کورونا کی وبا نے جرمنی میں کھانے کی عادات بھی بدل ڈالیں

0
132

گھر سے کام کرنے اور بند ریستورانوں نے کچھ لوگوں کی کھانا پکانے اور کھانے کی عادات بدل کر رکھ دی ہیں، خاص طور پر جب بات گوشت خوری کی ہو۔ کیا اس سے کھانے کی پیداوار اور کھپت پر دیرپا اثر پڑ سکتا ہے؟


تمام تر نقصانات کے باوجود، جرمنی میں لاک ڈاؤن نے بہت سے لوگوں کو اپنی صحت بہتر بنانے کی کوششیں کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ یوگا میٹس کی آن لائن سرچ میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے، اور کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے نہ صرف پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرنے کے خوف سے بلکہ ورزش کی وجہ سے بھی سائیکلنگ شروع کر دی ہے۔ سڑکوں اور پارکوں میں زیادہ سے زیادہ لوگ چلتے پھرتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ فٹنس مراکز اور سوئمنگ پولز بند ہونے کے باوجود بہت سے لوگوں جسمانی طور پر متحرک اور فعال رہنے کے طریقے ڈھونڈ رہے ہیں۔

زیادہ کھانا گھر میں پکانا

بہت سے لوگوں نے کھانے کی زیادہ صحت بخش عادات بھی اپنا لی ہیں۔ ہانس لوہمن فاؤنڈیشن کے لیے مارکیٹ ریسرچ کمپنی کنٹر کے ایک سروے کے نتائج کے مطابق نئے کورونا وائرس کے پھیلنے سے پہلے ہر چار میں سے ایک شخص اکثرکھانا گھر پر پکا رہا ہوتا تھا۔ سروے میں شامل افراد میں سے زیادہ تر نے کہا کہ وہ کھانا انہی تراکیب کے مطابق بنا رہے ہیں، جو وہ پہلے سے جانتے تھے۔ لیکن 18 فیصد رائے دہندگان نے کہا کہ وہ اب زیادہ صحت بخش طریقے سے کھانا بنا رہے ہیں۔

 

اس سروے میں حصہ لینے والوں میں سے 70 فیصد کے لیے اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلے کی نسبت زیادہ سلاد اور تازہ سبزیاں کھائی جائیں، 48 فیصد نے زیادہ سبزی دار پکوان کھانے کی بات کی۔ تقریباﹰ 38 فیصد نے کہا کہ انہوں نے پہلے سے کہیں زیادہ بیکنگ کی ہے۔ اس وجہ سے کہ بہت سی جرمن سپر مارکیٹوں میں وبا کے ابتدائی ہفتوں میں آٹا اور خمیر تلاش کرنا مشکل ہو گیا تھا۔

یہ سروے اپریل کے آخر میں کیا گیا، یعنی گوشت کی صنعت سے متعلق ان خبروں کے آنے سے پہلے، جو میڈیا میں سرخیوں کی وجہ بنیں۔ ہوا یہ تھا کہ قصاب خانوں میں کام کرنے والے درجنوں کارکنوں میں کووڈ 19 کی تشخیص ہوئی، جس کی وجہ ان کارکنوں کی اکثر بہت چھوٹی چھوٹی رہائش گاہوں میں رہنے والے افراد کی زیادہ تعداد بنی تھی۔ دوسرے انسانوں کے ہجوم میں رہنے والے قصاب خانوں کے کارکنوں کے غیر معیاری اور غیر صحت مند حالات جرمنی کے سیاسی حلقوں میں بحث کا سبب بھی بنے۔ حیرت کی بات لیکن یہ ہے کہ میڈیا میں ایسی خبروں کے ساتھ چھپنی والی گوشت کی تصاویر بھی گوشت خوروں کی گوشت کھانے کی عادت پر اثر انداز نہ ہوئیں۔ گزشتہ چند ہفتوں میں بظاہر جرمن صارفین کی طرف سے گوشت کے استعمال میں کوئی کمی نہیں آئی۔

مویشیوں اور گوشت کی پیداواری صنعت کی نمائندہ جرمن ایسوسی ایشن VEGZ نے تاہم اپنی مصنوعات کی قیمتیں بڑھا دی ہیں۔ کچھ قصاب خانوں کے مالکان کوعارضی طور پر اپنے سلاٹر ہاؤس بند کرنے پر بھی مجبور کیا گیا تھا لیکن اس سے گوشت کی کم قیمت پر اثر نہیں پڑا، یہاں تک کہ بہت سے ریستورانوں کے دوبارہ کھلنے کے ساتھ ہی گوشت کی مانگ میں اضافہ بھی ہوا ہے۔

کم گوشت؟

لگتا ہے کہ جرمنی میں عام لوگ گزشتہ چند سالوں کے مقابلے میں مجموعی طور پر اب کم گوشت کھا رہے ہیں۔ جرمنی کی گوشت کی صنعت کی فیڈریشن )بی وی ڈی ایف( کے مطابق سؤر کے گوشت کی طلب، جو جرمنی میں سب سے زیادہ کھایا جانے والا گوشت ہے، خاص طور پر کم ہو رہی ہے۔ سن 2019 میں جرمن صارفین نے اوسطاً 60 کلو گرام یا 132 پاؤنڈ فی کس سے کم گوشت کھایا۔ میڈ کاؤ کی بیماری کے بحران کے بعد سے یہ عام شہریوں کی طرف سے کھائے جانے والے گوشت کی سب سے کم سالانہ فی کس مقدار تھی۔

یہ تفصیلات جرمن وزارت خوراک و زراعت کی طرف سے سن 2020 کے اوائل میں کرائے گئے فورسا سروے سے حاصل ہوئی تھیں۔ سروے کے نتائج کے مطابق اس تب 26 فیصد رائے دہندگان نے ہر روز گوشت کھایا تھا جبکہ پانچ سال پہلے یہ شرح 34 فیصد رہی تھی۔ اس وزارت کے مطابق روزانہ گوشت کھانے والے جرمنوں کی تعداد مسلسل کم ہو رہی ہے۔

اس سروے سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ جرمنی کی آبادی میں پانچ فیصد ‘ویجیٹیرین‘ اور ایک فیصد ‘ویگان‘ افراد کی شرح میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی تھی۔ جرمنی میں بہت سے لوگ، خاص طور پر نوجوان، ایسے بھی ہیں جو ‘متبادل گوشت‘ کی مصنوعات، جیسے لیبارٹری میں تیار کردہ گوشت یا کیڑوں سے حاصل کی گئی پروٹین کو کھانے کے طور پر آزمانے پر تیار ہیں۔ اس سروے میں شامل 49 فیصد صارفین نے کہا کہ وہ ایسی مصنوعات استعمال کر چکے ہیں۔

(بشکریہ ڈی ڈبلو)

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here