درد سے لفظوں تک کا سفر- The journey from pain to words

0
109
 The journey from pain to words
گل گلشن

آج وہ کافی عرصے بعد گھر آئے تھے۔میں نے چائے کا کپ ان کو دیا۔ایک لمحے کے لئے پرانی یادیں فلم کی طرح ذہن میں چلنے لگی۔ہم دونوں کی پسند کی شادی تھی۔لیکن وہ پسند صرف شادی ہونے تک برقرار رہی چند سالوں بعد ہی انھیں کوئی اور پسند آ گئی۔اب کیونکہ بچوں کی وجہ سے ہم الگ نہیں ہو سکے۔تو بس ہمارا رشتہ کبھی کبھی کی ملاقات پر مشتمل تھا ۔آج ان کا انداز کچھ بدلہ ہوا سا تھا۔نہ پہلے سی اکڑ تھی اور نہ وہ غرور۔میں یہی سب سوچتے ہوئے ان کو دیکھ رہی تھی۔تبھی انہوں نے ہی شروعات کی۔”مبارک ہو ۔۔پڑھا میں نے تمہارے بارے میں ۔۔کافی مشہور ہو گئی ہو۔لوگ دیوانے ہیں تمہارے قلم کے اور تم واقعی اچھا لکھتی ہو ۔ لیکن اس بات کا پورا کریڈٹ مجھے جاتا ہے۔” یہ کہہ کر وہ ذرا خاموش ہوئے اور مجھے بغور دیکھنے لگے۔شاید وہ چاہتے تھے کہ میں ان سے پوچھوں کہ میری کامیابی کا کریڈٹ انھیں کیسے جاتا ہے۔لیکن میں ویسے ہی پرسکون تھی جیسے یہ کوئی انوکھی بات نہ ہو۔کیونکہ میں بھی بہت اچھی طرح واقف تھی۔کہ واقعی کریڈٹ اسی شخص کو جاتا ہے۔ کیونکہ وہی تو ہیں جس نے مجھے خود سے ملایا۔ہم جب کسی سے محبت کرتے ہیں ۔اس وقت ایسا لگتا ہے کہ یہ دنیا بڑی خوبصورت ہو گئی ہے۔لیکن اس میں سامنے والے کا کوئی دخل نہیں ہوتا بلکہ ہم خود ہی ایسا محسوس کرتے.وہ کہتے ہیں نہ اندر کا موسم اچھا ہو تو باہر کے موسم خوبصورت لگتے ہیں.لیکن یہ اندر کا موسم صرف وقتی طور پر خوشنما ہوتا ہے کیونکہ دنیا کی تمام لذتیں عارضی ہوتی ہیں۔اصل لزت صرف رب کے عشق میں ملتی ہے ۔اور یہی لزت، عزت اور شہرت میں تبدیل ہو جاتی ہے۔اور یہی وہ مقام ہے جب انسان خود کو پا لیتا ہے۔ خیر میں سوچ میں گم تھی اور وہ اپنی بات کی تائد چاہتے تھے۔اسی لئے مسلسل میرا چہرہ دیکھ رہے تھے۔ “جی آپ نے بلکل درست کہا۔واقعی میری کامیابی کے پیچھے آپ ہی کا ہاتھ ہے۔لیکن کمال کی بات یہ ہے جس انسان کو آج تک میرے کسی احساس کا احساس نہیں ہوا۔اسے آج یہ احساس کیسے ہو گیا۔کہ وہ میری کامیابیوں کی وجہ ہے۔”میں سب جانتی تھی۔پھر بھی ان کے زبان سے سننا چاہتی تھی اس لئے ان سے پوچھا۔وہ کچھ دیر تک سوچتے رہے پھر مسکرا کر بولے۔” کیونکہ مجھے پتہ ہے کہ کسی بھی کلام میں لوگ سچائی پسند کرتے ہیں۔اور سچ لکھنے کے لئے درد لکھنا پڑتا ہے اور وہ درد جو تمہارے کلام میں جا بجا دکھتا ہے وہ درد تمہیں میں نے دیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ تم اتنی اچھی لکھاری بن گئی۔” ان کی بات سن کر میں مسکرائی۔”تو پھر ایک بات بتا دیں کیا مجھے اور اچھا لکھاری بننا ہے یا درد دینے کا سلسلہ اب رک جائے گا۔”میری آنکھوں میں آنسوں اور ان کی نگاہوں میں پچھتاوا تھا ۔وہ بنا کچھ بولے اٹھ کر چلے گئے اور مجھے جواب مل گیا کہ مجھے ابھی اور اچھی لکھاری بننا ہے۔
ممبئی

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here