عالمی برادری و ہندوستانی الکٹرانک میڈیا-The international community and Indian electronic media

0
188

The international community and Indian electronic media

خورشید  رضا فتح پوری
مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان اختلافات بلکہ دشمنی و عداوت کی تاریخ بہت پرانی ہے جناب یوسف  پیغمبر کے بارہ بھائیوں میں ایک بھائی یہودا بھی تھا ۔جب جناب یوسف نے اپنے بھائیوںکومعاف کردیا تو ایک دن جناب یوسف کا جاہ و جلال دیکھ کر یہ سوال اٹھا کہ قوم بنی اسرائیل کس کے نام سے چلے گی؟یہودا نے اختلاف کرتے ہوہے کہا کہ بنی اسرائیل کی تاریخ یوسف  کی نہیں بلکہ یہودا کی نسل رقم کرے گی۔یہودی اُسی یہودا کی نسل سے ہوئے آگے چل کر جناب اسحاق  سے یہ نسل آگے بڑھی ۔آغاز اسلام سے لیکر تکمیل دین اسلام تک اوراسکے بعد ھی جتنی اسلامی جنگیں وغزوات ہوئے اُن میں زیادہ تر جنگیں یہودیوں سے ہوئیں اور مسلمانوں نے یہ جنگیں دفاعی طور پر ہی لڑیں۔’’جنگ خندق‘‘ میں امر ابن عبد ود پیغمبر اسلام  کے خیمے تک پہنچ گیاتھا۔اور خیمہ میں نیزہ چبھاکر للکار رہاتھا جسکے تدارک کے لئے پیغمبر نے حضرت علی  کو بھیجا تھا۔انہوں نے اسے واصل جہنم کیا تھا۔ اسی طرح ’’جنگ خیبر‘‘ بھی یہودیوں سے ہی ہوئی تھی ۔جس میں قلعہ خیبر کا ۳۹روزہ محاصرہ کرنے کے بعد مولاعلی  نے مدینے سے آکر چالیسویں روز خبیر کا دروازہ دوانگلیوں سے اُٹھاکر اکھاڑ پھینکا تھا۔ اور مسلمانوں کو فتح و ظفر حاصل ہوئی تھی۔ یہاں مسلمانوں اوریہودیوں کی تاریخ بیان کرنا مقصد نہیں ہے۔ محض یہ اشارہ کرنا تھا کہ یہودیوں کے خون میں مسلم دشمنی رچی بسی ہوئی ہے۔جسکی آگ کبھی ٹنڈی نہیں ہوتی۔
یہودیوں کی فطرت ظلم ،دھوکہ ،مکاری ہے چنانچہ ایک بار انگلینڈ کے تاناشاہ ’’ہٹلر ‘‘نے کہاتھا کہ میں نے دس فی صد یہودیوں کو زندہ اس لئے چھوڑ دیاہے ہے تاکہ آئندہ لوگ سمجھ سکیں کہ میں نے اس قوم کے لوگوںکاقتل عام کیوں کیاتھا اور تب وہ میرے اقدام کوسمجھ سکیں گے ۔
عہد حاضر میں جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے یہی دیکھا اور سنا ہے کہ اسرائیلی و فلسطین میں جنگی جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔اسرائیل نے ہمیشہ گولہ بارود کاسہارا لیتے ہوئے فلسطینی مظلوم عوام پرظلم و ستم ڈھایاہے۔ غرضکہ اسرائیلی جارحیت کوئی نئی نہیں ہے۔مگرسلام ہوان جانباز مجاہدین اسلام پر جوہمت و جرأت شجاعت و بہادری پرجگری اورجذبۂ قربانی کے ساتھ اسرائیلی جارحیت کے خلاف سینوں کو تانے ہوئے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑے رہے اور مسجد اقصیٰ کے تحفظ میں جانوں کی بازی لگائے ہوئے ہیں۔حالیہ جنگی حالات میں اسرائیل نے تمام بین الاقوامی قوانین اور انسانیت کو طاق پر رکھتے ہوئے فلسطینیوں پرآگ برسانے کی حدیں پار کردیں۔ ایک ایک رات میں ہزاروں بم رہائشی علاقوں پر گرائے جارہے تھے۔فلسطینی آسمان و زمین دونوں پرآگ ہی آگ نظرآرہی تھی۔ عمارتیں تباہ وبرباد ہورہی تھیں۔ فلسطینی زمین خون سے رنگین ہورہی تھی ۔بے گناہوں کی جانیں جا رہی تھیں ۔جن میں سیکڑوں عورتیں اوربچے شامل تھے۔ ان انسانیت سوز حرکتوں پرشرمندہ ہونے کے بجائے اسرائیلی صدر’’بنجامن نیتن یاہو‘‘ یہ کہتے ہوئے نہیں تھک رہے تھے کہ جب تک حماس اسرائیل پر راکٹوں سے حملے بند نہیں کرتا تب تک وہ فلسطین میں بمباری کرتے رہیں گے۔
افسوس ہے کہ فلسطین کی حمایت جمہوریت کی پاسداری کاناٹک کرنے والا ملک امریکہ تھا ۔دیگر مغربی ممالک بھی اسکا ساتھ دے رہے تھے۔امریکہ نے حماس کو دہشت گروتنظیم قراردے رکھاہے۔ اگرچہ ’’حماس‘‘ دہشت گرد تنظیم نہیں ہے۔کیوںکہ دہشت گردی بے وجہ و بے قصور لوگوں کے خون بہانے کو کہتے ہیں جبکہ ’’حماس‘‘ بالکل ایسانہیں کرتا وہ تو فلسطین کی آزادی کے لئے جد و جہد کرنے والی ایک عسکری تنظیم ہے۔جسکے پاس اسر ائیل جیسے طاقتور ملک سے لڑنے کے لئے اسلحہ بھی نہیں ہے۔افسوس ہے کہ امریکہ اور اسکے ہم نوا ممالک کو ’’مجاہد‘‘ اور’’دہشت گرد‘‘کافرق بھی نہیں معلوم ہے۔ انکے زہن ناقص میں ’’حماس‘‘ اور’’داعش ‘‘ ایک جیسے ہیں ۔یہ تو یہ امریکہ تو اسلامی جمہوریہ ایران کے کمانڈر ابولقاسم سلیمانی کوبھی دہشت گرد کہتاتھا۔جبکہ دنیا میں سب سے بڑا دہشت گرد خود امریکہ ہے۔ایران بالکل صحیح طورپراسے ’’شیطان بزرگ‘‘ کہتاہے۔موجودہ حالات میں خوش آئند بات یہ ہوئی تھی کہ فلسطین کے مسئلہ پر۵۷ مسلم ممالک ایک پلیٹ فارم پر نظر آئے تھے۔ ان میں کچھ کارویہ تونرم نظر آیا لیکن’’ ایران‘‘ اور’’ترکی ‘‘نے بہ بانگ دہل اسرائیل کے خلاف کاروائی کرنے کا عزم ظاہرکیاتھا۔ اورعملی طورپربھی وہ فلسطینی مظلوموں کے ساتھ رہا۔ایران کی ترغیب پر’’لبنان‘‘ اور اسرائیل کے سرحد سے قریب ممالک نے بھی کچھ تعاون کیا ۔مگر ابھی وہ سب کچھ نہیں ہواتھا جوابتک ہوجاناچاہئے تھا۔ یعنی مسلم ممالک کو اسرائیل سے اپنا رشتہ توڑ لینا چاہئے تھا ۔ سفارتی تعلقات ختم کرلیانا چاہئے تھے۔ اور فلسطین کی حمایت میں عملی اقدامات کرناچاہئے تھا۔مسلم ممالک کو مغرب سے سبق لینا چاہیے کہ کس طرح فلسطین کے مسئلہ میں اسرائیل کی حمات میں سارے مغربی ممالک یورپ امریکہ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ جن میں اسرائیل ، برطانیہ ،فرانس ،جرمنی، برازیل وغیرہ وغیرہ سرفہرست ہیں۔
جہاں تک ہندوستان کاتعلق ہے تو ہمارے ملک نے بہت محتاط رویہ اختیار کیا جیسا کہ سکیورٹی کانونسل میں اسکے بیان سے ظاہر ہوتاہے ہندوستان نے فلسطینیوں کے مطالبات کودرست ٹھہرایا۔اسرائیلی بمباری میں فلسطینی لوگوں ،عورتوں اور بچوں کی ہلاکت پرافسوس ظاہرکیا ہے۔ ساتھ ہی ’’حماس‘‘ کی طرف سے اسرائیل پرراکٹس داغے جانے کو اچھانہیں کہا تھا۔ افسوس ہے کہ ہندوستان کے موقف کے خلاف خود ہندوستانی الیکٹرانک میڈیا کارویہ درست نہیں رہا۔بلکہ دنیا بھر کے نہ صرف مسلمانوں بلکہ انصاف پسند اور درد مند دل رکھنے والوں کے لئے تکلیف پہنچانے والا رہاہے۔ ہندوستانی چینلس کے اینکرس حماس کو آتنگی کہتے ہوئے نہیں تھکتے۔خبروں کو اس طرح پیش کررہے تھے جن سے بخوبی اندازی ہوتاہے کہ انکی ہمدردیاں فلسطینی مظلوموں کے ساتھ نہ ہوکر ظالم و بے رحم اسرائیل کے ساتھ رہیں۔جیساکہ کہاجاچکا ہے کہ لوگ ’’مجاہد‘‘ اوردہشت گرد کافرق ہی نہیں سمجھتے۔اگریہ اینکرس ۱۹۴۷؁ء سے پہلے ملک کی جد و جہد آزادی میں پیداہوئے ہوتے تو شائد یہ مجاہدین آزادی سردار بھگت سنگھ، چندرشکھر آزاد ،اشفاق اللہ خاں، رام پرشاد بسمل وغیرہ کو آتنگ وادی ہی کہتے ۔’’ریپبلک بھارت‘‘ ٹی وی چینل کے ایک اینکر کو میں نے دیکھا کہ فلسطین واسرائیل کی جنگی تناظر میں اسکی تاریخ یوں بیان کررہے تھے کہ دونوں ملکوں کے درمیان وہ ۳۵ ایکڑ زمین کارقبہ ہے جس پرمسجد اقصیٰ بنی ہوئی ہے۔ یعنی انکی نگاہ میں مسجد اقصیٰ کی تاریخی و مذہبی حیثیت کچھ نہیں ہے۔محض ۳۵ایکڑ زمین ہے۔یہ اتنی بڑی جہالت اوربیوقوفی کی بات ہے جسے عقل تسلیم نہیںکرتی اور کسی پڑھے لکھے سمجھدار آدمی سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ اسرائیل و فلسطین کے اس خونی تصادم کی وجہ محض ۳۵ایکڑ رقبہ زمین سمجھے۔انڈین الکٹرانک میڈیا کو پروگرام نشر کرنے سے پہلے صداقت معلوم کرلیناچاہئے تھی۔
حقیقت یہ ہے کہ فلسطین سرزمین انبیا ء رہی ہے۔اس پرب بنی اسرائیل کے بھی بہتر سے نبی آئے ہیں اس پرمسلمانوں کاقبلۂ اوّل (بیت المقدس) ہے ۔ جسکی طرف سے رخ کرکے ساری دنیا کے مسلمان نماز پڑھاکرتے تھے۔جس طرح آج خانۂ کعبہ (سعودی عرب) کی طرف رخ کرکے نماز پڑھی جاتی ہے۔اس سرزمین پر یہودی پناہ گززینوں کی طرح آئے تھے۔جن کو مسلمانوں نے ہی پناہ دی تھی ۔دھیرے دھیرے وہ اس پرقابض ہوتے گئے ۔یہاں تک کہ ۱۹۴۸؁ء میں امریکہ اوریورپ نے اس کو دو حصوں میں تقسیم کردیا تھا۔ مسلمانوں نے صبر کرتے ہوئے خون خرابہ نہ ہو اس لحاظ سے کیمپ ڈیوڈ فارمولے کے تحت اسے قبول کرلیاتھا۔ اسکے باوجود سامراجیت پسند اسرائیلی حکومت مزید زمین پر قبضہ پڑھاتی جارہی ہے۔مسلمانوں کے لئے زمیں تنگ ہوتی جارہی ہے۔ مسجد اقصیٰ جسکی نسبت رسول اسلام  کی معراج سے بھی ہے اورجومسلمانوں کے لئے خانۂ کعبہ جیسی ہے اس میں مسلمانوں کے نماز ادارکرنے میں رکاوٹیں کھڑی کی جارہی ہیں۔اُن پرظلم و ستم کے پہاڑڈھائے جاتے ہیں۔ آئے دن جھڑپوں میں مسلمان نوجوانوں کی شہادتوں کی خبریں موصول ہوتی رہتی ہے۔ مسلمانوں پر مظالم میں شدت اس وقت سے اور بڑھ گئی جب سے امریکہ کی مدد سے اسرائیل نے’’ یوریشلم ‘‘کو دارالحکومت قرار دیا جبکہ اس سے قبل’’ تل ابیب‘‘ اسرائیل دارالحکومت تھا۔ غرضکہ فلسطینی مسلمان اپنے حقوق کی پامالی ، اپنے ساتھ ہو نے والی زبردستی اور مظالم ،قہرسامانیوں کے خلاف جد و جہد کرنے پر مجبور ہیں ۔ وہ اپنے وجود کو باقی رکھنے کی جنگ لڑتے ہیں۔ انہیں میں ایک گروہ’’ حماس‘‘ تنظیم بھی ہے۔یہ کہاں کا انصاف ہے کہ کسی کی زمین یاگھر پرزبردستی قبضہ کرلیا جائے اور جب وہ شخص مزاحمت کرے تواسے ہی دہشتگرد کہا جائے۔بڑے افسوس کی بات ہے کہ اگر اسرائیل میں حماس کامیزائل گرنے سے نقصان ہوا تو اس پر توہندستانی الیکٹرانک میڈیا افسوس کرتا نظرآیا ۔مگرجب فلسطینی بے گناہ عوام عورتیں ،بچے اسرائیلی بمباری میں شہید ہوئے تو ٹی وی چیلنوں نے ایسا تاتر دیا جیسے وہ اسرائیل کی پیٹھ ٹھوکرہے ہوں یا شاباشی دے رہے ہوں۔ حالانکہ جیسا کہ کہا جاچکاہے کہ حکومت ہند نے فلسطین کے مطالبے کو جائز قرار دیا اور اسکے جانی و مالی نقصان پر اظہار افسوس بھی کیا ہے۔ الکٹرانک میڈیا کو اپنا رویہ تبدیل کرناچاہئے۔اسرائیل نوازی کا چشمہ اتار کر حقیقت سے کام لینا چاہئے۔
خدا کا شکر ہے کہ عالم برادری کے دبائو اور ’’حماس‘‘ کی دلیرانہ مزاحمت کے نتیجے میں امریکہ نے نیتن یاہو کو جنگ بندی پرراضی کرلیا ۔مصرو سعوی عرب نے بھی مثبت رول عدا کیا ۔ایران اور ٹرکی بھی ہیبت بھی کام آئی ۔ غرضکہ کہ ۱۱ دنوں کی قیامت خیزی کے بعد جنگ بند ہوگئی۔فلسطین میں دیوالی جیسے جشن کا ماحول نظر آیا اس خوش خبری کی کوریج کرنے میں بھی ہندوستانی الکٹرانک میڈیا کا اسرائیل نواز چہرہ سامنے آیا وہ فتح و کامرانی کا پیمانہ فلسطینی و اسرائیل دونوں کو ہونے والے جانی و مالی نقصان کو سمجھے۔جس میں اسرائیل کے مقابلہ فلسطین کا بہت زیادہ نقصان ہوا۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ فتح و ظفر مقصد کی کامیابی میں مضمر ہے۔چنانچہ فلسطین اپنے مقصد میں اس لئے کامیاب ہے کہ اسرائیل کی دراندازی تھم گئی۔ اور اس میں غور مشروط طریقے سے جنگ روک دی جبکہ وہ جڑ سے حماس کو ختم کردینے کی قسم کھائے ہوئے تھا۔خدا کرے آگے بھی فلسطینیوں میں عزم و استقلال و استقامت قائم رہے اور فلسطینی مسلمان مسجد اقصیٰ کو مکمل طور پر واگزار کرنے میں کامیاب و کامران ہوں۔پرچم اسلام سربلند رہے۔ الٰہی آمین
’’حسینستان‘ سلطان بہادر روڈ، لکھنؤ،موبائیل: 9305467146

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here