ڈاکٹر احمد امتیاز
(’’خاکشائیہ‘‘ خاکہ اور انشائیہ سے مرکب ہے۔اس طرزِ تحریر میں خاکہ نگاری کی طرز پر شخصی نقوش ابھارنے اور انشائیہ نگاری کی طرز پر آزاد خیالی اور زبان و بیان میں نئی تازگی و تأثر پیدا کرنے کا تجربہ کیا گیا ہے۔)
ابھی پچھلے دنوں کی ہی بات ہے، میں خیال کی دیوار پر پاؤں لٹکائے بیٹھا تھا کہ فکر کا پتھر زور سے سَر پر آکر لگا۔ٹیس نے چھلانگ لگائی اور میں قلم کو ہا تھ میں لے کر ادب کے فصیل بند شہر کے دروازہ کی تلاش میں نکل پڑا ۔ راستہ بے حد دشوار تھا مگر میرا حوصلہ بھی کچھ کم نہ تھا ۔ میںہرایک در و دیوار پر نظر ڈالتا ہوا بڑھتا رہا۔ نظرجس طرف بھی جاتی دیوار، قصّۂ جدید و قدیم سے مزیّن نظر آتی۔مگر اُس میںچور دروازوں کی بھی کمی نہیں تھی۔میں نظّارہ کرتا ہوا آگے بڑھتا رہا، یہاں تک کہ محرابی دروازہ تک پہنچتے پہنچتے عمر آدھی گزر گئی ۔میں نے ہمّت کر کے محرابی دروازہ پر قدم رکھا ۔ دروازہ پر قدم رکھتے ہی ایسا معلوم ہوا جیسے سکو تِ سیلِ رواں کی پہریداری ہو۔ مگر جب اندر داخل ہوا تو اندر کی دنیا عجب نرالی تھی ۔ایک طرف ہر یالی تو دوسری طرف خشک سالی تھی ۔قد آور اورکوتاہ قد سے ادب کا دربار سجا ہوا تھا ۔بونے پنجوں پر کھڑے تھے اور قد آور کی قد آوری سے مقابل تھے، مگر اُ ن کے سامنے باربار گھٹنے ٹیک دینے پر مجبوربھی تھے ۔قد آوروں کو کسی کی پر واہ نہیں تھی۔ وہ اپنی شو کتِ علمی میں چور تھے ۔ درمیانہ قد والے اُن کی رہنمائی کے خواہاں اورنظرِ کرم کے منتظر تھے ۔مَیں سو چنے لگا کہ شہرِ ادب کی کرشمہ سازی بھی کیا عجب ہے ! کسی کو راکب بنا تی ہے توکسی کو مرکب اور نہ جانے کتنوں کو عبرت کا تازیا نہ لگاتی ہے ! میں جدھر بھی نظر ڈالتا، ادب کا بازار، بونے چوزوں کی کثرتِ تعداد سے گرم نظر آتا۔یکایک مجھے جوناتھن سوئفٹ کی مشہور طنزیہ فنتاسی ’’گولیورس ٹریول‘‘ یاد آ گئی اور محسوس ہوا کہ میں بھی کسی نامعلوم جزیرہ میں آ گیا ہوں جہاں یہ بونے مجھے بھی رسیّوں سے باندھ دینے پر مصر ہیں۔میں ابھی اس فنتاسی کے اثر میں ہی تھا کہ کچھ بونوں کی حرکتوں نے متوجہ کر لیا۔ مجھے اُن پر ہنسی آئی جو بغیر ریاضت کے چودھری بننے کے آرزومند تھے اور اپنے قلم سے دوسروں کا سر توڑ دینا چاہتے تھے۔میری ہنسی،اُس وقت حیرت میں بدل جاتی جب بونے چوزے انڈے سے باہر گردن نکا لتے اور پرواز کو مچلنے لگتے ۔ مَیں متفکر ہواکہ انہوں نے نہ صحبت اختیارکی، نہ تجربے حاصل کیے ،نہ دنیا دیکھی اور نہ ہی مشاہدے کو گلے لگایا، پھر ایسی اُونچی اُڑان کی خواہش ! لا حول ولا قوۃ !یہ کیسی حماقت ہے کہ چونچ میں حروفِ تہجی کا دانہ دبایا اور مر غ کے سامنے کھڑے ہو گئے ۔مر غ بھی حیرتی تھا کہ اِ س نسلِ نو کو کیا اور کیسے سمجھا ئے کہ حرفی دانے کو چونچ میں دبا لینا ہی ادب فہمی نہیں ہے ۔مَیں ٹہلتا گھو متا آگے بڑھتا رہا ۔ ابھی چندہی قدم چلا تھا کہ لو ٹن کبوتروں کی ایک جماعت نظر آئی ۔اُن کے پھَڑ پھَڑاتے پنکھ اور خوش مزاجی کی آڑ میں خو شامد اور چاپلو سی کی صفت صاف صاف نظر آرہی تھی ۔مگر اُن کی روحانی لوٹ پو ٹ سے باہر کی گندگی اندر سمٹ آئی تھی ۔ اُن کے تخلیقی ہنر کے سوتے خشک تھے مگر بغض ، حسد،انا اورعداوت کی کیتلی ابل رہی تھی ۔پیشانی پر پشیمانی کی کوئی لکیر نہیں تھی ۔کفش بو سی ہی اُن کا ایمان تھا ۔کر سی نشین کے چہیتے یہ لو ٹن کبوتر اپنی ہی اد ا ؤ ں پر فریفتہ تھے ۔جیسے ہی کوئی جیالا کرسی نشین کی صدائے بے بنیا د پر ضرب لگا تا تو یہ لوٹن کبوتر اُڑ اُڑ کر اپنی چونچ سے اُن پر حملہ کر دیتے اور کرسی نشین اپنے بال و پر سے جیالے کو اُس کے آخری انجام تک پہنچانے کی حد درجہ کوشش کرتے۔میں آگے بڑھتا رہا اور شہرِ ادب کی سیر کرتا ہوادربارِ ادب تک پہنچ گیا ۔ دربارِ ادب کی دنیا بھی کچھ کم عجیب و غریب نہیں تھی ۔ہر چار سمت بڑے بڑے تخت لگے تھے اور ہر تخت پر بلند قامت ادیب بیٹھے تھے ۔ہاتھوں میں قلم ،سرپر تاجِ غرور ، جسم پر لباسِ فاخرہ اور پا ؤں میں کتابِ جو تی تھی ۔آنکھوں میں نفرت اور دل میں عداوت کے زیرو بم تھے ۔میں سہم گیا اور صحن ِ فریادی میں جاکر کھڑا ہو گیا ۔تھو ڑی ہی دیر میں اندازہ ہو گیا کہ تخت پر بیٹھے سردارانِ ادب خود ایک دوسرے پر غضبناک ہیں ۔تنقید کے تیر اور بھالوں سے وہ ایک دوسرے کو مات دینے کی کو شش میں لگے ہیں ۔ہر تخت کی جانب سے تخلیق کے غبارے اڑتے اور تنقید کے تیر سے پھٹ جاتے ۔جو تخلیقی غبارہ ، تنقید کے تیر سے باز رہتا یا بچ نکلتا وہ گمنامی کے اندھیرے میں جاگرتا یا علمِ ادب پر لٹک جاتا ۔برسوں سے یہی تماشا ہوتا چلا آرہا تھا ۔ ادب کی اِس بُوم روایت کو توڑنے کی ہمت کسی میں نہیں تھی ۔لہٰذا مجھ جیسے فریادی کی کون سنتا ؟ میں نے چاروں دشاؤںمیں گھوم گھوم کر سلام پیش کیا اور کورنش بجاتا ہوا دربارِ ادب سے باہر نکل آیا ۔ پھر خیال آیا کہ ادب کی تنگ گلیوں میں بھی گھوم کر دیکھ لیا جائے کہ شاید دل کو تسلّی دینے والی کوئی بات نظر آجائے ۔ ناک کی سیدھ میں ایک گلی جاتی تھی ،میں اُسی پہ چل پڑا ۔ تھوڑی ہی دور گیا تھا کہ ایک دربانِ ادب سے ملا قات ہو گئی ۔صمیم ِ قلب سے اُس نے میرا استقبال کیا ،اشاروں سے بٹھا یا اور آنکھیں بند کرلیں ۔ میں غور سے اُسے دیکھتا رہا کہ شاید اب گویا ہو مگر وہ کمبخت بے حد کم گو اور کم کوش تھا ۔اس کے بدن پر پھٹی ہوئی ردائے ادب تھی جس سے اُس کے استغنا کا حال معلوم ہو تا تھا ۔وہ حق گوئی اور بے باکی کا طرف دار تھا جیسا کہ بوقت استقبال خو د اُس نے بتا یا تھا، مگر اُس کے آ س پاس باطل کی بالا دستی تھی اور جن سے، اُس نے اپنی آنکھیں بچا رکھی تھیں ۔ادبی سرمائے کے نام پر اُس کی دنیا بہت محدود تھی ۔ اُس کے مرید نے مجھے یہ بھی بتایا تھا کہ وہ کسی سلطانہ کی سرپرستی میں ہیں اور انہیں کے اشاروں پر ادب کو صیقل کر نے کی کو شش میں لگے ہیں اور وہ بھی اُس سلطانہ کی سرپرستی میں جس کے تخلیقی سوتے پہلے ہی سے خشک ہیں ۔مجھے یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ سوال در سوال کا عادی ہے مگر جواب تلاش کرنے میں اُس کی کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ ابھی اُس دربانِ ادب کی مذکورہ خوبیوں پر غور کر ہی رہا تھا کہ میں نے محسوس کیا کہ اُس کی بند آنکھیں رہ رہ کر کھلتیں اور پھر بند ہو جاتیں اور جب کھلتیں تو اُس میں ایک قسم کی چمک پیدا ہو جاتی ۔ایسی چمک جو عموماً عیّارو مکّار کی آنکھوں میں ہو تی ہے ۔اُس کے ایک رفیق نے مجھے یہ بھی بتایا تھا کہ وہ دربار داری کو نا پسند کر تا ہے مگر میں نے محسوس کیا تھا کہ اُس میں تنہا کچھ کر گزر نے کی سکت نہیں تھی ۔وہ قلم کو تلوار بنا نا چاہتا تھا مگر تدبیر کے آداب سے ناواقف تھا ۔ در اصل وہ آرام کے بستر پر ادب تخلیق کرنا چاہتا تھا مگر تخلیقی غبارے پھلانا نہیں جانتا تھا ۔تنقید اُس کا حربہ ٔ خاص تھی مگر وہ اُس کے طریقِ استعمال سے عاری تھا ۔وہ اپنی تنقید پر سان چڑھا تا اور سوال سے اُس کی پیشانی پوچھتا مگر بصیرت کو آزمانے سے ڈر تا تھا ۔ مجھے یقین ہو گیا کہ اُس کا قلم خشک اور وہ خود خاشاک ہو چکا ہے ۔قول و فعل کے تضاد سے اُس کی شخصیت غمناک ہو چکی تھی ۔وہ تو انائے غلط میں مبتلا تھا جہاں یہ خیال اُس کے ذہن میں بار بار مِردنگ بجاتی تھی کہ وہ مسلکِ ادب کا غوث ہے اور مستغرق رہنا ہی اُس کی ادب نوازی ہے ۔شہرِ ادب کی یہ دنیا ایسے کسوف العقل اور خسوف الفہم لوگوں سے بھری پڑی تھی۔ اُس کی شخصیت کے اِس جوہر سے واقف ہوتے ہی میں نے اُس کے لیے غذائے ذہن کے بجائے غذائے شکم نذر کر کے آگے بڑھ گیا۔ادب کی گلی میںچند قدم چلنے کے بعد راستہ دو سمتوں میں بٹ گیا ۔میں سوچنے لگا کہ اب کدھر جاؤں ۔ پھربزرگوں کی کہی بات یاد آئی کہ نیک کا م ہمیشہ داہنے ہاتھ سے کیا کرو، تومیں نے بھی دا ہنی طرف قدم بڑھادیے۔میلوں میل سرِدست سنّاٹا تھا ۔نہ کوئی آوازِ جنوں اور نہ کوئی صدائے ادب ۔ تھک کر میں ایک درخت کے سائے میں بیٹھ گیا ۔تب ہی نیند نے آگھیرا ۔ذہن میں ایک خواب نمو دار ہوا ۔دیکھتا کیا ہوں کہ ایک کوتاہ قد سفید پو ش بزمِ ادب کے دروازے سے داخل ہونے کے بجائے بار بار روشن دان سے اندر باہر آجا رہا ہے ۔چند مصاحب اُس کی آمد و رفت پر سلام بجا تے اور وہ سفید پوش مسکراکر اُن کی طرف بنت العنب کی چھینٹیں اُڑا دیتا ۔میں اُس کی اِس حرکت پر حیران تھا کہ یہ ماجرا کیا ہے؟ میں نے ہمت کر کے ایک مصاحب سے سفید پوش کے بارے میں پو چھنا چاہا ۔پہلے تو اُس مصاحب نے غصے سے دیکھا پھر بو لا ۔کیا تم حضرت کو نہیں جانتے ؟پیر کو نہیں پہچانتے ؟میں نے معصومیت کا اظہار کیا اور کہا کہ حضرت میں تو مسافر ِ ادب ہوں ،پہلی بار دیارِ ادب میں آیا ہوں ۔مصاحب نے غور سے میری آنکھوں میں دیکھا ۔پھر اُسے یقین ہوگیا کہ میں سچ کہہ رہا ہوں۔میں نے پھر آہستہ سے سفید پو ش کی حرکتوں کا ماجرا جاننا چاہا ، پہلے تو وہ خاموش رہا پھر اُس نے مسکراتے ہوئے کہا کہ یہ روشن دان نہیں ہے بلکہ ادب کے ہر مشکل کو آسان کرنے کا ذریعہ ہے ۔میں پھر کشمکش میں پڑگیا کہ یہ روشن دان، ادب کے ہر مشکل کو آسان کرنے کا ذریعہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ میں کچھ کہتا اس سے قبل ہی مصاحب بولا در اصل یہ ادب کا چور دروازہ ہے ، آسان اور عافیت دینے والا ۔یہاں سے ادب کی دنیا میں داخل ہو نے والا زیبِ منبرہو تا ہے اور نا اہل کو بھی قوت و جبروت حاصل ہو جاتی ہے ۔اِس راستے سے نہ جانے کتنے ہیں جو منصبِ عالیہ پر فائز ہو چکے ہیں۔پھر وہ بڑے رازدارانہ انداز میں بولا، تم نے دیکھا نہیں کہ ادب میں ایمانداری کا پر چم بلند کرنے والوں کا انجام کیا ہو تا ہے؟جینون فنکار کی حالت کیا ہوتی ہے؟ ارے بھائی! جوہرِ ذاتی توہمیشہ اور ہر زمانے میں خوار ہی رہتا ہے اور کیا یہ بھی نہیں جانتے کہ اہل ِ حق ہمیشہ بالائے دار ہی رہتے ہیں!میں مزید کچھ پوچھتا اُس سے قبل ہی وہ سفید پوش کی خدمت میں چلا گیااور میری نیند کُھل گئی۔میں آنکھوں کو مل کر اِدھر اُدھر دیکھنے کی کو شش کرنے لگا ۔ایک عجیب سا سنّاٹا چاروں طرف پسرا ہوا تھا ۔ میں تیز قدموں سے اُس سنّاٹے سے دور ہو جانا چاہتا تھا۔ابھی تھوڑی ہی دور گیا تھا کہ ایک پتلی لمبی گلی نظر آئی۔میں گلی میں داخل ہونا ہی چاہتا تھا کہ محسوس ہوا کہ کوئی شور اُس سنّا ٹے کی پشت پر ضرب لگا رہا ہے ۔ کسی ادبی محفل کا خیال کر کے میں اُس آواز کی طرف بڑھ چلا ۔تھوڑی دیر کے بعدجب میں اُس آواز کے قریب پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ بے پردہ نشینوں کا ایک جھنڈ بیٹھا ہوا ادبی سنگیت بُن رہا ہے اور نسائی ادب کے نقارے بجائے جارہے ہیں۔کچھ ہی دیرمیںمجھے اندازہ ہو گیا کہ ادبی سنگیت بُننے والے جب اجتمائی آواز میں کسی موضوع کو آگے بڑھا تے تو سنگیت کی لَے بڑھ جاتی اور جب اپنی اپنی ڈفلی بجانے پر آمادہ ہوتے تو میّت پربغیر آنسو کے رونے کامنظر جاگ اُٹھتا ۔ میں ایک کونے میں دُبک کر اُن کی حرکتوں پر نظر جمانے کی کوشش کرنے لگا۔دیکھتا کیا ہوں کہ اُس شور میں کوئی بھی کسی کو برداشت کرنے پر آمادہ نہیں تھا۔مرد و زن کی دست درازیاں بے قابو ہو رہی تھیں۔ رہ رہ کر ایک دوسرے پر دانت اور ناخن نکل آتے۔سفید اور کالے بے ترتیب بال ہوا میں لہرانے لگتے اور ایک دوسرے کے چہرے پر اِس طرح پڑتے جیسے پرندے آپس میں لڑتے ہوئے ایک دوسرے پر پَروں سے وار کرتے ہیں۔کبھی کبھی ایسا منظر بھی اُبھرتا کہ سفید بالوں والی رِنگ ماسٹر بن جاتی ،کا لے بالوں والی بچنے بچانے کے راستے تلاش کرتی اور کا لے اور سفید سے مرکّب بالوں والی ڈائن کا روپ دھار لیتی ۔چھوٹے قد کی ڈائن ،بڑے قد کی ڈائن کو باربار شکست دیتی، اُسے کا ٹتی ، نوچتی اور پھر ٹھنڈی آہیں بھر کر’ باندی بچّہ‘ کو اٹھا کر اپنے حرم میں لے جاتی ۔بھوک مٹاتی اور باہر آکر پھر کسی ’باندی بچّہ‘ کے شکار پر لگ جاتی ۔بڑے قد کی ڈائن کو بھی کبھی کبھی’ باندی بچّہ‘ چرانے کا مو قع مل جاتا ۔وہ بھی اپنی پیاس بجھا کر واپس میدان ِ ادب میں کُھل کھیلنے آجاتی ۔ادب کی دنیا میں جب سے خباثت نے قدم رکھا تھا ،ادب کی دنیا ہی بدل گئی تھی ۔اُن کی وحشت اور بد عملی سے دنیائے ادب انگشت بدنداں تھی ۔حسرت اور وحشت کا درمیانی فاصلہ کم ہو گیا تھا ۔ شکا ر کیجئے یا شکار ہو جائیے کی طرزپر کارواں رواں تھا ۔ میں نے سوچا کہ جتنی جلدی ہو سکے اِن کے درمیان سے دور ہو جانا چاہئے ورنہ کیا پتا میں بھی کسی کا شکار بن جاؤں ! میں تیز قدموں سے اُس محفل سے دور نکل آیا ۔تھوڑی دور چلنے کے بعد ایک کوچہ نظر آیا ۔ میں کوچہ در کوچہ ادبی محفلوں کا نظارہ کر تا ہو ا آگے بڑھتا رہا ۔ دم لینے کے لیے کسی معقول جگہ کی تلاش میں نظریں گھما ہی رہا تھا کہ ایک ادبی ٹولی نے آگھیرا ۔ مجھے آرام چاہیے تھا مگر اُن کی مو جود گی سے مجھے وحشت ہو رہی تھی ۔سوچنے لگا کہ ماضی کے عیّار سجن سے جیسے تیسے توجان بچی تھی، اب یہ حال کے اندھے گلے پڑگئے ! اُس ادبی ٹولی میں سے ایک نوجوان بہت تیزی سے میری جانب لپکا ۔ قریب آیا، مصافحہ کیا ، دم گُھٹی آواز میں کچھ کہا اور چِھدرا کر چلنے لگا ۔ میں نے دیکھا کہ اُس کے دونوں گال ضرورت سے زیادہ سوجے ہوئے ہیں ۔ایسا معلوم ہو تا تھا کہ اُس نے دونوں کلّوں میں کچھ دبا رکھا ہے ۔بولنے کی ہر کو شش میں اُس کی آوازباہر نکلنے کے بجائے اندر ہی گھٹ گھٹ کر گردش کرتی اور کلّوں سے ٹکراکر ہنکار میں بدل جاتی ۔ دونوں نتھنے اِس طرح پھیلتے سکڑتے تھے جیسے کسی سانڈھ نے لال رنگ دیکھ لیا ہو ۔میں نے محسوس کیا کہ وہ قلم سے زیادہ قلمدان کا شائق ہے۔اُس کی ہوس پرور آنکھیں مچل مچل کر قلمدان کا تعاقب کرتیں اور موقع ملتے ہی سیاہی کا استعمال کر لیتیں۔ ادب کی چولی کَسنے اور کبھی اُتار پھینکنے پر آمادہ، اُس شخص کی اِس عجیب و غریب حرکتوں سے مجھے کو فت ہو نے لگی اور وحشت کا مجھ پر ایسا اثر ہوا کہ میرے خیالات جواب دینے لگے۔ اگر یہ محض رخنہ ٔ خیال ہوتا تو اور بات تھی مگر اِس ختنہ ٔ خیال سے میرا جی گھبرانے لگا ۔میں نے ہمّت جُٹائی اور آگے چل پڑا ۔ آگے بڑھتے ہی چند لوگوں کا جم گھٹا نظر آیا ۔معلوم ہوا کہ یہ جم گھٹا دو ادبی مسلک پر باہم دست و گریباں ہے ۔اُس جم گھٹے میں ایک بڑے سَر والا شاطر بھی تھا جو ترقی پسندی کے دروازے پر کھڑا تھا اور جدّت پسندی کی کھڑکی سے جھانکنے کی کوشش کر رہا تھا ۔اُس شخض کو دیکھنے سے ہی اندازہ ہو تا تھا کہ وہ اپنی ذات سے مطمئن نہیںہے ۔بے چینی اور اضطراری سے اُس کا چہرہ اٹا ہوا تھا ۔ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ وہ زندگی سے بہت کچھ چاہتا ہے مگر اُس کی امید سے کہیں کم اُسے نصیب ہو ا ہے ۔وہ بہت جلدی جلدی سب کچھ اپنے دامن میں سمیٹ لینا چاہتا تھا مگر اُس مردِ ناداں کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی تھی کہ عزت اور ادب کا خزانہ جلدی ہاتھ نہیں آتا ۔ وہ اپنی دُھن میں ترقی پسندی کے دروازے پر اُچھلتا،بجلی کی طرح چلنے والی آنکھوں کو نچاتا اور جدّت پسندی کی کھڑکی سے جھانک جھانک کر ادب کے شائقین کو متأثر کرنے کی کو شش کرتا ۔ سارے کے سارے نوچ لینے کی دُھن اُس میں ایسی سمائی تھی کہ لباسِ ناموس تار تار ہو چکا تھا ۔ نٹور لال، چارلس شوبھراج،ہرشد مہتا ، عبد الکریم تیلگی جیسے لوگ ہی اُس کے آدرش تھے۔ وہ تھوڑی ہی دیر میں دروازے سے باہر نکل آیا اور سیاست کی منڈیر پر چڑھ گیا۔اُس کے چاہنے اور نہ چاہنے والوں کی جماعت اُس کے اِرد گرد جمع ہوگئی ۔ ایک دیرینہ رفیق کو اُس نے اپنے پاس بلا یا ۔وہ رفیقِ دیرینہ مخروط الجسم اور منحوس المزاج تھا ۔شانہ بہ شانہ کھڑا ہو گیا ۔اُس کی آنکھوں میں ایک چمک تھی جو اُس کے سُرخ چہرے سے ظاہر ہو رہی تھی۔رہ رہ کر اُس کی مونچھیں تن جاتیںاور بال کھڑے ہوجاتے جیسے کتّے کو دیکھ کر بلّی کے بال کھڑے ہو جاتے ہیں ۔سیاست کی منڈیر پر چڑھتے ہی وہ فارسی میں شعر پڑھنے لگا۔ایک مصرعہ کسی شعر کا دوسرا مصرعہ کسی شعر کا ۔ اگرکوئی مکمل شعر سناتا تو شعر کو کسی دوسرے شاعر سے منسوب کردیتا ۔ تلفظ کی قید سے آزاد اور اپنی لغت کا خود ہی موجد نظر آتا تھا۔ وہ ادب کا اقبال بلند کرنا چاہتا تھا مگر ادب کا بوجھ اُس سے اٹھائے نہیں اٹھتا تھا۔لوگوں نے بتایا کہ یہ شخص مضمونی گدگدی سے ہی اپنا دل بہلا لیا کرتا ہے۔جدّت پسند شخص نے فوراً عربی کا قاعدہ اُس کے سپرد کیا اور ’’شرُّالبریّہ‘‘ کی تعلیم کا حکم دیا۔اشارہ پاتے ہی وہ مخروط الجسم خوشی سے ناچنے لگا۔ پھر جدّت پسند شخص نے دوسرے شخص کو اشارہ کیا۔وہ شخص ایک عربی داں تھا ۔اُسے فارسی کا نصاب تھما دیا گیا ۔ جدّت پسند شخص کی اِس جدّت پسندی پر وہ عربی داں بھی حیران تھا، مگر اُس کی خاموشی بہت کچھ کہہ رہی تھی۔ تبھی تیسرے شخص کو جو غالباًپیدائشی نابینا تھا، اُس کو متن خوانی پر مامور کیا۔ ایک بہرے کو سوال و جواب کے اجلاس کی ذمہ داری سونپ دینے کے بعد وہ سیاسی منڈیر سے اپنے مجدّد ہونے کا اعلان کرنے لگا۔میں نے سوچا کہ اگر مزید کچھ دیر رُکا تو یقیناً میرے حوالے بھی کچھ کر دیا جائے گا۔ لہٰذا میں چپکے سے وہاں سے نکل گیا ۔اُس جم گھٹے سے باہر نکلتے ہی ایک بے ہنگم ہجوم نظر آیا ۔قریب پہنچا تو دیکھا کہ خواتین کا ایک جلوس ہے جو ادب میں لال ادب کی بالا دستی کا متمنی ہے۔یہ جلوس اپنی آرزوؤں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے باربار اپنے ہاتھوں میں لال رنگ کی جھنڈی کو ہَوا میں لہراتا۔ہَوا میں جھنڈی کے لہراتے ہی نسوانی نعروں کا کورَس گونج اٹھتا ۔ اُمس سے بھری گرمی میں نعرے گُھٹ گُھٹ کر نکلتے اور پسینے کی بُودور تک ہَوا میں پھیل جا تی ۔ مجھے نسائی جلوس کی اِس لال سلامی پر قطعی اندیشہ نہیں تھاکیو ںکہ دادی حوّا تو آدم ہی کی بائیں پسلی سے پیدا ہوئی تھیں ۔ متذبذب اِس بات پر تھا کہ وہ اپنی آواز کو پرِپروازعطا کر نے کے لیے سُرخ رنگ کی جھنڈی کیوں لہرا رہی ہیں ؟ابھی اِس اُدھیڑ بُن میںہی تھا کہ ایک لینن سے مشابہ شخص نے مخاطب کیا اور میری پریشانی پوچھنے لگا۔پہلے تو میں نے اُسے نظر انداز کرنا چاہا مگر مکرّر اصرار پر میں نے اپنی پریشانی بتائی تو وہ بڑے منطقی انداز میں بولا:دیکھو میاں! اِس دوپہر کی گرمی میں کنوارے بھگوان پَون پُوترہنومان کی حمایت بغیر سُرخ جھنڈی کے حاصل تو ہو نہیں سکتی !بس سُرخ جھنڈی کا راز پا تے ہی میں وہاں سے چل پڑا ۔اِس طرح ادب کی اگلی پچھلی بہت سی گلیوں کی خاک چھاننے کے بعد مجھ پر ادب کی بوقلمونی کا راز فاش ہوتا چلا گیا اور میں یہ سمجھ گیا کہ ادب کے اِس طلسم ِرنگ وبُو کو توڑ سکنا اتنا آسان نہیں ہے۔
ژژژژ
9899754685
[email protected]