9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مند
محمدقمرانجم فیضی
آج ہم اپنے ملک عزیز ہندوستان میں جس طرف بھی نظر اٹھا کر دیکھتے ہیں تو ہر طرف غریب، کمزور، لاچار، چاہے وہ پڑھے لکھے ہوں، یا ان پڑھ ہوں، عوام ہوں یا خواص ہوں، علماء ہوں یا ٹیچر ہوں، کسان ہوں نوجوان ہوں، ہر کوئی آج پریشان حال اور تنگدستی کی زندگی جینے پر مجبور ہیں، اور 2014 سے اب تک ہندوستان کا نقشہ اور ہندوستان میں رہنے بسنے والوں کے چہرے کا جغرافیہ ہی بدل گیا، اور آج ملک سماجی، سیاسی اور معاشی طور پر کھوکھلا ہوتا نظر آرہاہے، ذات پات، مذہب اور مذہب کے نام پر زہر گھول کرلوگوں کو ڈرانے دھمکانے کا کام کیا جارہا ہے۔ملک میں حالات اس محاورے کی طرح بنائے جارہے ہیں کہ مال بھی اپنا ہو جائے اور چوربھی آپ ہی کہلائیں، مطلب جس کا نقصان ہو رہا ہے اسی کوچور ثابت کیا جارہا ہے ، کسان بےچارے آج 3 ہفتوں سے زائد دنوں سے احتجاج کررہے ہیں، لیکن حکومت ملک کے کسانوں سے بات چیت کرنے کے بجائے چند پسندیدہ صنعتکاروں کے لیے انہیں ذلیل کررہے ہیں۔یہ پہلا موقع ہے جب کسان حکومت کی پالیسیوں سے پریشان ہوکرخودکشی کر رہے ہیں، وہ بھی ہندوتوا پر اپنے حق جتانے والی بی جے پی کے دور حکومت میں ایسی تضاد صورتحال پیدا ہوئیں ہیں ،اس سے زیادہ ستم ظریفی اور کیا ہوسکتی ہے کہ ہندوستانی فوج کے جوانوں سے لے کر پولیس افسران سردی میں اپنے کسان خاندانوں کو سڑکوں پر احتجاج کرتے ہوئے اپنی ملازمت چھوڑ کر ان کی حمایت کرتے نظر آرہے ہیں۔اور یہ بتا رہے ہیں کہ ہم ایسے نازک وقت میں اپنے کسان بھائیوں کے ساتھ ہیں، اور کسانوں کا احتجاج ہم سے چیخ چیخ کر کہہ رہاہے کہ ظالم وجابر حکمرانوں کے آگے ہم جھکنے والے نہیں ہیں جب تک کہ اس زرعی بل کو واپس نہیں لیا جائے گا، اس کے باوجود حکومت غرور میں ڈوبی ہوئی ہے، جبکہ اپنے حقوق کی جنگ لڑنے کے لئے سڑکوں پر احتجاج کرنے والے کسان مر رہے ہیں۔ حکومت جس نے کسانوں کو ختم کرنے کے لئے مسودہ تیار کیا ہے اسے یاد رکھنا چاہئے کہ آتش زدگی سے پورا ملک تباہ ہو رہا ہے اور یہاں تک کہ ان شعلوں سے نفرت پیدا کرنے والی بی جے پی بھی نہیں بچ سکے گی۔ اس وقت معیشت تباہ ہوچکی ہے۔ سرکاری اور غیر سرکاری شعبوں میں ملازمت ختم ہورہی ہے۔ کمپنیاں دیوالیہ ہو رہی ہیں۔ ایسی صورتحال میں کسان ملک کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں جو عوام کو کھانا دے کر زندہ رکھتے ہیں، لیکن حکومت اس مشکل وقت میں کسانوں اور زراعت کو ختم کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب کسان زراعت بل کے خلاف ہیں تو اسے لانے کی کیا ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو واضح کرنا چاہئے کہ کونسی مجبوری ہے کہ کسانوں پر زرعی بل عائد کررہے ہیں۔ آخر حکومت کس کوفائدہ پہنچانا چاہتی ہے؟وہ سب جانتے ہیں اس بارے میں جناب عبدالرسول رقم طراز ہیں وہ لکھتے ہیں کہ 2014ء سے ہم مسلسل دیکھتے چلے آرہے ہیں کہ ہندوستان میں جس نے بھی اپنے حقوق کامطالبہ کیاہے ،چاہے وہ ہندوستانی مسلمان ہوں،دلت ہوں ،مسیحی ہوں یاسکھ انہیں موذی حکومت نے اس قدردبایا اس قدر دبایا کہ بے چارے بد حال ہوگئے ۔ دراصل ہندوستان کی ہندواکثریت کے بل بوتے اوراس زعم میں کہ ملک کی تمام ہندواکثریت کی حمایت مودی کے ساتھ ہے موذی رجیم نے اقلیت کو روندتے ہوئے آمریت کا خطرناک کھیل شروع کردیاہے۔ موذی نے خود کو ہی ملک سمجھ لیا ہے اس لئے جوچاہے کرگذرتاہے یہی وجہ ہے کہ جب بھی اس کے کسی فیصلہ کی مخالفت ہوتی ہے وہ اسے قوم پرستی سے جوڑکر مخالفین کو ملک دشمن قراردے دیاجاتاہے اور احتجاج کرنےوالوں کو اگر وہ مسلمان ہیں تو دہشت گرد،
اور اگر وہ ہندو دلت ہوں تو آدیواسی یا نکسل وادی، اور اگر وہ سکھ ہوں تو خالصتانی کہہ کر ان پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں، ۔اقلیتوں کے بعداب کسانوں پرنشانہ سادھاگیا ہے اوران کے حقوق کو بالجبر روندنے کی کوششیں جاری ہیں۔ایک ماہ آنے کو ہے لاکھوں کسان اس سردبھری اور کڑاکے کی اس سردی میں کھلے آسمان تلے نہایت بے کسی کے عالم میں اپنے مطالبات کو لےکر احتجاج پر بیٹھے ہیں۔ اگرچہ مودی رجیم ٹس سے مس نہیں ہورہا ۔مگرکب تک۔ اگرچہ اس نے کسانوں کے ساتھ ایک مذاکراتی دورچلایا،لیکن نیت خراب ہوتویہ پتاچلتاہے کہ یہ ڈھکوسلہ کے سواکچھ نہیں تھا۔ ظاہرسی بات ہے کہ جب دھوکہ دہی کی نیت ہوتوکسان کے مسائل کا حل کیونکرنکل سکےگا ۔ہر ملک کا انحصار زراعت پر ہوتاہے، اسی لئے کہاجاتاہے کہ کسانوںکے پٹھے اورکھردے ہاتھوں کوچوم لیناچاہئے مگر یہ بھارت ہے کہ جہاں کسانوں کے زندگی اجیرن ہے اورخوف کے سائے ان کے سروں پرمنڈلار7ہے ہیں۔کسانوں کے ہاتھوں کوکاٹاجارہاہے۔انہیں اپنی کھیتوں سے بے دخل کیاجارہاہے اور ان کے کھیت کارپوریٹ گھرانوں کوسونپے جارہے ہیں، جس سے ان کی حیثیت ایک بندھوا مزدور کی ہوکر رہ جائے گی،ہندوستانی کسانوں کایہ خوف محض ایک وہم نہیں ہے بلکہ ایک حقیقت ہے۔مودی سرکار کی بوکھلاہٹ کا عالم یہ ہے کہ کسانوں کو بھی اب اسی طرح ڈرانے دھمکانے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے جس طرح (CAA) کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو ڈرایا دھمکایا گیا تھا، کسانوں کو لاکھوں روپے کے نوٹس جاری ہو رہے ہیں ان سے بانڈ بھرائے جا رہے ہیں، کسان لیڈروں پر الزام یہ لگایا جارہا ہے کہ وہ کسانوں کو بھڑکا رہے ہیں۔ دراصل جب بی جے پی اورمودی اقتدارکی کرسی پربراجمان ہوئے تووہ بھارت کے ہر سیاہ وسفید کا مالک بن گئے۔مودی اینڈ کمپنی نے بھارت میں خوف کاایک ایساماحول پیدا کیا کہ مودی سرکار کچھ بھی کرے اس کی مخالفت کوئی نہیں کرسکتا۔ کسانوں کی فلاح وبہبودی کی آڑ میں زرعی قوانین چور دروازے سے لے آئے گئے، بظاہر دعوی کیا جا رہا ہے کہ ملک کے کسانون کی بہتری کے لئے اس طرح کے قوانین کی اشد ضرورت تھی، ان سے کسانوں کو بے پناہ فائدہ پہنچے گا لیکن ایک ساتھ جس طرح تین قانون منظور کیے گئے اس کے پیچھے درحقیقت کسانوں کو نہیں بلکہ کارپوریٹ گھرانوں کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے، اور یہ کارپوریٹ گھرانے بھی وہی گھرانے ہیں ۔ نریندرمودی کے منظور نظر ہیں یعنی امبانی اور اڈانی، یہ سچائی بھی سامنے آچکی ہے کہ ان قوانین کی منظوری سے پہلے ہی امبانی اور ایڈانی نے اناج اسٹور کرنے کے لئے منصوبہ بندی شروع کردی تھی، اور کئی جگہ ان کے بڑے بڑے گودام بھی بن کر تیار ہوچکے تھے، ایسے میں ہمیں یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ زرعی قوانین ان دونوں کارپوریٹ گھرانوں کی مرضی اور منشا کے مطابق تیار کیے گئے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ اب جب کہ ملک کا کسان اس کے خلاف سراپا احتجاج بن کر دہلی کی سرحد تک آپہنچا ہے۔ جیسے کالے قانون(CAA)کی مثال ہمارے سامنے ہے اسے لےکر جب ملک کے انصاف پسند طبقہ نے تحریک شروع کی تو انہیں ڈنڈوں کے زور سے کُچلنے کی کوشش کی گئی، اس قانون کی مخالفت کرنے والوں کو پاکستانی ایجنٹ قرار دے دیا گیا، لیکن جب ہر طرح کے ظلم واستبداد کے باوجود یہ تحریک مضبوط ہوتی گئی تومودی رجیم یہ باور کرانے کی مسلسل کوشش ہوئی کہ(CAA)کی مخالفت تنہا مسلمان کر رہے ہیں، اوریہ مخالف خالی از معنی نہیں اس تحریک کی ڈورپاکستان سے ہلائی جارہی ہے ۔کسان تحریک کے تعلق سے بھی یہی رویہ روبہ عمل لایاگیاہے، یہ تاثر دینے کی دانستہ کوشش کی گئی کہ اس تحریک میں تنہا پنچاب کے کسان شامل ہیں،اوریہ خالصتان بنانے کی سرگرمیاں ہیں اوراس کے پیچھے پاکستان ہے ۔ مگر جب تحریک کا دائرہ بڑھنے لگا اور دوسری ریاستوں کے کسان بھی اس تحریک میں عملا شامل ہونے لگے تو کہاگیاکہ اس تحریک کولانچ کرنے والاصرف پاکستان نہیں بلکہ چین بھی ہے اور اسے چلارہاہے،لیکن اس طرح کا ہر حربہ تادم تحریر ناکام ثابت رہا ہے۔ جس تحریک کو کل تک پنجابی کسانوں کی تحریک قرار دینے کی کوشش ہو رہی تھی اب وہ بڑھ کر ہندوستان کے تمام کسانوں کی تحریک بن چکی ہے، مگراس کے باجود مودی کاتکبر ٹوٹ نہیں رہا۔مودی سرکار تادم تحریر کسانوں کی تحریک کے سامنے جھکنے کے لئے اگرچہ آمادہ نظر نہیں آرہی لیکن اس سچائی سے کون ذی شعور انسان انکار کرسکتاہے کہ کسان تحریک نے مودی اینڈکمپنی کی کرسی کو ہلاکر رکھ دیا ہے اوراس کے دروبام لرزادیئےہیں۔یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ ایک ماہ مکمل ہورہاہے کہ جب کسان بھارتی دارالحکومت دہلی کے چاراطراف محاصرے میں لے چکے ہیں اوران تمام راستوں پروہ خیمہ زن ہیں جودلی کی جانب جاتے ہیں۔ایسالگ رہاہے کہ کسی دوسرے ملک کی فوج نے دہلی کاگھیراؤ کررکھاہے اورکہہ رہی ہے کہ ‘ملک ہمارے حوالے کرویاپھر جنگ کے لئے تیاررہو یہاں اس امرکاتذکرہ ناگزیر ہے کہ مودی کے کچھ تنخواہ داروں اورمراعات یافتہ گان نے کسان تحریک کو ختم کرانے کے لئے ہندوستانی سپریم کورٹ کا سہارا لیا تھا مگر وہاں سے ان کے نصیب میں ناکامی اورنامرادی آئی۔ہندوستانی سپریم کورٹ نے تمام عرضیوں پر سماعت کرتے ہوئے کہا کہ وہ قوانین کے خلاف مظاہرہ کرنے کے بنیادی حق کو مانتی ہے، ہم اس میں دخل نہیں دیں گے ۔ واضح رہے کہ یہ(CAA) اور(NCR) کے مخالفین نہیں ہیں جنہیں تم نے مسلمانان بھارت کے حقوق کی تحریک سمجھ کربالجبرروکنے،ٹوکنے کی کوشش کی اورریاستی دہشت گردی کے ظلم واستبداد کا نشانہ بنایا اورہندو قوم پرستی کی فتح کا جشن مناکر سرکار چین کی نیند سوگئی، یہ کسان تحریک یہ ایسی آکاش بیل ہے جس نے مودی اینڈ کمپنی کوپوری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھاہے ۔ کسانوں کا احتجاج ہم سے یہ کہہ رہاہے کہ یہ کسانوں کی تحریک ہے اور ہندوستان کے تمام کسان بیدار ہوچکے ہیں اور اس تحریک کے ساتھ جڑچکے ہیں۔جب تک یہ تحریک اپنے مطالبات نہیں منواتی تسلیم نہیں کرواتی تب تک وہ خود چین سے بیٹھیں گے اور نہ ہی مودی اینڈ کمپنی کو سکھ سے بیٹھنے دیں گی، اور تب تک احتجاج کرتے رہیں گے۔
رابطہ نمبر-6393021704
[email protected]