9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مند
مولانا ندیم الواجدی
روزے کو عربی میں صوم کہتے ہیں، اس کے لفظی معنی ہیں کسی چیز سے رک جانا اور اس کو چھوڑ دینا ۔ چنانچہ حضرت مریم علیہا السلام نے جب اپنی قوم سے بولنا بند کیا تو یہ فرمایا: ’’بے شک میں نے رحمن کے لیے روزے کی نذر کی ہے‘‘ (مریم: ۲۶) یہاں صوم سے مراد وہ روزہ نہیں ہے جو ہم رکھتے ہیں بلکہ انہوں نے یہ نذر مانی تھی کہ وہ بات نہیں کریں گی اور قوم کے کسی سوال کا جواب نہیں دیں گی، اسی ارادے کو انہوں نے صوم سے تعبیر کیا، شرعی اصطلاح میں صوم (روزے) سے مراد یہ ہے کہ آدمی اللہ تعالیٰ کی عبادت کی نیت سے صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے پینے اور جماع کرنے سے رک جائے، حافظ ابن حجرؒ نے روزے کی بہترین تعریف کی ہے، فرماتے ہیں: وفی الشرع امساک مخصوص فی زمن مخصوص عن شئ مخصوص بشرائط مخصوصۃ۔ ’شریعت میں مخصوص وقت میں خاص شرائط کے ساتھ خاص چیزوں سے رکنے کو روزہ کہتے ہیں‘‘۔
سال بھر میں ایک ماہ یعنی رمضان المبارک کے روزے فرض معین ہیں، ان کا انکار کرنے والا کافر ہے، اور کسی معقول عذر کے بغیر رمضان کے روزے چھوڑنے والا فاسق اور سخت گنہ گار ہے، اگر رمضان المبارک کے روزے کسی عذر سے یا بغیر عذر کے محض جہالت اور غفلت سے رہ جائیں تو ان کی قضا کرنی ضروری ہے، البتہ ان روزں کی قضاء کے لیے کوئی خاص وقت متعین نہیں ہے، جب موقع ہو رکھ لیں، لیکن تاخیر مناسب نہیں ہے، فرض روزوں کی قضاء میں جلدی کرنی چاہئے۔
رمضان المبارک میں سب سے اہم اور بڑی عبادت روزہ ہے، اس کا شمار ان عبادات میں کیا جاتا ہے جن کو اسلام کی بنیاد اور ستون قرار دیا گیا ہے، یہ بدنی عبادت ہے اور فرض عین ہے، فرض عین کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہر مکلف شخص اس کی ادائیگی کا پابند ہے، ایسا نہیں ہے کہ کچھ لوگ ادا کریں تو باقی لوگوں کے ذمے سے ادائیگی ساقط ہوجائے گی، رمضان المبارک کے تمام روزے رکھنا ہر مسلمان مرد، عورت،عاقل بالغ پر فرض ہے اس کا انکار کرنے والا مسلمان نہیں ہے، اور کسی شرعی عذر اور مجبوری کے بغیر روزے چھوڑنے والا سخت گنہ گار ہے(عمدۃ الفقہ ۳/ ۱۲۳)۔
روزہ صرف امت محمدیہ پر ہی فرض نہیں ہوا، بلکہ اسلام سے پہلے بھی دوسری امتوں پر روزہ فرض تھا،جیسا کہ قرآن کریم میںہے : ’’ اے ایمان والو تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیا گیا تھا تاکہ تم متقی بن جائو‘‘ (البقرۃ: ۱۸۳)اس آیت میں دو باتین بیان کی گئی ہیں ایک تو یہ کہ روزہ کوئی نئی عبادت نہیں ہے، بلکہ گزشتہ امتوں پر بھی یہ عبادت فرض تھی، دوسری بات یہ کہ روزہ کا مقصد محض بھوکا پیاسا رہنا نہیں ہے، بلکہ تقوی حاصل کرنا ہے، یہ آیت روزے کی فرضیت اور اہمیت کے سلسلے میں بنیادی اہمیت کی حامل ہے، اس میں روزے کے اصل مقصد کو بھی واضح کیا گیا ہے، اور روزہ داروں کی اس طرح دل جوئی بھی کی گئی ہے کہ روزہ اگرچہ مشقت کی چیز ہے مگر یہ مشقت تم سے پہلے بھی لوگ اٹھا تے رہے ہیں، علامہ آلوسیؒ نے روح المعانی میں لکھا ہے کہ طبعی بات ہے کہ اگر کسی مشقت میں بہت سے لوگ مبتلا ہوں تو وہ ہلکی معلوم ہونے لگتی ہے، اس آیت میں کسی مخصوص قوم یا امت کا نام نہیں لیا گیا، بلکہ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ فرماکر یہ واضح کیا گیا کہ اس میں حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم تک تمام انبیاء کی امتیں شامل ہیں، علامہ سید سلیمان ندویؒ نے سیرۃ النبی جلد پنجم میں لکھا ہے ’’قرآن پاک نے ان آیتوں میں تصریح کی ہے کہ روزہ اسلام کے ساتھ مخصوص نہیں، بلکہ اسلام سے پہلے بھی وہ کُل مذاہب کے مجموعۂ احکام کا جزر رہا ہے، جاہل عرب کا پیغمبر اُمی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم جو بہ قول مخالفین عالم کی تاریخ سے ناواقف تھا وہ مدعی ہے کہ دنیا کے تمام مذاہب میں روزہ فرض عبادت رہا ہے، اگر یہ دعوی تمام تر حجت پر مبنی ہے تو اس کے علم کے مافوق ذرائع میں کیا شک رہ جاتا ہے، اس دعوی کی تصدیق میں یورپ کے محقق ترین مأخذ کا ہم حوالہ دیتے ہیں، انسائکلو پیڈیا بر ٹانیکا کا مضمون نگار روزہ (Fasting) کے عنوا ن پر لکھتا ہے روزہ کے اصول اور طریقے گو آب وہوا، قومیت، تہذیب اور گردوپیش کے حالات کے اختلاف سے بہت کچھ مختلف ہیں لیکن بہ مشکل کسی ایسے مذہب کا ہم نام لے سکتے ہیں جس کے مذہبی نظام میں روزہ مطلقاً تسلیم نہ کیا گیا ہو(سیرۃ النبی ۵/۱۴۹) ۔
اس آیت کا دوسرا جز روزہ کے مقصد پر روشنی ڈالتا ہے یعنی روزہ تم پر اس لیے فرض کیا گیا ہے تاکہ تم متقی بن جائو ، گویا روزہ محض کھانا پینا چھوڑ نے کا نام نہیں ہے یہ تو اس کی علامتی مشکل ہے ، مقصد تو یہ ہے کہ خدا کی رضا اور اس کی خوشنودی کے لیے سب کچھ قربان کردینے کا جذبہ بندے کے دل میں پیدا ہوجائے، روزہ کی حقیقی روح یہی ہے، کھانے پینے اور خواہشات نفس سے رکنے کو روزہ اس لیے قرار دیا گیا کہ دنیا کی تمام لذتیں معدے اور نفسانی جذبات کے ارد گرد ہی گھومتی ہیں، روزے سے ان دونوں پر کنٹرول کرنے کی عملی تربیت حاصل ہوتی ہے، یہ حقیقت ہے کہ تنہا یہ عبادت ایسی ہے جس کا کسی دوسرے کوعلم نہیں ہوتا، صرف خدا کا خوف ہی روزہ دار کو ان دونوں خواہشوں پر قابو پانے کی طاقت عطا کرتا ہے، امام غزالیؒ نے روزے کے مقصد پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’ علمائے آخرت روزے کا مقصد یہ سمجھتے ہیں کہ روزہ دار میں اللہ تعالیٰ کی صفت صمدیت (بھوک اور پیاس کا نہ ہونا) کا ظہور ہو، اور شہوت نہ ہونے میں اس کی مشاہبت فرشتوں سے ہو، لیکن کیوں کہ انسان نہ تو محض چوپایہ ہے کہ اچھے برے کی تمیز نہ کرسکے، بلکہ وہ اپنے نور عقل سے شہوتوں کا قلع قمع کرنے پر قادر ہے اور نہ فرشتہ ہے کہ اس پر شہوتوں کا غلبہ نہ ہو، انسان ہونے کی حیثیت سے اس پر شہوتیں غالب ہیں اور اسے یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ عمر بھران شہوتوں کے خلاف مجاہدہ کرتا رہے، چنانچہ اگر شہوات کے مقابلے میں ناکام رہتا ہے تو اسفل السافلین میں چلا جاتاہے اور جانوروں کے زمرے میں اس کا شمار ہوتاہے، اور اگر شہوات کے مقابلہ میں فتح یاب رہتا ہے تو اعلا علیین میں جگہ ملتی ہے اور فرشتوں کے زمرے میں شمار کیا جاتا ہے،(احیاء العلوم: ۱/ ۴۱۰) علامہ ابن القیمؒ نے روزے کے مقاصد کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے، ’’ روزے سے مقصود یہ ہے کہ نفس انسانی خواہشات اور عادات کے شکنجے سے ـآزواد ہوجائے، اس کی شہوانی قوتوں میں اعتدال اور توازن پیدا ہو، اور اس کے ذریعے سے وہ سعادتِ ابدی کے گوہرِ مقصود تک رسائی حاصل کرسکے او رحیاتِ ابدی کے حصول کے لیے اپنے نفس کا تزکیہ کرکے بھوک اور پیاس پر قابو پانے سے اس کی ہوس کی تیزی اور شہوت کی شدت میں تخفیف پیدا ہو، اور اسے یہ بات یاد آئے کہ کتنے ہی اللہ کے نادار بندے ایسے ہیں جو ایک وقت کی روٹی کے بھی محتاج ہیں، اصل روزہ یہ ہے کہ وہ شیطان کی آمد کے تمام راستے بند کردے اور اعضاء وجوارح کو ان چیزوں کی طرف مائل ہونے سے روک دے جن میں دنیا وآخرت دونوں کا نقصان ہے اس لحاظ سے روزہ اہل تقوی کی لگام ، مجاہدین کی ڈھال اور مقربین کی ریاضت ہے، روزہ جوارح ظاہری اور قوائے باطنی کی حفاظت میں بڑی تأثیر رکھا ہے (زادالمعاد : ۱/ ۱۵۲) ۔
[email protected]