ملک کی موجودہ صورت حال اور ہماری ذمہ داریاں- The current situation in the country and our responsibilities

0
2152

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

سیداطہر نبی
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس وقت ہمارا ملک جن نازک ترین اور نا ہموار حالات سے گزر رہا ہے وہ یقینا تشویس ناک ہیں۔ ایک عجیب صورت حال اورکیفیت ہر سمت چھائی ہوئی ہے۔ملک کی سیاسی فضا میں عدم رواداری اور مفاد پرستی نے مضبوطی کے ساتھ اپنی جڑیں جما لیں ہیں۔ اکثریت اور اقلیت کے واضح فرق کے ساتھ ملک کی سیاست ایک ایسی تاریک راہ کی طرف گامزن ہے جہاں انصاف اور حقوق انسانی کی بات کرنا بے معنی سا ہو گیا ہے۔ یہ بات بھی اب پوری طرح عیاں ہے کہ ملک کا اقلیتی طبقہ خاص کر مسلمانان تعصبی نظریات، مفادپرستی کی زد پر ہیں۔ ملک کی پر امن فضا میں مذہب اور ذات پات کا زہر گھولا جا چکاہے۔ویسے بھی اقتدار میں بیٹھے لوگوں کے غلط فیصلوں اور مہلک اور جان لیوا عالمی بحران ”کورونا” کے منفی اثرات کے چلتے آج ملک کیاقتصادی حالت اتنے خستہ ہوچکے ہے کہ آج کئی روزگارختم ہوگئے ہیں یا ختم ہونے کے دہانے پر ہیں۔ ایسے میں یہ خدشہ لاحق ہے کہ اس بے روزگاری و معاشی بحران کی وجہ سے دن بہ دن جرائم میں اضافہ ہوگا اور یہ صورتحال ملک کو ایک تشویشناک دوراہے پر لا کھڑاکرے گی۔
اقتدار کے ذریعے آزادیٗ اظہار رائے کے حقوق کو صلب کرنا، آئینی حقوق کی پامالی اور سیاسی فضا میں مذہبیت کے اخلاط نے آج ملک کو تاریک ترین راہ کی طرف موڑ دیا ہے۔ بے شک اس اضطراب کے ماحول میں ملک فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے وجود کو خطرہ ہے۔ملک بھر میں میڈیا کا کردار بالکل بھی قابل اعتماد نہیں رہا ہے۔مسلسل غیر جانب داری سے اپنا کام کرنے والے مٹھی بھر چینل اور اخبارات کن دشواریوں کے ساتھ اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں یہ بھی ایک تشویش ناک مرحلہ ہے۔
آج سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایک سیکیولر ملک کی تہذیب و ثقافت پرجب اکثریت اپنا دعوہ پیش کرے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرے کہ اس ملک کی تعمیر میں صرف انہیں کا حصہ ہے تو یہ ملک کے مستقبل کے لیے نقصان دہ بات سے کم نہیں ہے۔ہندوستان کی تعمیر میں ہر ایک فرقے اورمذہب کے لوگوں کا ہاتھ ہے۔ہندوستان کے مسلمانوں نے اس چمن کو اپنے خون پسینے سے سینچا ہے۔ان کے ابا و اجداد اسی مٹی میں دفن ہیں۔آج سیاسی،سماجی اور معاشرتی سطح پر ہم پہلے ایک ہندوستانی ہیں۔ایسے میں ملک کی ترقی اور تعمیر میں ہمارے اتنی ہی ذمہ داری ہے جتنی کہ ملک کے دوسرے باشندوں کی، لیکن اس حقیقت سے بھی منھ نہیں موڑنا چاہیً کہ معاشرے میں ہم تعلیمی سطح کے ساتھ ساتھ دیگر شعبوں کافی پیچھے ہیں۔ ہمیں اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے چند اہم نکات کا غور وخوص کرنا بے ضروری ہے تاکہ ہم آنے والے وقت میں ایک ذمہ دار ملت کے فرد کہلائیں اور ملک کی ترقی و ترویج کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرسکیں۔یہاں ہم یہ بات تین بڑی سطحوں پر آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔
تعلیمی سطح پر:
قوم و ملت میں تعلیمی بیداری سب سے اہم فریضہ ہونا چاہئے۔ہم اپنی نوجوان نسلوں کی صحیح تربیت اور رہنمائی کریں کہ وہ کس طرح اپنی تعلیمی لیاقت کو روزمرہ کی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ساتھ ملک کی ترقی اور ایک شفاف معاشرے کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔ دینی تعلیم کے ساتھ نوجوانوں کو موجودہ دور کے اعتبار سے پروفیسشنل کورسیز کی طرف راغب کریں۔ Job Oriented کورسیز کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے انہیں صحیح کیرئر کے انتخاب میں رہنمائی کریں۔تعلیمی اداروں کو اس طرف دھیان دینے کی اشد ضرورت ہے۔کیرئیر کاؤنسلنگ بے حد ضروری ہے۔ شروعات سے ہی بچے کی ذہنی منشا کو پرکھ کر اس کی رہنمائی کرنا اور اس کی حوصلہ افزائی کرنا انہیں ایک اچھے مستقبل کی طرف لے جائے گا۔
دوسری اور سب سے اہم بات یہ کہ ہمیں اپنی تاریخ کا صحیح پہلو اپنی آئندہ نسلوں تک پہنچانا ہے۔ جس طرح سے آج ہندوستان کی ایوان میں بیٹھی شرپسند طاقتیں ہماری تاریخ کو مسخ کرنے کی طاق میں ہیں۔ موجودہ اقتدرا کی شہ پرہمارے ماضی کو بدنام کرنے کا ذمہ تمام تشدد پسند عناصر نے اٹھا رکھا ہے ہمیں ان عناصر سے بخوبی جد و جہد کرنا ہے۔ ہماری نسلوں تک ہماری تاریخ کا ہر حرف اپنے اصل معنوں کے ساتھ پہنچے یہ ہم سب کی اہم ذمہ داری ہے۔
سیاسی سطح پر:
ملک میں سیاسی سطح پر جو انتشار برپا ہے اس سے سب سے زیادہ نقصان اقلیتی قوم کو ہے۔ ووٹ بینک کی سیاست میں ہر دور کی سیاست میں مسلمان سب سے زیادہ ٹھگے گئے ہیں۔ ہر ایک سیاسی پارٹی اپنامفاد پورا کرنے کے بعد بے یار و مددگار چھوڑ دیتی ہے۔ ہمارے آپسی اختلافات اور قیادت کے بحران کا یہ سیاسی پارٹیاں بے فائدہ حاصل کرتی ہیں۔ نتیجے میں ہم سیاسی طور پر آج 70 برسوں سے زائد کی تاریخ میں کچھ خاص فائدے میں نہیں رہے۔ ہمارے قائدین نے وقت بوقت کوششیں کیں کہ ہمیں منتشر ہونے سے بچایا جائے لیکن نتیجہ صفر رہا۔
آج ہمیں پھر ایسے نوجوانوں کی ضرورت ہے جو اس سیاسی بحران کو سمجھیں اور دوسروں میں یہ بیداری لائیں کہ ہم ہندوستان کی موجودہ سیاسی نظام میں اپنی قیادت قائم کریں۔ یہ تبھی ممکن ہے جب تعلیمی سطح پر کامیاب ہوں گے۔ آپسی اختلافات کا خاتمہ کریں گے۔ اتحاد و اتفاق کا ماحول قائم کریں گے۔
ہمیں یہ بات بھی ذہن نشین رکھنا ہے کہ ایک تو اقلیتی طبقے میں قیادت کا کبھی بھی بحران نہیں رہا۔ مولانا ابولکلام آزاد، خان عبدالخان غفار،اور دیگر مسلم رہنماؤں نے ہمارے سامنے مثالیں قائم کی ہیں۔ موجودہ دور میں بھی مسلم قیادت پر اتفاق کرنے کی ضرورت ہے۔ قوم و ملت کے لیے اپنے لیڈرکا صحیح انتخاب ایک چیلنج ضرور ہے لیکن کوئی برا مشکل مرحلہ نہیں ہے۔
ایک اہم بات یہ بھی کہ ہماری قوم و ملت کے نوجوانوں اور طلبا کے درمیانہندوستان کے سیاسی نظام میں دل چسپی لینے اور اپنی قوم کے لیے سیاست میں اپنی حصہ داری مضبوط کرنے کی طرف بھی راغب کرنا ہوگا اور ان کی بڑھ چڑھ کر حوصلہ افزائی کرنی ہوگی۔
اخلاقی سطح پر:
ہمارے درمیان اخلاقیات ایک اہم معاملہ ہے۔ اخلاقی طور پر مظبوط قومیں ہی ترقی یافتہ قومیں کہلاتی ہیں۔ ملک کی ترقی و ترویج میں ایک بااخلاق قوم کا بڑا ہاتھ رہا ہے۔ہمیں چاہئے کہ ہم اخلاقی سطح پر خود کو انفرادی سطح پر اتنا مضبوط کریں کہ ملک اور غیر ممالک کے لوگوں میں وہ یقین پیدا کر سکیں جو ایک بااخلاق قوم سے درکار ہوتا ہے۔ اخلاقی درس کو اپنے تعلیمی نظام کا اہم حصہ بنائیں۔ اپنے بزرگوں، ائما اور قائد کا احترام ان کی تقلید کو اپنی زندگی کا شیوہ بنا کر ہم ایک بااخلاق ملت کا حصہ ہونے کا حق ادا کر سکتے ہیں۔یہ آج کے دور کی سب سے اہم ضرورت ہے۔بچوں میں میں اخلاقیات کے درس کو یقینی بنائیں۔ان میں اسلامی تعلیمات اور تربیت کی دل چسپی پیدا کریں۔معاشرے کے ساتھ تال میل اور ناشائستہ حالات میں اپنے خود کو ثابت کرنے کی صلاحیت پیدا کرنے کا درس دیں۔اصلاحی معاشرے کے بنیاد گذار علما ء و دانشوران کی اہمیت وعظمت سے واقف کرنے کرانے کی ذمہ داری کا احساس ہماری نسلوں کو ایک خوش گوار ماحول سے آشنا کر سکتا ہے۔
جنرل سکریٹری،ہندی اردو ساہتیہ ایوارڈ کمیٹی
+91 9415 062979

 

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here