9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مند
ڈاکٹر مظفر حسین غزالی
ملک میں کورونا سے بچاؤ کا ویکسین آ چکا ہے۔ صحت کارکنوں، سیاست دانوں اور سماج کے معزز حضرات کو یہ دیا جا رہا ہے۔ کورونا کا ٹیکہ آن لائن بکنگ کے ذریعہ لیا جا سکتا ہے۔ ابھی ویکسین کی پہلی خوراک دی جا رہی ہے۔ مکمل تحفظ کیلئے دو خوراکیں اور دی جائیں گی۔ خبر آئی ہے کہ یکم اپریل سے 45 سال سے اوپر والے لوگوں کو ویکسین دی جائے گی، مگر ویکسین کو لے کر سماج میں بہت سی غلط صحیح باتیں گشت کر رہی ہیں۔ کچھ لوگ کورونا کو سرے سے خارج کرتے ہوئے بھی مل جائیں گے۔ ان کی دلیل ہے کہ اگر واقعی یہ بیماری مہلک ہے تو پھر اس وبائی بحران کے دوران انتخابات کیسے ہو رہے ہیں۔ ہزاروں، لاکھوں کی بھیڑ کیسے جمع ہو رہی ہے۔ انتخابی تشہیر میں کووڈ سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر کیوں اختیار نہیں کی جا رہیں وغیرہ۔ دوسری طرف ماہرین صحت اور حکومت دوائی کے ساتھ بچاؤ پر زور دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بھارت میں بنی ویکسین ہر طرح محفوظ ہے۔ ٹیکہ لینے والوں میں سے کچھ نے ویکسین لینے کے بعد معمولی بخار اور بدن میں درد کی شکایت کی تو کچھ نے کسی طرح کا اثر ہونے سے انکار کیا۔ٹیکہ کاری کے بعد کئی لوگوں کے مرنے کی خبر بھی آئی ہے۔ شعبہ صحت نے ان اموات کو ٹیکہ کے بجائے دوسری بیماریوں کا نتیجہ بتایا ہے۔ انتظار کیجئے ویکسین کی اصل پرکھ عوام تک پہنچنے کے بعد ہوگی۔
اس وقت کورونا کی دوبارہ آہٹ سے لوگوں کو لاک ڈاؤن کا ڈر ستا رہا ہے۔ بچوں کی پڑھائی کو لے کر عام آدمی پریشان ہے۔ ایک سال سے زیادہ ہو گیا، ملک بھر میں اسکولیں تقریباً بند ہیں۔ جو کھلے یا کھلنے کی تیاری میں تھے، وہاں بھی کورونا انفیکشن نے دہشت پیدا کر دی ہے۔ گھروں میں بچوں کی آن لائن پڑھائی ہو رہی ہے، مگر اسمارٹ فون، لیپ ٹاپ، کمپوٹر اور انٹرنیٹ سے محروم طلبہ آن لائن تعلیم سے نہیں جڑ پائے۔ کورونا بحران میں وہ تعلیم سے محروم رہے۔ کورونا کی عالمی وبا نے سماج کے اقتصادی، سماجی پہلوؤں کو اجاگر کر دیا۔ تالا بندی کے دوران نابرابری کی چھپی ہوئی دراڑیں ابھر کر اور گہری ہو گئیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تعلیم حاصل کرنے کی خواہش رکھنے والی آبادی کا بڑا حصہ غریب ہے۔ اس میں شہری اور دیہی دونوں علاقے شامل ہیں۔ غریب اور محروم طبقات کو معلوم ہے کہ وہ صرف تعلیم کے ذریعہ آگے بڑھ سکتے ہیں۔ وزارت برائے انسانی وسائل اور ترقی کی 16-2017 کی رپورٹ بھی اس کی تصدیق کرتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق 11.3 کروڑ (65%) بچے آج بھی عام اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ان میں اکثریت ان بچوں کی ہے جو اقتصادی وسماجی طور پر پسماندہ خاندانوں سے آتے ہیں۔ کورونا کا ان خاندانوں پر اثر ان کے بچوں کی تعلیم کی سمت طے کرے گا۔
مہاتما گاندھی نے بھی ملک کو مضبوط بنانے کیلئے تعلیم پر سب سے زیادہ زور دیا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ 73 سال میں ملک نے تعلیمی میدان میں بہت ترقی کی ہے۔ 18 سے 23 سال عمر کے تقریباً پونے چار کروڑ (یعنی 27 فیصد) طلبہ و طالبات اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں کی تعداد میں بھی غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ اس وقت ملک میں 993 یونیورسٹیاں، 40 ہزار کے آس پاس ڈگری کالج اور قریب گیارہ ہزار نجی اعلیٰ تعلیم کے ادارے کام کر رہے ہیں، لیکن پھر بھی 18 سے 23 سال عمر کی 70 فیصد سے زیادہ آبادی اعلیٰ تعلیم کے دائرے سے باہر ہے۔ اس کی بڑی وجہ ڈراپ آؤٹ یعنی بچوں کا بیچ میں پڑھائی چھوڑ دینا ہے۔ یہ رویہ لاکھوں بچوں کو اعلیٰ تعلیم سے دور رکھتا ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ کورونا بحران سے اعلیٰ تعلیم اور متاثر ہوگی۔
ایک سال گزرنے کے بعد بھی اسکول، کالج، تکنیکی اداروں اور جامعات میں معمول کی تعلیم شروع نہیں ہو پائی ہے۔ جس کی وجہ سے غریب بچوں میں پیچھے چھوٹنے کا تناؤ بڑھا ہے۔ نوبل انعام یافتہ کیلاش ستیارتھی کے مطابق اسکولوں پر تالا لگنے سے بڑی تعداد میں غریب بچوں کے اسکول چھوڑ دینے کا امکان ہے۔ عام دنوں میں ہر سال 30 فیصد بچے آٹھویں جماعت تک نہیں پہنچ پاتے اور قریب پانچ فیصد اسکول چھوڑ دیتے ہیں۔ نیشنل یونیورسٹی آف ایجوکیشنل پلاننگ کے سابق وائس چانسلر پروفیسر آر گووند کا کہنا ہے کہ غریب بچوں میں سے زیادہ تر کے والدین نے لیپ ٹاپ، موبائل نہ ہونے کی وجہ سے ایک بچے کو ٹھیک سے پڑھانے اور دوسرے سے پڑھائی چھوڑوا دینے کا سوچا ہے۔ اس کا سیدھا اثر لڑکیوں کی تعلیم پر پڑا ہے۔ لڑکوں کے مقابلہ لڑکیوں کے بیچ میں پڑھائی چھوڑنے کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ اقتصادی، سماجی اور اسکول میں لڑکیوں کیلئے الگ بیت الخلا نہ ہونے کا بھی لڑکیوں کی تعلیم پر اثر پڑتا ہے۔ پروفیسر گووند کے مطابق کورونا بحران میں آٹھویں کلاس تک کی 15 فیصد لڑکیوں نے اسکول چھوڑ دیا ہے۔
کمیونٹی انٹرنیٹ میڈیا پلیٹ فارم لوکل سرکل نے ملک بھر کے 224 ضلعوں میں بچوں کے والدین کا سروے کیا ہے۔ اس کے مطابق دیہی و محروم علاقوں کے 69 فیصد لوگ چاہتے ہیں کہ اسکول کھلیں اور ان کے بچوں کو پڑھنے کے لئے اسکول جانے دیا جائے۔ وہیں بڑے شہروں اور تمام وسائل رکھنے والے طلبہ کے والدین اب بھی چاہتے ہیں کہ ان کے بچوں کو اسکول نہ آنا پڑے۔ اس کا اندازہ دہلی حکومت کے نویں سے بارہویں جماعت تک کے اسکولوں کو کھولنے کی چھوٹ دیئے جانے سے لگایا جا سکتا ہے۔ ریاستی حکومت نے 21 فروری سے اسکول کھول دیئے۔ دسویں اور بارہویں کے بورڈ امتحانات کو دیکھتے ہوئے والدین نے اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے کی حامی بھر دی لیکن نویں اور گیارہویں کے طلبہ کو اسکول بھیجنے سے انکار کر دیا۔ کہا یہ گیا کہ بچے ورچول کلاسیں تو لے ہی رہے ہیں۔ پھر انہیں اسکول بلانے کی کیا ضرورت ہے۔ آن لائن تعلیم سے یہ بات صاف ہو گئی ہے کہ ورچول کلاس نارمل کلاس کی جگہ نہیں لے سکتے۔ اول یہ کہ کئی طلبہ ورچول حاضری دکھا کر ویڈیو بند کر لیتے ہیں یا دوسرے کسی انٹرنیٹ گیم میں لگ جاتے ہیں۔ دوسرے اساتذہ کی آن لائن تعلیم دینے کے لئے تربیت نہیں ہو سکی ہے اور نہ ہی آن لائن تعلیم کا درسی مواد طلبہ کو مہیا کرایا گیا ہے۔ اس کی وجہ سے نہ اساتذہ آن لائن تعلیم کا حق ادا کر پاتے ہیں اور نہ ہی طلبہ کچھ سیکھ پاتے ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ کہ اس طریقہ تعلیم میں نہ طلبہ و اساتذہ کے درمیان سیدھے گفتگو ہو پاتی ہے۔ نہ ہی سوال و جواب اور نہ ہی بچوں کی ذہنی و جسمانی نشوونما۔
ملک میں آج خود کفیل ہونے کی بات ہو رہی ہے۔ جو تعلیم کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تعلیم کا دائرہ بڑھانے میں آن لائن تعلیم معاون ہو سکتی ہے۔ وہ طلبہ و طالبات جو دور دراز کے اسکول کالج میں نہیں جا سکتے یا جنہیں میرٹ یا داخلہ امتحان میں ناکامی کی وجہ سے اسکول کالج میں داخلہ نہیں مل پاتا وہ آن لائن تعلیم کے ذریعہ اپنے خوابوں کو پورا کر سکتے ہیں۔ نئی تعلیمی پالیسی 2020 میں علم و ہنر میں تال میل بٹھانے، مجموعی اندراج کو پچاس فیصد سے زیادہ پہنچانے، مضامین کی قید کو ختم کرنے اور معیاری تعلیم کو فروغ دینے پر زور دیا گیا ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ وزیراعظم کا پچاس لاکھ اسکولوں اور پچاس ہزار سے زیادہ اعلیٰ تعلیمی اداروں کو ڈیجیٹل بنانے کا منصوبہ ہے۔ کروڑوں شہریوں کو تعلیم یافتہ بنانے میں یہ بڑا قدم ثابت ہوگا۔ آن لائن تعلیم کو فروغ دے کر ہم دنیا کے سامنے مثال پیش کر سکتے ہیں۔ اس کیلئے آن لائن تعلیم کے چیلنج کو قبول کرتے ہوئے تکنیکی ڈھانچے کو مضبوط کرنا ہوگا۔ ساتھ ہی تمام ضروری تیاریوں کو پورا کرنے پر خاص توجہ دینی ہوگی کیونکہ اس کے بغیر آن لائن تعلیم کا خواب پورا نہیں ہو سکتا۔
٭٭٭