9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مند
عمیر محمد خان
کسانوں کی تحریک نےایک نیا رخ لے لیا ہے۔ حالات سنگین ہوسکتے ہیں۔روزانہ کسانوں کی اموات میں اضافے کی وجہ سے کشیدگی بڑھ سکتی ہے۔ملک بحران کی لپیٹ میں آ سکتا ہے ۔واقعات کسی انقلاب کی دستک ہے۔تغیر آفاقی فطرت ہے۔۔۔۔انقلاب انسانی فطرت۔۔۔۔انقلاب زندگی کی علامت ہے ۔بے ثباتی اور جمود موت کی مانندہے ۔پس حیات تبدیلی کا نام ہے۔تبدیلی قدرت کو پسند ہے۔
جمہوریت اپنی حکومت ہوتی ہے نہ کہ چند افراد کا تسلط و اجارہ داری۔۔۔۔ ایک جمہوری ملک میں سب کے حقوق و مراعات کی آزادی ہوتی ہے ۔ہمارے مطالبات رکھنے انھیں حاصل کرنے کی آزادی ہر کسی کا بنیادی حق ہے۔انھیں پورا نہ ہونے کی صورت میں آواز اُٹھانے کی مکمل آزادی ہمیں حاصل ہے۔اور یہ آزادی ہمیں آئین دیتا ہے۔حقوق کی پائمالی کی صورت میں اپنے مفادات کو حاصل کرنے کی سعی کرنا ہمارا آئینی حق ہے۔اپنے مطالبات و مراعات کے لئے آواز بلند کرنا بغاوت نہیں بلکہ ہر با عزت شہری کا حق ہے۔اپنے ہی گھر میں کسی جائز چیز کا مطالبہ اپنا بنیادی حق ہے نہ کہ تازیری جرم۔کسی کے حقوق کی ادائیگی فرض ہے نہ کہ احسان ۔ اپنے جائز مطالبات رکھنے والے اور حقوق کی خاطر آواز اٹھانے والے باغی اور ملک دشمن عناصر نہیں ہوتے ہیں۔باغی تو وہ ہیں جوحقوق کو ہڑپ کر جائیں۔مجرم تو وہ ہیں جو مطالبات کو کچل دیں۔ باغی تو وہ ہیں جو صداقت کی آواز کو دبا دیں۔بغاوت وہ کرتے ہیں جو آئینی حقوق کو پامال کردیں۔باغی تو وہ ہیں جو اپنوں اور دوسروں کے لئے الگ الگ پیمانے رکھتے ہوں۔باغی تو وہ ہیں جو بات سننا بھی گورا نہ کریں۔اپنے حقوق چاہنا بغاوت نہیں حق ہے۔
ملک اور عوام کی بہبودی اسی صورت میں ممکن ہےجب آپس میں اتفاقی رائے سے منصوبہ سازی کی جائے اور عمل پیرا ہو کر انھیں حاصل کرنےکی اجتماعی کوشش کی جائے۔اسی صورت میں ملک آگے بڑھ سکتاہے ۔کسانوں کے مطالبات بھی ایسے ہی ہیں جس سے ملک میں ترقی وبہتری آ ئے گی ،سبز انقلاب برپا ہو گا۔اور کسانوں کے مطالبات یقیناًملک کو معاشی استحکام دیں گے۔ترقی کے راستے سبھی کے لئے کھلیں گے۔ایک مضبوط ملک ایک عمدہ معیشت کی بنیاد قائم کرتا ہے۔اور عمدہ معیشت ایک ترقی یافتہ ملک کی پہچان ہوتی ہے۔اس کے برعکس اگر مطالبات ٹھکرادئے جائیں تو ملک کی معیشت کو بہت بھاری خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔پہلے ہی ملک مندی وکساد بازاری کے بحران سے گزر رہا ہے۔تمام سیکٹرز میں ایک بھونچال آنے کے امکانات واضح ہو رہے ہیں۔ملک کے تمام میدانوں میں خسارہ منڈلا رہا ہے۔جلد ہی ہم لڑکھڑا جائیں گے۔جتنی جلدی ممکن ہو کسانوں کے مطالبات پورے کئے جانے چاہیے تاکہ ملک مزید خسارے سے بچ سکے۔
امکانات ہیں کہ وہ مختلف پراڈکٹس کا بائیکاٹ شروع کردیں۔تین زرعی معمولی قوانین کے لئے ملک کو خسارے میں ڈھکیلنا ملک میں بھونچال پیدا کرنا مناسب نہیں۔زرعی قوانین کی ترمیم میں ملک کو کسی بھی قسم کا خسارہ نہیں ہے۔کسانوں کی جانب سے اگر بھوک ہڑتال یا انشن کا قدم اٹھایا جاتا ہے تو ہم نے بھی کندھے سے کندھا ملا کر ان کا ساتھ دینے کو تیار رہنا چاہیے۔مختلف پراڈکٹس کا بائیکاٹ کیا جانا اس بات کی علامت ہے کہ نجی کمپنیوں، کارپوریٹرز اور تجارتی مراکز کا نقصان ہو۔اس صورت میں ان کا ترقی کا گراف نیچے گر جانے کا قوی امکان ہے ۔پیسوں کی مار ان کے لئے انتہائی ناقابل برداشت ہو گی۔ ان کا مطمح نظر دولت اور سکے بٹورنا ہی ہوتا ہے وہ اس قسم کا مالی خسارہ اٹھانے کے لئے کبھی بھی تیار نہیں ہونگے۔مال کی فراوانی ہی کے لئے وہ ان تھک کوشش کر رہے ہیں۔ بائیکاٹ کی صورت میں ان کے خوابوں پر پانی پھر جائے گا۔ مختلف ٹی وی چینلز کا بائیکاٹ بھی اس ضمن میں کسانوں کے لئے سود مند ثابت ہوگا۔جس قدر ہر میدان میں مکمل بائیکاٹ کیا جائے گا اس قدر ان کی تجارت کی مانگ کمزور سے کمزور ہوتی چلی جائے گی۔یہ اقدامات ملک گیر پیمانے پر کئے جائیں تو اس کے مثبت نتائج نہ صرف کسانوں کو بلکہ عوام کو بھی حاصل ہونا شروع ہوجائیں گے۔ان لوگوں کے بڑھتے عزائم پر قدغن لگے گی۔کسی بھی قسم کے اقدامات کرنے سے پہلے وہ سوچنے پر مجبور ہوں گے۔ ان اقدامات سے ان کی انانیت کا خاتمہ ممکن ہے۔
عوام اپنی طاقت ،قوت ،مراعات اور حقوق کو سمجھیں۔ جب تک ہم سینہ سپر ہو کر نہیں کھڑے ہونگے ضعف و کمزوری کا ہم شکار ہوتے چلے جائیں گے۔اور جب تک اپنے بنیادی حقوق کے لئے اٹھتے رہیں گے، انھیں حاصل کرنے کی جدوجہد کریں گے یقیناً حکمراں ہم سے باز ی نہیں لے جا سکیں گے۔عملی طور پر ایسے اقدامات پر اگر عمل آوری کی جائے تو یقیناً جمہوری ملک کے لیے یہ سود مند ہے بلکہ عام انسانوں کے لیے بھی مفید اور کار آمد ثابت ہو سکتا ہے۔کسانوں کے احتجاج کو غلط پر وپگنڈا کے ذریعہ ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ان پر یہ الزام عائد کیا جارہا ہے کہ ان کے احتجاج سے عوام کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔راستوں کو بلاک کرنے کی وجہ سے معیشت کو نقصان ہو رہا ہے۔اس احتجاج سے کووڈ 19 کے پھیلنے کا خدشہ بھی بڑھ رہا ہے۔یہ احتجاج پرامن احتجاج نہیں ہے۔اور دیگر ایسے گھناونے الزام حکومت کے اہل کار اور میڈیا ان پر تھوپ رہے ہیں۔ہمارے ملک کاGDP انڈیکس بہت نیچے آگیا ہے۔غور کریں کہ کیااس میں کسانوں یا کسی اور تحریک کا ہاتھ ہے۔کئی لوگ اپنے جاب سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ۔روزبروز قیمتوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ایندھن و گیس کے دام یومیہ بڑھ رہے ہیں۔کیا واقعی کسان ان تمام باتوں کے ذمہ دارہیں۔ ؟ اس کے ذمہ دار کون ہے۔۔۔؟ اگر ملک کی بہتری کی سوچ سرکار کی ہے تو مذاکرات کے ذریعے یہ بات طے کی جا سکتی ہے اس طرح سے نہ کسانوں کا احتجاج جاری رہے گا اور نہ ہی ملک میں کسی قسم کی شورش برپا ہوگی۔ ان کے مطالبات منظور کر لیئے جائیں تو تمام خدشات جو حکومت کو ملک کی بھلائی اور بہتری کے لئے کسانوں کی وجہ سے محسوس ہو رہے ہیں وہ یکلخت ختم ہو سکتے ہیں۔زرعی بل کی واپسی میں حکومت اور عوام کی بہبودی ہے۔ان تین قوانین کی واپسی سے ملک کی معیشت کا استحکام ممکن ہے۔اس لئے جلد از جلد ان مطالبات کو منظور وتسلیم کر لیا جائے تاکہ غریب کسان مزید پریشانیوں سے بچ جائیں۔کسانوں کی ترقی میں ملک کی خوشحالی و ترقی پوشیدہ ہے۔
ریسرچ سکالر
رابط 9970306300