل زدہ علاقوں اورشمال مشرق میں ہوتے رہتے ہیں لیکن دہلی میںاس طرح کا واقعہ، اوروہ بھی یوم جمہوریہ کو ، مرکزی حکومت کیلئے ایک بہت بڑا جھٹکاہے۔ ٹریکٹرریلی سے نمٹنے کیلئے دہلی پولیس نے اپنی طرف سے پوری تیاری کی تھی لیکن ایسا معلو م ہوتاہے کہ داخلہ وزارت سے انہیں ایسی ہدایات ملی تھیں کہ حالات بگڑنے پر بھی کسی قیمت پر گولی نہیں چلانا ہے۔ اگرایسا حکم تھا تووہ صحیح تھالیکن یہ بھی صحیح ہے کہ اِس حکم کی تعمیل میں دہلی پولیس کو بھاری قیمت چکانی پڑی۔ اس واقعہ میں 394پولیس اہلکار زخمی ہوئے، اُن میں سے کچھ کو سنگین چوٹیں آئی ہیں اورکچھ اسپتالوں کے آئی-سی-یومیں زیرعلاج ہیں۔ اِن سبھی پولیس اہلکاروں کیلئے حکومت کے ذریعے مناسب معاوضہ کا اعلان کیاجاناچاہیے ۔26جنوری کو دہلی میں جوکچھ ہوا وہ بیحد تکلیف دہ اورقابل مذمت ہے لیکن یہ سب کچھ سبق آموز بھی ہے۔ سب سے پہلا اورضروری سبق یہ ہے کہ بے صبری کی چنگاری کو زیادہ دنوں تک سلگنے نہیں دینا چاہیے۔ حکومت نے جو نئے زرعی قوانین بنائے ہیں ان کے خلاف کسانوں کے ایک طبقے کی آواز دھیرے دھیرے زور پکڑ رہی تھی اور اس کے بیچ ایک بھڑکانے والا پیغام جارہاتھا۔ چونکہ معاملہ اتنے دنوں تک کھنچتارہا اس لیے تھوڑا سا موقع ملنے پر سماج دشمن عناصر نے دہلی میں ماحول خراب کردیا۔
دوسرا سبق یہ ہے کہ آج کی تاریخ میں کئی طرح کے ملک مخالف عناصر سرگرم ہیں ۔ یہ لوگ موقع کی تلاش میں رہتے ہیں ۔ حکومت مخالف کوئی بھی مدعہ ہو ،اُس میں داخل ہوجاتے ہیں اورآگ میں گھی ڈالنے کا کام کرتے ہیں ۔ ابھی ابتدائی رپورٹ پر اگرنظرڈالی جائے تو پتہ چلے گا کہ خالصتان حامی اور ’سکھ فار جسٹس‘نامی ادارے نے اس تحریک میں اچھی خاصی گھس پیٹھ کرلی تھی ۔ اس تنظیم نے دوہفتہ قبل اعلان کیاتھا کہ جو بھی یوم جمہوریہ کے دن لال قلعہ پر خالصتانی جھنڈا پھیرائے گا اُسے ڈھائی لاکھ ڈالر دیے جائیں گے۔ اسی ادارے کے سرغنہ نے پنجاب کے کسانوں کو آواز دی تھی کہ وہ 25 اور 26جنوری کو دہلی کی بجلی کاٹ دیں تاکہ دارالحکومت اندھیرے میں ڈوبارہے۔ ایسے عناصر کے خلاف سخت قانونی کارروائی ہونی چاہیے۔
تیسرا سبق یہ ہے کہ پولیس کو ایسے حالات سے نمٹنے کیلئے ضروری وسائل فراہم کیے جانے چاہئیں۔ کسانوں کی بھیڑ پر نگرانی رکھنے اورکنٹرول روم کو وقتاًفوقتاً اطلاع دینے کیلئے پولیس کے پاس ہیلی کاپٹرہونے چاہیے تھے۔ جس سے وہ اوپر سے حالات کا جائزہ بہتر طریقے سے لے سکتی۔اس کے علاوہ بھیڑ کی نگرانی کیلئے ڈرون کیمرے کا استعمال کیاجاناچاہیے تھا۔ صرف آنسو گیس چھوڑنے سے اتنے بڑے مجمع کو کنٹرول کرنا ممکن نہیں تھا۔ چوتھا سبق یہ ہے کہ آمنے سامنے کی حالت میں کبھی کبھی فوج کی زبان میں مصلحتاً پیچھے ہٹناہی ہوتاہے۔ کسانوں کے وکیل دشینت دوے کے مطابق یہ قوانین آئین کے وفاقی ڈھانچے کو چوٹ پہنچاتاہے اوراگراس کو نافذ کیاگیا تو کچھ بڑے صنعتی گھرانے زرعی بازار پر قابض ہوجائیں گے اورچھوٹے کسانوں کا وجود مٹ جائے گا۔ دوسری جانب آئی-ایم-ایف کی مشہور ماہر اقتصادیات گیتاگوپی ناتھ کے مطابق ان قوانین سے کسانوں کے بازار کے دائرے میں اضافہ ہوگا اوران کی آمدنی خاصی بڑھ جائے گی۔مرکزی حکومت اِن قوانین کو منسوخ کیے بناکہہ سکتی تھی کہ یہ قوانین اُن ہی صوبوں میں نافذ ہوں گے جن کی قانون سازاسمبلیاں اُس کی منظوری کی تجویز پاس کردیں گی۔ ایسا کرنے سے تحریک میں شامل لوگ دہلی کے بجائے صوبوں کی دارالحکومت میں جانے کیلئے مجبور ہوجاتے۔اگریہ قوانین درحقیقت کسانوں کیلئے فائدہ مند ہیں تو وقت گزرنے کے ساتھ ان قوانین کو نہ اپنانے والے خودہی ان کامطالبہ کرتے۔ جو قانون 70سالوں سے نافذ نہیں ہوا وہ اگرکچھ صوبوں میں تین چارسال بعد نافذ ہوتا تو آسماں نہیں ٹوٹ پڑتا۔
جمہوریت میں مخالف رائے رکھنے کا سب کو حق ہے، پرامن طریقے سے تحریک کرنے کی سب کو آزادی ہے لیکن 26جنوری کو دہلی میں’ لکشمن ریکھا ‘پار ہوگئی ۔ حکومت کے نمائندوں کا مانناہے کہ تحریک چلانے والوں نے پولیس کی ساری شرطوں کو توڑاہے اورپولیس پر حملہ کیاہے۔ اُن لوگوں نے قوم مخالف مظاہرہ کیا ۔ یہ سب چیزیں ناقابل تلافی ہیں ۔ دوسری طرف اس تحریک کے اصلی لیڈران نے بتایاکہ کسانوں کے ایک چھوٹے گروپ نے ، جوشاید مرکزی حکومت سے ملاہواتھا،جان بوجھ کر پولیس اورکسانوں کے بیچ ہوئے معاہدے کی خلاف ورزی کی۔ اُ ن لوگوں نے غلط راستہ اختیا رکیااورلال قلعہ تک پہنچ گئے۔ کسان لیڈران نے دوسرا خلاصہ یہ کیا کہ تحریک میں شامل کسانوں کو چونکہ راستے کا صحیح علم نہیں تھا اس لیے انجانے میں ان کے ٹریکٹروں نے غلط راستہ پکڑ لیا ۔سارے بڑے کسان لیڈران نے اس واقعہ کی مذمت کی ہے ۔ سچائی کیاہے وہ حکومت کے ذریعے بنائی گئی کمیٹی کی جانچ کے بعد ہی پتہ چل پائے گا۔
زرعی قوانین سے جوتنازعہ پیدا ہوا ہے اس کامستقل حل تلاش کرناہوگا ۔ عدالتِ عظمیٰ نے ایک کمیٹی تشکیل کی ہے ۔ اگرکمیٹی کے ممبران کے انتخاب پر کچھ لوگو ں کو اعتراض ہے اوراگراُس اعتراض میں وزن ہو تواس کی دوبارہ تشکیل ہوسکتی ہے۔مرکزی حکومت چاہے تواس معاملے میں فیصلہ لینے کااختیار ریاستی حکومت پر چھوڑ سکتی ہے۔ ان قوانین کی آئینی حیثیت پر عدالتِ عظمیٰ کی بھی رائے لی جاسکتی ہے۔ بہت سے راستے ہیں ، حکومت کو ان ہی میں سے کوئی ایسا راستہ نکالناہوگا جومظاہرین کسانوں کے ایک بڑے حلقے کو بھی قابل قبول ہو۔
ممتاز پی -جی-کالج، بالاگنج لکھنؤ
رابطہ نمبر:9161484863