شب قدرکی عظمت وفضیلت-The greatness and virtue of Shab Qadr

0
175

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


The greatness and virtue of Shab Qadr
مفتی رحمت اللہ ندوی
رمضان المبارک کی سب سے عظیم الشان نیکی اور اہم تحفہ اور بڑا فائدہ’’شب قدر‘‘ ہے،جوبہت بے نظیرہے،پچھلی امتیں اس سے محروم رہیں،قرآن وحدیث میں”شب قدر”کی عظمت وفضیلت، بہت اہمیت کے ساتھ بیان کی گئی ہے،اور “سورہ قدر”کے نام سے ایک مکمل اورمستقل سورت نازل ہوئی ہے۔کون وزمان کا خالق اللہ ہے،اس نے زمان ومکان اور ایام کو ایک دوسرے پر فضیلت و برتری دی ہے،تمام مہینوں میں رمضان کواہمیت وفضیلت حاصل ہے،اور جمعہ کوسیدالایام (دنوں کاسردار) بنایا گیا ہے۔اسی طرح شب قدر کو تمام راتوں سے افضل اور ہزار مہینوں سے بہتر قرار دیا گیا ہے،(لیلۃالقدر،خیرمن الف شہر)شب قدر کی اس فضیلت اوراہمیت کی حکمت ومصلحت یہ ہے کہ امت محمدیہ پہلی امتوں کے مقابلے میں جسمانی اعتبار سے کمزور ہے اوراس کی عمر بھی ان کی بنسبت مختصر اور کم ہے،جس کی وجہ سے وہ اللہ کی اطاعت وعبادت میں سابقہ امتوں کی برابری نہیں کرسکتی تھی،اس لئے خصوصی انعام اور فضل واحسان کے طور پر یہ شب عطا کی گئی،اور اس کے ساتھ اس خصوصی عنایت اوررحم و کرم کا معاملہ کیا گیا۔
شب قدر ہی میں پورا قرآن مجید لوح محفوظ سے آسمانِ دنیا کے” بیت العزت”پر نازل ہوا،پھر وہاں سے حسب ضرورت حضرت جبرئیل علیہ السلام کے واسطہ تھوڑا تھوڑا حضورؐپر 23/سال کی مدت میں نازل ہوا۔شب قدرکے تعلق سے یہ نکتہ بڑا اہم ہے کہ اس کا ہزار مہینوں سے بہتر ہونا تو بیان کیا گیا ہے لیکن بہتر ہونے کی کوئی حد نہیں بیان کی گئی ہے کہ دوگنا ، چوگنا،یا سو گنا؟اس لئے ہزار مہینوں کاثواب تو متعین اور یقینی ہے ہی،اس سے زیادہ کی بھی امید رکھی جاسکتی ہے۔
اس شب کی تعیین کردی گئی تھی لیکن جب اس کی اطلاع دینے کیلئے حضور ؐ باہرتشریف لائے تو دو آدمیوں کے جھگڑنے اور باہم دست وگریباں ہونے کی وجہ سے تعیین اٹھالی گئی اور آپ کیذہن سیتعین محوکردیا گیا۔معلوم ہواکہ جھگڑا بہت بری چیز ہے،اس کی نحوست سے شب قدر جیسی عظیم رات کی تعیین ختم کردی گئی،یہ بھی پتہ چلا کہ اگر تعیین کردی جاتی تب بھی بہت سے محروم قسمت اپنی سستی وکاہلی سے اس کی ناقدری کرتے،اوراس کی قدر نہ کرپاتے،اس لئے اللہ کی حکمت کا تقاضہ عدم تعیین کا ہوا،تاکہ کسی کے گناہ سے اس کیلئے قہر الٰہی کا سبب نہ بن جائے۔شب قدرکی تعیین کے بارے میں اگرچہ علماء کے مختلف اقوال پچاس تک منقول ہیں لیکن احادیث صحیحہ کی روشنی میں اقرب اور اشہر قول آخری عشرہ کی طاق راتوں کا ہے،اور صحابہ کرام کی ایک تعدادکی روایات سے ستائیسویں شب میں ہونا بھی ثابت ہے۔ بہرحال بہتر تو یہی ہے کہ پورے ماہ کی شب کا اہتمام کیا جائے،اور آخری عشرہ کی طاق راتوں کا اور زیادہ ہو۔اس رات کا اہم عمل نوافل اور قیام ہے،اور سب سے افضل دعا:”اللہم انک عفو تحب العفو فاعف عنی” ہے۔لیکن مقصد رضائے الٰہی کی تلاش اورحکم کی تعمیل ہے،اس لئے شب بیداری میں ذکرواذکار،تسبیحات ومناجات،اور تلاوت قرآن،اور درود شریف اور دعامیں وقت بسر کیا جائے،گپ شب،چائے نوشی،فضول گوئی،گھومنے پھرنے میں وقت گزاری نہ کی جائے،اگرپوری رات جاگنا ممکن نہ ہو تونصف شب اوریہ بھی نہ ہوسکے تو تہائی شب میں جاگ کر حسب توفیق نوافل ودعا کا اہتمام کرلیا جائے،کیوں کہ شب قدر کی خیروبرکت سے محرومی،بہت بڑی محرومی اور بد نصیبی ہے،ایک حدیث میں ایسے شخص کو تمام خیر سے محروم بتایا گیا ہے۔(من حرمھا فقدحرم الخیر کلہ۔)
واضح رہے بعض جگہ مساجد کے مائک سے فل ساؤنڈ میں رات بھر تلاوت،نظم،اورتقریر کاسلسلہ جاری رہتا ہے،اور اس کو دینداری اور ثواب سمجھا جاتا ہے،جب کہ اس سے ثواب کے بجائے گناہ ہوتا ہے اور اسلام اور مسلمانوں کی برادران وطن میں غلط شبیہ جاتی ہے،لوگوں کی نیند حرام کرنا،عبادت اور تلاوت میں خلل ڈالنا،بیمار لوگوں کو اذیت پہنچانا اور آپس پاس کے غیر مسلم بھائیوں کو تکلیف دینا،یہ تمام تر خرابیاں ہیں،جن سے پرہیز اوراحتیاط ضروری ہے،(جو شخص ایمان اوراحتساب کے ساتھ شب قدر میں قیام کرے گا اس کے پچھلے گناہ معاف کردئے جائیں گے۔)لہٰذا ہمیں خاموشی کے ساتھ گھر یامسجد میں قیام اور تلاوت پر توجہ دینی چاہئے اور لایعنی چیزوں سے بچنا چاہیے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو شب قدر کی پوری قدردانی نصیب فرمائے اور اس کے خیر وبرکت سے مالا مال فرمائے ۔
استاذ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنو
Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here